محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
(بچوں کے لیے مزید کہانیاں یہاں ملاحظہ فرمائیں)
’’دیکھو، میرے کان کتنے اچھے ہیں، پورے جنگل میں ایسے کان کسی کے نہیں۔‘‘
ہاتھی نے کہا: ’’غرور کرنا اچھی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے تمھیں کان دیے ہیں تو مجھے سونڈ دیکھو کتنی اچھی دی ہے، مگر میں کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے جیسی سونڈ کسی کے پاس نہیں۔‘‘
مگر گدھے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی، وہ اپنی خوشی میں مست وہاں سے تھوڑا آگے گیا تو اسے بندر نظر آیا، گدھے نے اس سے بھی کہا: ’’دیکھو میرے کان کتنے اچھے ہیں، تمھارے کان کتنے چھوٹے چھوٹے ہیں۔‘‘
بندر بہت ذہین تھا ، فوراً کہنے لگا: ’’ایسے لمبے لمبے کان تو خرگوش کے بھی ہیں۔‘‘
گدھا تیزی سے چلتا ہوا خرگوش کے پاس گیا، وہ سو رہا تھا، گدھے نے دیکھا اس کے کان بھی اتنے ہی لمبے ہیں، گدھے کو یہ بات ناگوار گزری کہ اس کے علاوہ کسی اور کے بھی اتنے لمبے لمبے کان ہیں، اس نے فوراً سوچاکہ کسی طرح خرگوش کے کان کاٹنے چاہییں۔ گدھا فوراً لومڑی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: ’’باجی! آپ سے ایک کام ہے؟‘‘
لومڑی کے پوچھنے پر گدھے نے اسے بتایا کہ خرگوش کے کان کاٹنے ہیں، کوئی آسان سی ترکیب بتائو۔
لومڑی نے کہا: ’’کیا مشکل ہے، بھیڑیے کے پاس جائو، اس سے کہو کہ خرگوش کے کان بہت ذائقے دار ہوتے ہیں، وہ سورہا ہے، تم جاکر اس کے کان کھالو۔‘‘
گدھا فوراً بھیڑیے کے پاس گیا اور اس سے یہی بات کہی۔ بھیڑیا راضی ہوگیا اور خوشی خوشی گدھے کے ساتھ خرگوش کے پاس گیا، خرگوش لیٹا ہوا تھا، مگر اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، بھیڑیے نے کہا: ’’یہ تو جاگ رہا ہے۔‘‘
گدھا بولا: ’’بھیڑیے بھائی! ہم یہیں کھڑے ہوکر انتظار کرتے ہیں، جیسے ہی یہ سوئے گا تم اس کے کان کھالینا۔‘‘
گدھا اور بھیڑیا دونوں وہاں کھڑے ہوگئے، وہ دونوں پوری رات کھڑے رہے، مگر خرگوش آنکھیں کھولے انھیں دیکھتا رہا، وہ بالکل خاموش تھا، مگر سو نہیں رہا تھا۔
بھیڑیے کو غصہ آگیا، اس نے دل میں سوچا خرگوش تو سو نہیں رہا، گدھے کو ہی شکار کرلیتا ہوں، اس نے گدھے کو قریب بلایا اور اچانک حملہ کرکے اس کا ایک کان کاٹ لیا، گدھا تکلیف سے تڑپنے لگا۔
کافی دنوں جب گدھے کا کان کچھ ٹھیک ہوا تو اس نے ایک دن خرگوش کے پاس جاکر اسے ساری کہانی سنادی پھر کہنے لگا: ’’خرگوش بھائی! مجھے سمجھ میں آگیا کہ جو دوسروں کو گرانے کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے، مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ خرگوش نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ تو گدھا کہنے لگا:
’’تم اس رات سو کیوں نہیں رہے تھے، کیا تمھیں معلوم تھا کہ بھیڑیا تمھارے سوتے ہی میرے کہنے پر تمھارے کان کاٹ لے گا۔‘‘
خرگوش ہنستے ہوئے بولا: ’’میرے گدھے بھائی! ایسی کوئی بات نہیں، میں اس دن سورہا تھا، اصل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بنایا ہی ایسا ہے کہ جب میں سوتا ہوں تو میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔‘‘
اور پھر ان دونوں میں دوستی ہوگئی۔
ایک دن خرگوش کہنے لگا: ’’میرے نام کے شروع میں ’’خر‘‘ ہے اور خر پتا ہے کس کو کہتے ہیں؟‘‘
گدھا بولا:’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
خرگوش نے کہا: ’’خر فارسی زبان کا لفظ کا ہے، اس کا ترجمہ بھی گدھا ہی ہے۔ میرے کان تمھارے جیسے ہیں اس لیے سب مجھے خرگوش(گدھے جیسے کان والا) کہتے ہیں۔‘‘ اس کی بات سن کر گدھا ہنسنے لگا۔
رائٹر: محمد اسامہ سَرسَرؔی
خرگوش اور گدھا
ایک گدھا اپنے لمبے کان جھیل میں دیکھ کر بہت خوش ہورہا تھا، اپنے برابر میں کھڑے ہاتھی سے کہنے لگا:’’دیکھو، میرے کان کتنے اچھے ہیں، پورے جنگل میں ایسے کان کسی کے نہیں۔‘‘
ہاتھی نے کہا: ’’غرور کرنا اچھی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے تمھیں کان دیے ہیں تو مجھے سونڈ دیکھو کتنی اچھی دی ہے، مگر میں کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے جیسی سونڈ کسی کے پاس نہیں۔‘‘
مگر گدھے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی، وہ اپنی خوشی میں مست وہاں سے تھوڑا آگے گیا تو اسے بندر نظر آیا، گدھے نے اس سے بھی کہا: ’’دیکھو میرے کان کتنے اچھے ہیں، تمھارے کان کتنے چھوٹے چھوٹے ہیں۔‘‘
بندر بہت ذہین تھا ، فوراً کہنے لگا: ’’ایسے لمبے لمبے کان تو خرگوش کے بھی ہیں۔‘‘
گدھا تیزی سے چلتا ہوا خرگوش کے پاس گیا، وہ سو رہا تھا، گدھے نے دیکھا اس کے کان بھی اتنے ہی لمبے ہیں، گدھے کو یہ بات ناگوار گزری کہ اس کے علاوہ کسی اور کے بھی اتنے لمبے لمبے کان ہیں، اس نے فوراً سوچاکہ کسی طرح خرگوش کے کان کاٹنے چاہییں۔ گدھا فوراً لومڑی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: ’’باجی! آپ سے ایک کام ہے؟‘‘
لومڑی کے پوچھنے پر گدھے نے اسے بتایا کہ خرگوش کے کان کاٹنے ہیں، کوئی آسان سی ترکیب بتائو۔
لومڑی نے کہا: ’’کیا مشکل ہے، بھیڑیے کے پاس جائو، اس سے کہو کہ خرگوش کے کان بہت ذائقے دار ہوتے ہیں، وہ سورہا ہے، تم جاکر اس کے کان کھالو۔‘‘
گدھا فوراً بھیڑیے کے پاس گیا اور اس سے یہی بات کہی۔ بھیڑیا راضی ہوگیا اور خوشی خوشی گدھے کے ساتھ خرگوش کے پاس گیا، خرگوش لیٹا ہوا تھا، مگر اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، بھیڑیے نے کہا: ’’یہ تو جاگ رہا ہے۔‘‘
گدھا بولا: ’’بھیڑیے بھائی! ہم یہیں کھڑے ہوکر انتظار کرتے ہیں، جیسے ہی یہ سوئے گا تم اس کے کان کھالینا۔‘‘
گدھا اور بھیڑیا دونوں وہاں کھڑے ہوگئے، وہ دونوں پوری رات کھڑے رہے، مگر خرگوش آنکھیں کھولے انھیں دیکھتا رہا، وہ بالکل خاموش تھا، مگر سو نہیں رہا تھا۔
بھیڑیے کو غصہ آگیا، اس نے دل میں سوچا خرگوش تو سو نہیں رہا، گدھے کو ہی شکار کرلیتا ہوں، اس نے گدھے کو قریب بلایا اور اچانک حملہ کرکے اس کا ایک کان کاٹ لیا، گدھا تکلیف سے تڑپنے لگا۔
کافی دنوں جب گدھے کا کان کچھ ٹھیک ہوا تو اس نے ایک دن خرگوش کے پاس جاکر اسے ساری کہانی سنادی پھر کہنے لگا: ’’خرگوش بھائی! مجھے سمجھ میں آگیا کہ جو دوسروں کو گرانے کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے، مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ خرگوش نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ تو گدھا کہنے لگا:
’’تم اس رات سو کیوں نہیں رہے تھے، کیا تمھیں معلوم تھا کہ بھیڑیا تمھارے سوتے ہی میرے کہنے پر تمھارے کان کاٹ لے گا۔‘‘
خرگوش ہنستے ہوئے بولا: ’’میرے گدھے بھائی! ایسی کوئی بات نہیں، میں اس دن سورہا تھا، اصل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بنایا ہی ایسا ہے کہ جب میں سوتا ہوں تو میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔‘‘
اور پھر ان دونوں میں دوستی ہوگئی۔
ایک دن خرگوش کہنے لگا: ’’میرے نام کے شروع میں ’’خر‘‘ ہے اور خر پتا ہے کس کو کہتے ہیں؟‘‘
گدھا بولا:’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
خرگوش نے کہا: ’’خر فارسی زبان کا لفظ کا ہے، اس کا ترجمہ بھی گدھا ہی ہے۔ میرے کان تمھارے جیسے ہیں اس لیے سب مجھے خرگوش(گدھے جیسے کان والا) کہتے ہیں۔‘‘ اس کی بات سن کر گدھا ہنسنے لگا۔
رائٹر: محمد اسامہ سَرسَرؔی