الف نظامی
لائبریرین
از امام اہل سنت ، غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ
(ملحق در ترجمۃ البیان ۔ طبع اول ۔ جولائی 1987)
ترجمہ کا آغاز 1981 کے اوائل میں ہو چکا تھا ، جو بعونہ تعالی سال ختم ہونے سے قبل ہی مکمل ہو گیا۔(ملحق در ترجمۃ البیان ۔ طبع اول ۔ جولائی 1987)
اس ترجمہ کی ضرورت:-
عام طور پر یومیہ تلاوت کے لئے مترجم قرآن مجید کے جو نسخے مسلمانوں میں مروج ہیں ان میں زیادہ تر لفظی ترجمہ ہے۔ علاوہ ازیں ان کی زبان بہت پرانی ہے۔ جس کے اکثر الفاظ و محاورات اس زمانہ میں متروک اور غیر مانوس ہو چکے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اعلٰی حضرت الامام احمد رضا بریلوی ؒ کا ترجمہ ایک عظیم شاہکار ہے اور اپنے نہج میں وہ ایک ہی ترجمہ ہے لیکن اسی میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جن کا استعمال آج کل اردو محاورات میں متروک ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ اس کے منہاج پر کوئی دوسرا ترجمہ بھی سامنے لایا جائے چناچہ احباب کے اصرار پر یہ ترجمہ شروع کیا گیا جو بحمدہ تعالی پایہ تکمیل کو پہنچ کر ہمارے ناظرین کرام کے سامنے ہے۔
خصوصیات ترجمہ:-
1- اس ترجمہ میں ہم نے الفاظِ قرآن کی ترتیب کو حتی الامکان ملحوظ رکھا ہے اور مفہومِ قرآن کو عام فہم کرنے کے لئے سلیس اور سادہ زبان اختیار کی ہے
2- اس ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بعض مقامات پر مضمونِ آیت کی وضاحت یا کچھ شکوک و شبہات کے ازالے کے لئے ترجمہ کے دوران قوسین لگا کر دلائل شرعیہ اور تفاسیر معتبرہ کے مطابق مناسب الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے تا کہ قارئین کرام مضمونِ آیت کو سمجھ اور ان کے ذہن الجھن سے محفوظ رہیں۔
3- پورے ترجمہ قرآن میں جہاں کہیں لفظ "اللہ" اسمِ جلالت وارد ہوا ، ہم نے اس کے ترجمہ میں خدا کا لفظ نہیں لکھا۔ اگرچہ لفظ ِاللہ کا ترجمہ لفظِ خدا سے کرنا ناجائز نہیں تا ہم یہ حقیقت شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ ترجمہ الفاظ کی وضاحت کے لئے ہوتا ہے ۔ جن الفاظ کا ترجمہ کیا جائے اور ترجمہ کے الفاظ ان سے زیادہ واضح نہ ہوں تو وضاحت نہ ہو سکے گی۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ تعریفات میں مُعَرِف کا مُعَرَف سے اَعرَف ہونا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے کہ اسمِ جلالت لفظِ اللہ ، لفظِ خدا سے کہیں زیادہ اَعرَف ہے۔ اس لئے لفظِ خدا سے اس کا ترجمہ کرنا ترجمہ اور تعریف کا حق ادا نہیں کرتا۔
علاوہ ازیں اسمِ جلالت لفظِ اللہ کے معنی کی جامعیت لفظِ خدا میں نہیں پائی جاتی ۔ اس لئے ہم نے ترجمہ کرتے ہوئے لفظِ خدا کے بجائے لفظِ اللہ ہی استعمال کیا۔ پھر یہ کہ ترجمہ پڑھنے والوں کی زبان سے بار بار لفظ اللہ کا ادا ہونا ان کے لئے کثرتِ ثواب اور زیادتِ برکت و سعادت کا مُوجب ہے۔ یہ فائدہ لفظِ خدا کے کثرتِ تلفظ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
4- رحمن و رحیم کا ترجمہ پورے قرآن مجید میں ہم نے "نہایت رحمت والا" اور "بے حد رحم فرمانے والا" سے کیا ہے۔ کیوں کہ اس ترجمہ کے لیے ہمارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر الفاظ یہی ہیں۔
5- اگرچہ ہم نے لفظِ نبی کا ترجمہ ہر جگہ لفظِ نبی ہی کے ساتھ کیا ہے لیکن صرف ایک جگہ سورہ انفال کی آیت نمبر 64 میں یایھاالنبی کا ترجمہ کرتے ہوئے قوسین لگا کر لفظِ نبی کے حسبِ ذیل پورے معنی لکھ دئیے ہیں۔
"اے (بلند رتبہ انسان مبعوث من اللہ ہو کر غیب کی خبریں دینے والے ) نبی" یہ اس لئے کہ قارئین لفظِ نبی کے ترجمہ میں جہاں لفظِ نبی پڑھیں تو سمجھ لیں کہ لفظِ نبی کے مرادی معنی یہی ہیں جو محض اختصار کے پیشِ نظر ہر جگہ نہیں لکھے گئے۔
تحقیق لفظ النبی کے عنوان سے ہم نے ایک مستقل رسالہ لکھ دیا ہے جس میں علماء مفسرین و محدثین متکلمین ائمہ لغت کی تصریحات کے مطابق مدلل طور پر ثابت کر دیا ہے کہ لفظِ نبی کے مرقومہ بالا معنی حق ہیں اور ساتھ ہی متعلقہ شکوک و شبہات کا ازالہ بھی تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے۔
6- ہم نے للہ ما فی السمٰوٰتِ وَ مَا فِی الارضِ جیسی تمام آیاتِ قرآنہ کے ترجمہ میں لفظ ارض کا معنی کرتے ہوئے زمین کے بجائے زمینوں کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات پیدا فرمائی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اللہ الذی خلق سبع سموٰت ومن الارض مثلھن "اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اورانہی کے برابر زمینیں (سورۃ الطلاق ، آیت 12) ثابت ہوا کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔
لفظ ارض کو مفرد سمجھ کر یہ نہ کہا جائے کہ یہ واحد ہے اس لئے زمینوں کے لفظ سے اس کا ترجمہ صحیح نہیں۔ کیوں کہ لفظ ارض میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ وہ اسمِ جنس ہے ۔ دوسرا یہ کہ وہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی واحد نہیں۔ قاموس میں ہے:
الارض مونثۃ اسم جنس او جمع بلا واحد و لم یسمع ارضۃ
یعنی لفظ ارض مونث اسم جنس ہے یا وہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی واحد مسموع نہیں (قاموس جلد 2 ، صفحہ 323)
چوں کہ اس کے مادہ سے اس کا مفرد مسموع نہیں اور کسی دوسرے مادے سے بھی کوئی لفظ اس کے مفرد کے لئے کلام عرب میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس کے اسم جمع ہونے کے باوجود مفرد کے لئے بھی یہی لفظ ارض استعمال کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
والسحاب المسخر بین السماء ِو الارض
اور بادل جو آسمان اور زمین کے حکم کے تابع ہے (البقرہ، آیت 124)
اگر لفظ ارض کو اسم جمع کہا جائے تو ہمارے ترجمہ کی صحت بے غبار ہے اور اگر اسے اسم جنس قرار دیا جائے تب بھی زمینوں کے لفظ سے اس کا ترجمہ بالکل صحیح اور درست ہے کیوں کہ اسم جنس قلیل اور کثیر سب کو شامل ہوتا ہے۔
اللہ تعالی سب آسمانوں اور سب زمینوں کا مالک ہے اور ان کے مابین ہر چیز اسی کی ملک ہے۔ اس لیے ہم نے السموٰت ولارض اور اس جیسی آیات میں اپنے ترجمہ میں زمین کے بجائے زمینوں کا لفظ استعمال کیا۔
7- بعض آیات قرآنیہ مثلا:
و ما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم
اور
و لما یعلم اللہ الذین جاھدو منکم
جن سے بظاہر علم الہی کی نفی مفہوم ہوتی ہے۔ حسبِ مناسبتِ مقام ہم نے ان کا ایسا ترجمہ کیا ہے جو مراد الہی کے مطابق نفی علم کے بجائے ظہورِ معلوم کی نفی کا فائدہ دیتا ہے۔
جیسے
و ما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول
"اور (اے حبیب!) آپ ﷺ جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ ہم ظاہر (کر کے ممتاز) کر دیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرتے ہیں" (البقرہ آیت 143)
و لما یعلم اللہ الذین جاھدو منکم و یعلم الصابرین
"حالاں کہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو (ان کے غیروں) سے ممتاز نہیں کیا"
(آل عمران ، آیت 142)
8- ایسی تمام آیات قرآنیہ جن میں لفظ قوم کسی نبی کی طرف مضاف ہے۔ ہم نے اس کا ترجمہ لفظ قوم سے نہیں کیا بلکہ حسب مناسبتِ مقام ایسے الفاظ سے کیا ہے جن سے مرادی معنی واضح ہو جائیں۔ مثلا
و اذ استسقٰی موسی لقومہ (البقرہ ، آیت 60)
چوں کہ یہاں قوم سے مراد اُن کی امت ہے اس لیے ہم نے "قوم "کا ترجمہ لفظ "امت "سے کیا ہے۔
بعض آیات میں لفظ قوم سے مراد رسول کا قبیلہ ہے جن لوگوں میں رسول مبعوث ہوا جیسے
و ما ارسلنا من رسول الا بلسانِ قومہ (سورہ ابراہیم ، آیت 4)
اس آیت میں لفظ قوم سے مراد رسول کے قبیلے کے لوگ ہیں جن میں وہ رسول مبعوث ہوا۔ بعض مقامات پر لفظ قوم سے رسول کی دعوت و تبلیغ کے عام مخاطبین مراد ہیں جیسے
وابراھیم اذ قال لقومہ اعبدواللہ (عنکبوت ، آیت 16)
کچھ مقامات پر لفظ قوم سےخاص وہ لوگ مراد ہیں جو رسول کے منکر مخاطبین ہیں۔جیسے
یقوم لیس بی ضلالۃ (اعراف:41)
مفرداتِ راغب میں ہے لفظ قوم کے اصل معنی جماعۃ من االرجال ہیں۔ یعنی مردوں کی جماعت۔ اور قرآن مجید میں بالعموم لفظ قوم کے مفہوم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں۔ یعنی لفظ قوم کا ترجمہ ہے "لوگوں کی جماعت"۔ قبیلہ ہو، امت ہو ، عام مخاطبین ہوں یا خاص منکرین کا گروہ ، سبھی لفظ قوم کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے قوم کا ترجمہ لفظ قوم سے کرنا بھی صحیح ہے لیکن لفظ قوم چونکہ تمام مذکورہ معانی کو شامل ہے اس لیے ہم نے قوم کا ترجمہ ہر جگہ موقع کی مناسبت سے کیا ہے تا کہ مرادی معنی واضح ہو جائیں۔
علاوہ ازیں ان آیات کے ترجمہ میں "قوم" سے متحدہ قومیت کے نوایجاد نظریے کی طرف بھی ذہن بھٹک سکتا تھا اور یہ وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ جب کفار و مشرکین انبیا علیھم السلام کی قوم قرار پاسکتے ہیں تو ہندو و مسلم ایک قوم کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس ایہام واشتباہ سے بچنے کے لیے لفظ قوم کا ترجمہ موقع محل کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب الفاظ سے کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ متحدہ قومیت کا تصور نظریہ پاکستان سے متصادم ہی نہیں بلکہ پاکستان کی اساس کو منہدم کر دینے کے مترادف ہے لہذا نظریہ پاکستان کے دفاع اور مسلم قومیت کے تحفظ کی خاطر اس حقیقت کو ذہن نشین کرانا ضروری تھا۔
9- بکثرت آیاتِ قرانیہ میں بعض انبیا علیھم السلام کو لفظ "اَخ "سے تعبیر فرما کر مشرک قبائل کی طرف ان کی اضافت فرمائی گئی ہے مثلا:
و الی عاد اخاھم ھودا (سورہ اعراف ، آیت 65)
اصل میں "اَخ " اسی کو کہتے ہیں جو ولادت میں والدین کی طرف سے دوسرے کا شریک ہو یا دونوں میں سے ایک طرف سے یا رضاع میں کسی دوسرے کا شریک ہو ۔ اس کے علاوہ قبیلہ یا دین یا صنعت وغیرہ میں ایک دوسرے کے شریک کو بطور استعارہ "اَخ " یعنی بھائی کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ انبیاعلیھم السلام ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک طرف سے یا رضاع میں ان کے شریک نہ تھے صرف ان کے ہم قبیلہ تھے۔ اللہ تعالی نےبطور استعارہ ان کے مشرک قبائل کا انہیں "اَخ " فرمایا محض اس بات پر تنبیہ کے لیے کہ وہ ان پر ایسے مشفق تھے جیسے بھائی اپنے بھائی پر مشفق ہوتا ہے۔
اخَا عاد کے تحت امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں :
وقولہ اخا عاد سماہ اخا تنبیھا علی اشفاقہ علیھم سفقۃ الاخ علی اخیہ (مفردات راغب ، صفحہ 11)
انبیاء علیھم السلام کمالِ شفقت کی وجہ سے مشرک قبائل کے حق میں بھی قطعا اس بات پر راضی نہ تھے کہ وہ اپنے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں۔ وہ اس بات کو محبوب رکھتے تھے کہ ان کے قبائل ایمان لا کر جنتی ہو جائیں۔ ان آیات میں اخاھم کا ترجمہ "ان کے بھائی" کے الفاظ سے کرنا لغت کے اعتبار سے غلط نہیں لیکن لفظ اخ سے ان کے مشفق ہونے پر جو تنبیہ مقصود ہے وہ صریح الفاط سے واضح نہیں ہوتی بلکہ حکمتِ استعارہ میں غلط فہمی کے باعث اس ترجمہ سے انبیاء علیھم السلام کے حق میں سوءِ ادب کا شائبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ "ان کے بھائی" کے الفاظ سے "اخاھم" کا ترجمہ حسبِ سابق اس وہم کا موجب بھی ہوسکتا ہے کہ جب انبیا علیھم السلام اپنے مشرک قبائل کے بھائی قرار پائے تو ہندو اور مسلم بھائی بھائی کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس وہم اور شبہ سے بچنے کے لئے ہم نے ان تمام آیات میں لفظ اخاھم کا ترجمہ "ان کے مشفق ہم قبیلہ" کے الفاظ سے کیا ہے تا کہ انبیاء کرام علیھم السلام کے ادب و احترام کے خلاف کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو سکے اور جداگانہ مسلم قومیت کا تقدس بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ نیز قرآنی الفاظ کے مرادی معنی کی صریح الفاظ میں وضاحت بھی ہو جائے۔
آخری تدوین: