خدا سے دوری کا یہ اثر ہے ہمیں مسائل نے آن گھیرا---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
فلسفی
-------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
-------------
خدا سے دوری کا یہ اثر ہے ہمیں مسائل نے آن گھیرا
کہاں سے پائیں گے روشنی ہم سیاہ بادل ہیں گُھپ اندھیرا
-----------------------
خدا سے رکھنا اُمید واثق کبھی تو بدلیں گے دن ہمارے
کبھی تو منزل ملے گی ہم کو کبھی تو ہو گا نیا سویرا
----------------------
بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
چمن وہ آباد ہو گا کیسے ، جہاں پہ الّو کریں بسیرا
---------------
اثر ہے باقی ابھی بھی اُن کا چلے گئے وہ مگر یہیں ہیں
بنے تھے خادم عوام کے جو عوام کا ہی بدن اُدھیرا
-------------------
پڑے رہیں گے وہ جیل میں سب یہی مقدّر میں اب لکھا ہے
-----------یا
انہیں کئے کی سزا ملی ہے نہ جرم کرتے نہ جیل جاتے
جو زہر ان میں بھرا ہوا ہے ، نکالنے کو ہے اب سپیرا
----------------
خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن ہمارا رہے سلامت
مری خدا سے یہی دعا ہے ، رہے یہ اونچا سدا پھریرا
--------------
پھریرا---جھنڈا
----------------
 

عظیم

محفلین
خدا سے دوری کا یہ اثر ہے ہمیں مسائل نے آن گھیرا
کہاں سے پائیں گے روشنی ہم سیاہ بادل ہیں گُھپ اندھیرا
-----------------------ٹھیک ہے

خدا سے رکھنا اُمید واثق کبھی تو بدلیں گے دن ہمارے
کبھی تو منزل ملے گی ہم کو کبھی تو ہو گا نیا سویرا
----------------------خدا لفظ کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ 'اسی سے' کیا جا سکتا ہے۔ باقی درست ہے

بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
چمن وہ آباد ہو گا کیسے ، جہاں پہ الّو کریں بسیرا
---------------الوؤں کے بسیرا کرنے سے چمن کا آباد نہ ہونا درست نہیں لگ رہا۔

اثر ہے باقی ابھی بھی اُن کا چلے گئے وہ مگر یہیں ہیں
بنے تھے خادم عوام کے جو عوام کا ہی بدن اُدھیرا
------------------- ادھیرا شاید کوئی لفظ نہیں ہے۔

پڑے رہیں گے وہ جیل میں سب یہی مقدّر میں اب لکھا ہے
-----------یا
انہیں کئے کی سزا ملی ہے نہ جرم کرتے نہ جیل جاتے
جو زہر ان میں بھرا ہوا ہے ، نکالنے کو ہے اب سپیرا
----------------یہ واضح نہیں ہے کہ کن لوگوں کی بات ہو رہی ہے

خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن ہمارا رہے سلامت
مری خدا سے یہی دعا ہے ، رہے یہ اونچا سدا پھریرا
--------------دوسرے مصرع کے پہلے ٹکڑے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
کبھی نہ اس پر کچھ آنچ آئے، وغیرہ اور اگلے ٹکڑا میں 'رہے یہ' عجیب لگتا ہے۔ 'رہے یوں' کے بارے میں بھی سوچیں
 
الف عین
عظیم
خدا سے دوری کا یہ اثر ہے ہمیں مسائل نے آن گھیرا
کہاں سے پائیں گے روشنی ہم سیاہ بادل ہیں گُھپ اندھیرا
-------------------
اسی سے رکھنا اُمید واثق کبھی تو بدلیں گے دن ہمارے
کبھی تو منزل ملے گی ہم کو کبھی تو ہو گا نیا سویرا
-------------------
بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
چمن وہ آباد ہو گا کیسے ، جہاں پہ مشکل ہوا بسیرا
--------------
وطن کو میرے سمجھ لیا تھا ،ملی وراثت ہو ان کو جیسے
یہ اس کو ایسے ہی کھا رہے تھے لذیذ جیسے ہو اک بٹیرا
---------------
اثر جو باقی عوام میں ہے اسے نکالیں گے سب ہی مل کر
بنے تھے خادم عوام کے وہ ، انہیں دیا تھا فقط اندھیرا
-------------------
حساب دینا پڑے گا ان کو جو لوٹتے تھے وطن کو میرے
جو زہر ان میں بھرا ہوا ہے ، نکالنے کو ہے اب سپیرا
----------------
خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن پہ کوئی نہ آنچ آئے
مری خدا سے یہی دعا ہے ، رہے یہ اونچا سدا پھریرا
-------------یا
مرے وطن کا مرے خدایا بلند رکھنا سدا پھریرا
-------------
 

عظیم

محفلین
خدا سے دوری کا یہ اثر ہے ہمیں مسائل نے آن گھیرا
کہاں سے پائیں گے روشنی ہم سیاہ بادل ہیں گُھپ اندھیرا
-------------------اس کو تو ٹھیک کہا ہوا ہے

اسی سے رکھنا اُمید واثق کبھی تو بدلیں گے دن ہمارے
کبھی تو منزل ملے گی ہم کو کبھی تو ہو گا نیا سویرا
-------------------یہ بھی بہتر ہو گیا ہے

بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
چمن وہ آباد ہو گا کیسے ، جہاں پہ مشکل ہوا بسیرا
--------------چمن میں کون بسیرا کرتا ہے؟

وطن کو میرے سمجھ لیا تھا ،ملی وراثت ہو ان کو جیسے
یہ اس کو ایسے ہی کھا رہے تھے لذیذ جیسے ہو اک بٹیرا
---------------پہلے مصرعہ کا دوسرا ٹکڑا بہتری چاہتا ہے۔ لیکن بٹیرا قافیہ کی وجہ سے شعر اچھا نہیں لگ رہا

اثر جو باقی عوام میں ہے اسے نکالیں گے سب ہی مل کر
بنے تھے خادم عوام کے وہ ، انہیں دیا تھا فقط اندھیرا
-------------------کس چیز کا اثر باقی ہے؟ اور سب کون مل کر نکالیں گے؟ 'ہم سب' وغیرہ ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے میں بھی یہی معاملہ ہے کہ کون خادم بنے تھے؟ اور کنہیں اندھیرا دیا گیا تھا؟

حساب دینا پڑے گا ان کو جو لوٹتے تھے وطن کو میرے
جو زہر ان میں بھرا ہوا ہے ، نکالنے کو ہے اب سپیرا
----------------زہر کن لوگوں میں بھرا ہوا ہے یہ واضح نہیں ہے۔

خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن پہ کوئی نہ آنچ آئے
مری خدا سے یہی دعا ہے ، رہے یہ اونچا سدا پھریرا
-------------یا
مرے وطن کا مرے خدایا بلند رکھنا سدا پھریرا
-------------پہلا مصرع پہلا ہی بہتر تھا۔ بس دوسرے میں 'مری خدا سے یہی دعا ہے' کو بدلنے کی ضرورت تھی۔ اور 'رہے یہ' کو بھی تبدیل نہیں کیا گیا؟
 
@عطیم
صحیح اشعار چھوڑ کر باقی
-------------
بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
غریب بندے جئے گے کیسے ، جہاں پہ مشکل ہوا بسیرا
-------------

وہی ہیں مالک مرے وطن کے ،انہوں نے خود ہی سمجھ لیا تھا
پڑے ہیں جیلوں میں سب لٹیرے ، وہیں پہ پکّا ہے اب تو ڈیرا
-------------
اگر حمایت کرے جو ان کی ، نکال باہر کریں گے اس کو
بنے تھے خادم عوام کے وہ ، انہیں دیا تھا فقط اندھیرا
------------------
وطن کرپشن سے پاک کر دو بہت سا نقصان ہو چکا ہے
کریں گے روشن وطن کو مل کر رہے گا باقی نہ کچھ اندھیرا
---------------
حساب دینا پڑے گا ان کو جو لوٹتے تھے وطن کو میرے
وہ ناگ بن کر جو ڈس رہے تھے ،انہیں کی خاطر ہے اب سپیرا
---------------یا
وہ ناگ سارے چھپے ہوئے ہیں، نیا جو حاکم ہے اک سپیرا
---------
کبھی نہ آئیں گے اب وہ واپس ، عوام ان کو سمجھ گئے ہیں
بنے تھے حاکم سبھی لٹیرے ، تھا کون ان میں نہ ہو لٹیرا
----------
خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن ہمارا رہے سلامت
مرے خدایا مرے وطن کا بلند رکھنا سدا پھریرا
-------------
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بنے تھے رہبر جو لوگ اپنے وہ لوٹتے تھے وطن ہمارا
غریب بندے جئے گے کیسے ، جہاں پہ مشکل ہوا بسیرا
-------------دوسرے میں 'جئیں گے' کا محل ہے۔ شعر دو لخت ہو گیا ہے

وہی ہیں مالک مرے وطن کے ،انہوں نے خود ہی سمجھ لیا تھا
پڑے ہیں جیلوں میں سب لٹیرے ، وہیں پہ پکّا ہے اب تو ڈیرا
-------------خود ہی کی جگہ خود یہ شاید بہتر رہے۔ جیلوں میں 'یہ سب' یا 'وہ سب لٹیرے' ہونا چاہیے تھا۔

اگر حمایت کرے جو ان کی ، نکال باہر کریں گے اس کو
بنے تھے خادم عوام کے وہ ، انہیں دیا تھا فقط اندھیرا
------------------کوئی حمایت کرے جو ان کی... ہو سکتا ہے
شعر میں اب بھی وضح نہیں لگتا کہ کن لوگوں کا ذکر ہے

وطن کرپشن سے پاک کر دو بہت سا نقصان ہو چکا ہے
کریں گے روشن وطن کو مل کر رہے گا باقی نہ کچھ اندھیرا
---------------'پاک کر' میں ک کی تکرار ہے۔ یہ ایک شعر مجھے قابل قبول لگتا ہے

حساب دینا پڑے گا ان کو جو لوٹتے تھے وطن کو میرے
وہ ناگ بن کر جو ڈس رہے تھے ،انہیں کی خاطر ہے اب سپیرا
---------------یا
وہ ناگ سارے چھپے ہوئے ہیں، نیا جو حاکم ہے اک سپیرا
---------دوسرا مصرع 'حاکم' والا بہتر ہے۔ بیان کے اعتبار سے کچھ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے ربط بھی نہیں لگتا
'نیا جو حاکم ہے اک سپیرا' کا بیانیہ اچھا نہیں

کبھی نہ آئیں گے اب وہ واپس ، عوام ان کو سمجھ گئے ہیں
بنے تھے حاکم سبھی لٹیرے ، تھا کون ان میں نہ ہو لٹیرا
----------دوسرے مصرعہ کا دوسرا ٹکڑا بہتری کا متقاضی لگتا ہے۔
'وہ کون تھا جو نہ تھا لٹیرا' شاید چل جائے

خدا سے ارشد کرو دعائیں وطن ہمارا رہے سلامت
مرے خدایا مرے وطن کا بلند رکھنا سدا پھریرا
-------------دو لخت لگتا ہے۔ پہلے میں دعا کا بھی شاعر خود کو کہہ رہا ہے اور دوسرے میں دعا بھی شروع کر دی ہے۔ یہ کچھ عجیب لگتا ہے
 
Top