خزانہ آنکھوں کا ایسے کہیں لٹا ہی نہیں

خزانہ آنکھوں کا ایسے کہیں لٹا ہی نہیں
کوئی بھی شخص یہاں خواب دیکھتا ہی نہیں

مرا قبیلہ سپاہی نہیں مجاہد ہے
کسی بھی حال میں تلوار بیچتا ہی نہیں

پڑی ہے فکر خلاؤں میں رنگ بھرنے کی
زمیں کا قرض ابھی تک ادا ہوا ہی نہیں

مرے وجود نے خوش فہمی خاک کرڈالی
وہ مطمئن تھے کہ بستی میں آئینہ ہی نہیں

جو جانتا شجرِ سایہ دار کی عظمت
تو ننھے پودوں کو پیروں سے روندتا ہی نہیں

یہ نسل پہلے ہی پہچان کھو کے بیٹھی تھی
اور اب لبوں پہ کسی کے کوئی صدا ہی نہیں

ہوا کے زور سے آنکھیں ملائیں ، جنگ کریں
نئے پرندوں میں اظہرؔ یہ حوصلہ ہی نہیں

عبدالسلام اظہرؔ
 
Top