خطرناک آشنائیاں (ڈان اردو)

حسان خان

لائبریرین
قابلِ رحم ہے وہ قوم جہاں معصوموں کا خون ارزاں اور قاتل ریاست کی سرپرستی میں زندہ ہوں۔​
ملک اسحاق ایک عام مجرم نہیں۔ لشکرِ جھنگوی کے شریک بانی پر دو درجن سے زائد قتل کے مقدمات قائم ہیں لیکن خوفزدہ ججوں میں اسے سزا دینے کی ہمت نہیں۔ سزا کے بجائے، پیشی کے موقع پر عدالتی عملہ اسٹاف روم میں انہیں چائے، بسکٹ پیش کرتا ہے۔​
جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھا وہ دیکھتا رہا کہ اُس خلاف گواہی دینے والا کوئی زندہ نہ بچے۔ ‘مُردے بولا نہیں کرتے۔’ یہ جملہ اس شخص نے عدالت کے روبرو کہا، جو اطلاعات کے مطابق، ایک سو دو افراد کے قتل میں ملوث تھا۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ سپریم کورٹ نے اسے سن دو ہزار گیارہ میں عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیا تھا۔​
ایسے ملزم کے خلاف گواہی دینے کے لیے کون سامنے آئے گا جس کی قید کے دوران پنجاب حکومت اُس کے اہلِ خانہ کو گزارے لیے نقد رقم دیتی رہی ہو؟​
یہ بھی ناقابلِ فراموش واقعہ ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں کالعدم تنطیم کے ہزاروں کارکن خود کار اسلحہ اور راکٹ لانچروں سے مسلح ہو کر لشکرِ جھنگوی کے اس قائد کی لاہور سینٹرل جیل سے رہائی کے موقع پر، استقبال کے لیے پہنچے تھے۔​
حکومت نے اُن لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو قانون شکنی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اُس کے بعد سے لشکرِ جھنگوی سرکاری سرپرستی میں ہے اور اسے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی مکمل آزادی ہے۔​
یہ بات قابلِ پیشگوئی تھی کہ جب پہلے بھی انہیں جیل سے رہا کیا گیا تھا تو ملک بھر میں فرقہ وارانہ تششد کے واقعات میں غیر معمولی شدت آگئی تھی۔ شیعہ اور دیگر اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا، جس کا الزام لشکرِ جھنگوی پر لگا تھا۔​
اور اب، پنجاب حکومت دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور انہیں ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کے بجائے وہ ان سے معاملات طے کرنے کی کوششوں میں ہے۔ لشکرِ جھنگوی اہلِ سنت والجماعت کے نام سے سرگرم ہے اور اس کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز جنوبی پنجاب میں واقع ہے۔​
گذشتہ ہفتے جب پنجاب حکومت نے نقصِ عامّہ کے تحت ملک اسحاق کو حراست میں لے کر نظر بند کیا تو یہ صرف عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے اور لوگوں کے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کے مترادف تھا۔​
دلچسپ بات یہ ہے کہ حراست میں لے کر نظر بندی کے لیے ریسٹ ہاؤس پہنچانے سے قبل، انہیں کارکنوں اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ ملک اسحاق کو ایک ماہ کے لیے نظر بند کیا گیا ہے۔​
اس طرح کے ایک بدنام عسکریت پسند کی ناز برداریوں سے سوال اٹھتا ہے کہ مسلم لیگ نون دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر اپنا موقف واضح طور پر بیان کرے۔​
یہ سیاسی مفاہمت ان اطلاعات کے بعد اور بھی زیادہ مشکوک ہوتی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ نون آنے والے انتخابات میں اُس اہلِ سنت والجماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جارہی ہے، ملک اسحاق جس کے نائب صدر ہیں۔​
اگرچہ اس سیاسی توسیع سے پارٹی چند نشستیں تو جیتنے کے قابل ضرور ہوجائے گی تاہم اس سے پنجاب میں مذہبی شدت پسندی اور بھی زیادہ بڑھے گی، حالانکہ یہ اس وقت بھی وہاں تیزی سے پھیل رہی ہے۔​
بات صرف یہی نہیں کہ صوبہ پنجاب لشکرِ جھنگوی جیسی مسلح تنظیموں کا گڑھ بن رہا ہے بلکہ یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حالیہ چنند برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کو بڑے بڑے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔​
گذشتہ ہفتے لاہور میں معروف ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کا سفاکانہ قتل ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پھیلتے تششد اور فرقہ وارانہ حملوں کا سنگین انتباہ ہے۔​
اب یہ مکمل طور لاعلمی ہے یا پھر سیاسی مفاد، جو انتظامیہ کو تششدد میں ملوث گروہوں کے خلاف نہ صرف پنجاب بلکہ کوئٹہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی، موثر کارروائی کرنے سے روک رہا ہے۔​
ایسے بھی کئی عناصر پارٹی میں موجود ہیں جو عسکریت اور مذہبی شدت پسندی پر پارٹی کے موقف میں واضح فقدان کا باعث ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کالعدم قرار دیے گئے سُنّی فرقہ پرست گروپوں میں سے متعدد مسلم لیگ نون میں شامل ہوچکے ہیں۔​
مزیدِ برآں، یہ بات بھی باعثِ حیرت نہیں کہ چند برس قبل پنجاب کے گاؤں گوجرہ میں عیسائیوں کی بستی پر حملوں میں مبینہ طور پرپاکستان مسلم لیگ نون کے بعض ارکان ملوث تھے۔ اس حملے میں عیسائیوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ اس اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا تھا۔​
وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان اس وقت جاری زبانی جنگ، سیاسی قیادت کی طرف سے بڑھتی عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے غیر سنجیدہ رویے کی عکاس ہے۔​
اس وقت ملک کو مذہبی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے، تاہم ایسے میں کوئی بات سنائی نہیں دیتی جو قوم کو اس بڑھتے خطرے کے خلاف متحد کر کے، تدارک کا کوئی قدم اٹھاسکے۔​
القاعدہ اور طالبان کے قریب ترین موجود لشکرِ جھنگوی کا قیام سن اُنیّسو نوّے میں عمل میں آیا تھا۔ کالعدم قرار دی گئی غیر قانونی تنظیم نہ صرف پاکستان میں، فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث ہے بلکہ یہ اپنی مسلح کارروائیوں کا دائرہ سرحد پار افغانستان تک وسیع کرچکی ہے۔​
افغان حکام نے سن دو ہزار دس میں ایک شیعہ مزار پر کیے گئے اُس حملے کا الزام لشکرِ جھنگوی پرعائد کیا تھا، جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔​
کالعدم قراردی گئی فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیمیں آزادانہ طور پر نفرت انگیز لٹریچر تقسیم کرتی پھرتی ہیں اور ان کے سخت گیر مدارس پنجاب کے پورے صوبے میں، عسکریت پسندوں کے بھرتی مراکز بن چکے ہیں۔​
اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت دبی دبی آواز میں، پنجاب میں عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانے ہونے کی تردید کرتی ہے تاہم متعدد دہشت گرد حملوں کے قدموں کے نشان جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع تک جاتے ہیں۔​
عسکریت پسندوں کی زیادہ تر تعداد لشکرِ جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے علاوہ جیشِ محمد سے تعلق رکھتی ہے۔​
ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کُل بیس ہزار دینی مدارس ہیں، جن میں سے چوالیس فیصد پنجاب میں موجود ہیں۔ ان کی غالب اکثریت کا تعلق فرقہ پرست عسکریت پسند تنظیموں سے ہے۔​
ایسے دینی مدارس، بالخصوص وہ جو جنوبی پنجاب میں واقع ہیں، زیادہ تر عرب کے اسلامی ملکوں کی امداد پر چل رہے ہیں۔​
چاہے وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، کسی بھی قسم کے ایسےاقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں، جن کے ذریعے اُس فنڈنگ کو روکا جاسکے، جو خطّے میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے تیزی سے پھیلنے میں معاون ہیں۔​
اس وقت ہزاروں عسکریت پسند، بالخصوص جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے، نہ صرف وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں پاکستانی افواج سے برسرِ پیکار ہیں بلکہ افغانستان میں بھی اتحادی افواج کے خلاف نام نہاد جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔​
حالیہ برسوں کے دوران جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع تحریکِ طالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانے بن چکے ہیں۔​
یہ نہ صرف حکومتِ پنجاب کی ناکامی ہے بلکہ عسکریت اور شدت پسندی کو پنپنے کی چھوٹ دینے پر سکیورٹی ادارے اور وفاقی حکومت بھی موردِ الزام ٹھہرتے ہیں۔​
اگر حکومت کی عملداری ختم ہوئی تو پھر جو صورتِ حال ہے، اُس میں ملک فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ پنجاب حکومت اور فرقہ وارانہ شدت پسندوں کے درمیان رابطے نہایت گھمبیر اور خطرناک صورتِ حال پیدا کرسکتے ہیں۔​
اس وقت عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایسی متفقہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے، جس کے تحت ان کا مقابلہ کر کے، ملک کو مکمل تباہی سے محفوظ رکھا جاسکے۔​
اگرچہ کوئٹہ حالیہ شیعہ قتلِ عام کا جائے وقوع تو ہوسکتا ہے لیکن ملک میں مذہبی شدت پسندی کا مرکز بدستور پنجاب ہی ہے۔​
اگر آج فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کو نہ روکا گیا تو پھر ملک بھر کے طول و عرض میں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام میں اس عفریت کا بد صورت چہرہ نظر آئے گا۔​
 
قابلِ رحم ہے وہ قوم جہاں معصوموں کا خون ارزاں اور قاتل ریاست کی سرپرستی میں زندہ ہوں۔​
ملک اسحاق ایک عام مجرم نہیں۔ لشکرِ جھنگوی کے شریک بانی پر دو درجن سے زائد قتل کے مقدمات قائم ہیں لیکن خوفزدہ ججوں میں اسے سزا دینے کی ہمت نہیں۔ سزا کے بجائے، پیشی کے موقع پر عدالتی عملہ اسٹاف روم میں انہیں چائے، بسکٹ پیش کرتا ہے۔​
جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھا وہ دیکھتا رہا کہ اُس خلاف گواہی دینے والا کوئی زندہ نہ بچے۔ ‘مُردے بولا نہیں کرتے۔’ یہ جملہ اس شخص نے عدالت کے روبرو کہا، جو اطلاعات کے مطابق، ایک سو دو افراد کے قتل میں ملوث تھا۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ سپریم کورٹ نے اسے سن دو ہزار گیارہ میں عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیا تھا۔​
ایسے ملزم کے خلاف گواہی دینے کے لیے کون سامنے آئے گا جس کی قید کے دوران پنجاب حکومت اُس کے اہلِ خانہ کو گزارے لیے نقد رقم دیتی رہی ہو؟​
یہ بھی ناقابلِ فراموش واقعہ ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں کالعدم تنطیم کے ہزاروں کارکن خود کار اسلحہ اور راکٹ لانچروں سے مسلح ہو کر لشکرِ جھنگوی کے اس قائد کی لاہور سینٹرل جیل سے رہائی کے موقع پر، استقبال کے لیے پہنچے تھے۔​
حکومت نے اُن لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو قانون شکنی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اُس کے بعد سے لشکرِ جھنگوی سرکاری سرپرستی میں ہے اور اسے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی مکمل آزادی ہے۔​
یہ بات قابلِ پیشگوئی تھی کہ جب پہلے بھی انہیں جیل سے رہا کیا گیا تھا تو ملک بھر میں فرقہ وارانہ تششد کے واقعات میں غیر معمولی شدت آگئی تھی۔ شیعہ اور دیگر اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا گیا، جس کا الزام لشکرِ جھنگوی پر لگا تھا۔​
اور اب، پنجاب حکومت دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور انہیں ختم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کے بجائے وہ ان سے معاملات طے کرنے کی کوششوں میں ہے۔ لشکرِ جھنگوی اہلِ سنت والجماعت کے نام سے سرگرم ہے اور اس کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز جنوبی پنجاب میں واقع ہے۔​
گذشتہ ہفتے جب پنجاب حکومت نے نقصِ عامّہ کے تحت ملک اسحاق کو حراست میں لے کر نظر بند کیا تو یہ صرف عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے اور لوگوں کے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کے مترادف تھا۔​
دلچسپ بات یہ ہے کہ حراست میں لے کر نظر بندی کے لیے ریسٹ ہاؤس پہنچانے سے قبل، انہیں کارکنوں اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ ملک اسحاق کو ایک ماہ کے لیے نظر بند کیا گیا ہے۔​
اس طرح کے ایک بدنام عسکریت پسند کی ناز برداریوں سے سوال اٹھتا ہے کہ مسلم لیگ نون دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر اپنا موقف واضح طور پر بیان کرے۔​
یہ سیاسی مفاہمت ان اطلاعات کے بعد اور بھی زیادہ مشکوک ہوتی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ نون آنے والے انتخابات میں اُس اہلِ سنت والجماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جارہی ہے، ملک اسحاق جس کے نائب صدر ہیں۔​
اگرچہ اس سیاسی توسیع سے پارٹی چند نشستیں تو جیتنے کے قابل ضرور ہوجائے گی تاہم اس سے پنجاب میں مذہبی شدت پسندی اور بھی زیادہ بڑھے گی، حالانکہ یہ اس وقت بھی وہاں تیزی سے پھیل رہی ہے۔​
بات صرف یہی نہیں کہ صوبہ پنجاب لشکرِ جھنگوی جیسی مسلح تنظیموں کا گڑھ بن رہا ہے بلکہ یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حالیہ چنند برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کو بڑے بڑے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔​
گذشتہ ہفتے لاہور میں معروف ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کا سفاکانہ قتل ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پھیلتے تششد اور فرقہ وارانہ حملوں کا سنگین انتباہ ہے۔​
اب یہ مکمل طور لاعلمی ہے یا پھر سیاسی مفاد، جو انتظامیہ کو تششدد میں ملوث گروہوں کے خلاف نہ صرف پنجاب بلکہ کوئٹہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی، موثر کارروائی کرنے سے روک رہا ہے۔​
ایسے بھی کئی عناصر پارٹی میں موجود ہیں جو عسکریت اور مذہبی شدت پسندی پر پارٹی کے موقف میں واضح فقدان کا باعث ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کالعدم قرار دیے گئے سُنّی فرقہ پرست گروپوں میں سے متعدد مسلم لیگ نون میں شامل ہوچکے ہیں۔​
مزیدِ برآں، یہ بات بھی باعثِ حیرت نہیں کہ چند برس قبل پنجاب کے گاؤں گوجرہ میں عیسائیوں کی بستی پر حملوں میں مبینہ طور پرپاکستان مسلم لیگ نون کے بعض ارکان ملوث تھے۔ اس حملے میں عیسائیوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ اس اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا تھا۔​
وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان اس وقت جاری زبانی جنگ، سیاسی قیادت کی طرف سے بڑھتی عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے غیر سنجیدہ رویے کی عکاس ہے۔​
اس وقت ملک کو مذہبی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے، تاہم ایسے میں کوئی بات سنائی نہیں دیتی جو قوم کو اس بڑھتے خطرے کے خلاف متحد کر کے، تدارک کا کوئی قدم اٹھاسکے۔​
القاعدہ اور طالبان کے قریب ترین موجود لشکرِ جھنگوی کا قیام سن اُنیّسو نوّے میں عمل میں آیا تھا۔ کالعدم قرار دی گئی غیر قانونی تنظیم نہ صرف پاکستان میں، فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث ہے بلکہ یہ اپنی مسلح کارروائیوں کا دائرہ سرحد پار افغانستان تک وسیع کرچکی ہے۔​
افغان حکام نے سن دو ہزار دس میں ایک شیعہ مزار پر کیے گئے اُس حملے کا الزام لشکرِ جھنگوی پرعائد کیا تھا، جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔​
کالعدم قراردی گئی فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیمیں آزادانہ طور پر نفرت انگیز لٹریچر تقسیم کرتی پھرتی ہیں اور ان کے سخت گیر مدارس پنجاب کے پورے صوبے میں، عسکریت پسندوں کے بھرتی مراکز بن چکے ہیں۔​
اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت دبی دبی آواز میں، پنجاب میں عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانے ہونے کی تردید کرتی ہے تاہم متعدد دہشت گرد حملوں کے قدموں کے نشان جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع تک جاتے ہیں۔​
عسکریت پسندوں کی زیادہ تر تعداد لشکرِ جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے علاوہ جیشِ محمد سے تعلق رکھتی ہے۔​
ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کُل بیس ہزار دینی مدارس ہیں، جن میں سے چوالیس فیصد پنجاب میں موجود ہیں۔ ان کی غالب اکثریت کا تعلق فرقہ پرست عسکریت پسند تنظیموں سے ہے۔​
ایسے دینی مدارس، بالخصوص وہ جو جنوبی پنجاب میں واقع ہیں، زیادہ تر عرب کے اسلامی ملکوں کی امداد پر چل رہے ہیں۔​
چاہے وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، کسی بھی قسم کے ایسےاقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں، جن کے ذریعے اُس فنڈنگ کو روکا جاسکے، جو خطّے میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کے تیزی سے پھیلنے میں معاون ہیں۔​
اس وقت ہزاروں عسکریت پسند، بالخصوص جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے، نہ صرف وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں پاکستانی افواج سے برسرِ پیکار ہیں بلکہ افغانستان میں بھی اتحادی افواج کے خلاف نام نہاد جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔​
حالیہ برسوں کے دوران جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع تحریکِ طالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانے بن چکے ہیں۔​
یہ نہ صرف حکومتِ پنجاب کی ناکامی ہے بلکہ عسکریت اور شدت پسندی کو پنپنے کی چھوٹ دینے پر سکیورٹی ادارے اور وفاقی حکومت بھی موردِ الزام ٹھہرتے ہیں۔​
اگر حکومت کی عملداری ختم ہوئی تو پھر جو صورتِ حال ہے، اُس میں ملک فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ پنجاب حکومت اور فرقہ وارانہ شدت پسندوں کے درمیان رابطے نہایت گھمبیر اور خطرناک صورتِ حال پیدا کرسکتے ہیں۔​
اس وقت عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایسی متفقہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے، جس کے تحت ان کا مقابلہ کر کے، ملک کو مکمل تباہی سے محفوظ رکھا جاسکے۔​
اگرچہ کوئٹہ حالیہ شیعہ قتلِ عام کا جائے وقوع تو ہوسکتا ہے لیکن ملک میں مذہبی شدت پسندی کا مرکز بدستور پنجاب ہی ہے۔​
اگر آج فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کو نہ روکا گیا تو پھر ملک بھر کے طول و عرض میں، بڑے پیمانے پر قتلِ عام میں اس عفریت کا بد صورت چہرہ نظر آئے گا۔​
لگ رہا ہے کہ یہ مضمون رحمان ملک صاحب نے لکھا ہے۔۔۔
 
جب تک ہم لوگ انصاف سے کام نہیں لیں گے تب تک ہر کوئی "ہم سے انصاف کرتا رہے گا":(
ویسا ہی جیسا ہم کھانے کے ساتھ کرتے ہیں:p
 
جیسا کہ آپ نے اپنے سٹیٹس میں لکھا ہوا ہے۔"اپنی اپنی سوچ ہے جناب والا"
اور چونکہ میرا تعلق نہ کسی مذہبی جماعت سے ہے نہ سیاسی تو آپ کو یہ سوچ رکھنے کا پورا پورا اختیار ہے(y)
بہت ہی عمدہ بات کی ہے آپ نے یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے تعلق جوڑا جائے۔۔ آپ نے مجھے سوچ رکھنے کا اختیار دیا۔۔ میں تا عمر آپ کا تہہ دل سے ممنون و مشکور رہو گا۔۔ :)
 
بہت ہی عمدہ بات کی ہے آپ نے یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے تعلق جوڑا جائے۔۔ آپ نے مجھے سوچ رکھنے کا اختیار دیا۔۔ میں تا عمر آپ کا تہہ دل سے ممنون و مشکور رہو گا۔۔ :)
سر جی میری کیا حقیقت ہے کہ میں کسی کو کوئی حق دے سکوں:(
اصل میں میری بات کا مطلب یہ تھا کہ میں "ان لوگوں کے برعکس" آپ کے اس حق کو "تسلیم" کرتا ہوں:battingeyelashes:
 
Top