غزل
خدا تو بندوں پہ مہرباں ہے
مگر بغاوت پہ اپنی جاں ہے
بلند کوئی خیال لاؤں
یہ طاقتِ فکر اب کہاں ہے
زمین والے ہیں مست خود میں
بہت بلندی پہ آسماں ہے
جو لامکانی کہیں ہے مشہور
در اصل وہ بھی تو اک مکاں ہے
جو کچھ ہے دل میں نکال دے گی
ہماری دشمن یہی زباں ہے
مجھے ہی کیوں جستجو ہے اتنی
کہ سامنے میرے کارواں ہے
برا ہو چاہے کوئی بھلا ہو
ہے سب سے اک جیسی کیوں کہ ماں ہے
ہیں اک زمانے کی ٹھوکریں کھائیں
کہیں کوئی مجھ سا سخت جاں ہے ؟
*****