خرم شہزاد خرم
لائبریرین
معافی چاہتا ہوں مجھے اس نظم پر کسی کی اصلاح نہیں چاہے۔ جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کو ہی حرفِ آخر سمجھوں گا
خزاں آ کر ہی رہتی ہے
درختوں کاذرا بھی کب خزاں پر زور چلتا ہے
خزاں جب آنےلگتی ہے
خزاں آ کر ہی رہتی ہے
زمیں زرخیز کتنی ہو
فلک پانی بھی برسا لے
ہوائیں روشنی سب کچھ ، بدل سکتے نہیں اس کو
خزاں آ کر ہی رہتی ہے
خزاں آنے سے کچھ پہلے خزاں کا خوف ہوتا ہے۔
عجب سا خوف ہوتا ہے
پرندے بھی خزاں کے ڈر سے ہجرت کرنےلگتے ہیں
اداسی چھانے لگتی ہے
ہوائیں شور کرتی ہیں
اندھرے چھانے لگتے ہیں
خزاں کے خوف سے سورج بھی جلدی ڈوب جاتا ہے۔
خزاں ہر چیز پر چھا کر بہت مایوس کرتی ہے
خزاں کے ڈر سے ہر بندہ بہت مایوس ہوتا ہے
مرا چہرہ جو تم سب کو خزاں آلود لگتا ہے
مرے دل میں خزائیں رقص کرتی ہیں