خدمت کی روح راحت و سہولت پہنچانا ہے۔ صرف مالی یا بدنی خدمت ہی اس سے مراد نہیں ہے۔ آپ اپنے کسی عمل سے کسی کو راحت، عافیت اور سہولت پہنچاتے ہیں ہے تو یہ آپ نے اس کی خدمت کی۔ اگر خدمت کے اس مفہوم کو سامنے رکھا جائے تو خدمت کرنا انتہائی آسان بات ہے۔ آپ جس شعبے میں بھی ہیں اس میں انسانی پہلو کو سامنے رکھیں تو اپنے کام کو خدمت بنا سکتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر ہیں تو فیس ضرور لیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے مریضوں کی راحت و سہولت کو پیش نظر رکھیں، آپ کا پیشہ آپ کے لیے باعث اجر و ثواب بن جائے گا۔ آپ کاروباری ہیں اپنے کاروبار کو اپنے لیے اجر و ثواب بنا سکتے ہیں۔ آپ منافع ضرور کمائیں لیکن کاروباری معاملات کے انسانی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے کاروبار کریں تو آپ کا کاروبار اللہ کو راضی کرنے والا عمل بن جائے گا۔ آپ اپنے منصب کے ذریعے عوام الناس کی سہولت کو پیش نظر رکھیں تو آپ کا منصب آپ کے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ سہولت و راحت پہنچانے کا معیار کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کو اپنے پیش نظر رکھیں تو معیار سمجھ میں آجاتا ہے :
عن انسؓ عن النبي ﷺ قال، لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه (صحیح البخاری)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے
چنانچہ معیار یہ ٹھہرا کہ آپ اپنے معاملات میں کسی اور سے جو راحت اور سہولت چاہتے ہیں اسی راحت و سہولت کو دوسروں کے لیے اختیار کریں۔ اس پہلو سے سوچیں تو دوسروں کو راحت پہنچانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے شر سے دوسروں انسانوں کو بچائے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے یعنی کسی کو برا بھلا کہنے ا ور تذلیل کرنے سے بچے، اپنے ہاتھ سے اس کو محفوظ رکھے اس لیے کہ کوئی بھی انسان ان چیزوں کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا!
خدمت اللہ تعالی کے ہاں بڑا قیمتی عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھیں:
عن انس بن مالكؓ ان النبي ﷺقال، الخلق كلهم عيال الله واحب خلقه اليه انفعهم لعياله (مشکوۃ)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے (یعنی سب مخلوق کی روزی اور ان کی زندگی کی ضروریات کا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے، جس طرح کہ کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی روزی اور ان کی ضروریات کا مجازاکفیل ہوتاہے) پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت ان بندوں سے ہے جو اس کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان کریں۔
اللہ ہم سب کو لوگوں کے لیے راحت اور سہولت پہنچانے والا بنائے۔ آمین!!!
عن انسؓ عن النبي ﷺ قال، لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه (صحیح البخاری)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے
چنانچہ معیار یہ ٹھہرا کہ آپ اپنے معاملات میں کسی اور سے جو راحت اور سہولت چاہتے ہیں اسی راحت و سہولت کو دوسروں کے لیے اختیار کریں۔ اس پہلو سے سوچیں تو دوسروں کو راحت پہنچانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے شر سے دوسروں انسانوں کو بچائے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے یعنی کسی کو برا بھلا کہنے ا ور تذلیل کرنے سے بچے، اپنے ہاتھ سے اس کو محفوظ رکھے اس لیے کہ کوئی بھی انسان ان چیزوں کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا!
خدمت اللہ تعالی کے ہاں بڑا قیمتی عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو پیش نظر رکھیں:
عن انس بن مالكؓ ان النبي ﷺقال، الخلق كلهم عيال الله واحب خلقه اليه انفعهم لعياله (مشکوۃ)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے (یعنی سب مخلوق کی روزی اور ان کی زندگی کی ضروریات کا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے، جس طرح کہ کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی روزی اور ان کی ضروریات کا مجازاکفیل ہوتاہے) پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت ان بندوں سے ہے جو اس کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان کریں۔
اللہ ہم سب کو لوگوں کے لیے راحت اور سہولت پہنچانے والا بنائے۔ آمین!!!