خطرناک لاشیں از ابنِ صفی (صفحہ 26 تا 35)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد وارث

لائبریرین
خطرناک لاشیں از ابنِ صفی (صفحہ 26 تا 35)



دوستوں کا سا تھا۔

"آہا۔۔۔۔تو کیا میرے علاوہ کوئی اور بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔"

"مجھے اس کا علم نہیں ہے۔" جولیا نے کہا۔

"آہا۔۔۔۔ٹھیک، یہ عمران صاحب بھی کیفے کاسینو میں نظر آئے تھے۔"

"ارے چھوڑو یہ قصہ، وہ کہاں نہیں نظر آتا۔" جولیا نے کہا۔ "مجھے ان دونوں کی ملاقات کی تفصیل بتاؤ۔"

"تفصیل احمقانہ ہے، پتہ نہیں کیوں یہاں کے سارے آفیسر خود کو عمران کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج ان شاہد صاحب نے بھی اسی قسم کی ایک حرکت فرمائی تھی، ہلدا کوئی چیز خریدنے کے لئے ایک دوکان پر رکی تھی اور قیمت ادا کرنے کے لئے اپنا وینٹی بیگ کھولا تھا، پھر آگے بڑھ گئی۔ شاہد صاحب نے جھٹ اپنی جیب سے دس دس کے دو نوٹ نکالے اور اسکی طرف جھپٹے، اسے روک کر کہا کہ دیکھئے آپ کے بیگ سے شاید یہ روپے گر گئے تھے۔ اس نے وینٹی بیگ کھول کر اپنی رقم کا جائزہ لیا اور کہا کہ وہ روپے اس کے نہیں ہو سکتے۔ آپ نے بالکل عمران ہی کے سے انداز میں بے حد پریشانی ظاہر فرمائی اور اس سلسلے میں اپنے بچپن اور آغوشِ مادر تک پہنچ گئے۔ والدہ محترمہ کے دو چار قول دہرائے جو بچپن ہی میں ان کے گوش گزار کئے جاتے رہے تھے، مثلاً کہیں کوئی چیز پڑی ہو تو ہر گز نہ اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔چور کے ساتھ حشر کے دن آگ میں ڈال دیئے جائیں گے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر ہلدا کی جگہ تم ہوتیں تو شاید ایک آدھ تھپڑ رسید کر دیتیں مگر وہ تو اس سے بھی زیادہ خبطی پن کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔ اس نے اس سے کہا تھا کہ وہ کئی سال سے کسی ایمان دار آدمی کی تلاش میں ہے، لیکن آج تک ایک بھی نہ مل سکا اور یہ اسکی خوش قسمتی ہی تھی کہ شاہد جیسے آدمی سے راہ چلتے ملاقات ہو گئی، اس خوشی میں وہ اسے چائے پلانا چاہتی ہے اور اسکے بعد بھی وہ اس سے اکثر ملتی رہنا پسند کرے گی۔ اسطرح دونوں کیفے کاسینو میں پہنچے تھے، پھر پتہ نہیں کہ عمران صاحب کیسے نازل ہوئے اور اسکا تعاقب کرتے ہوئے کیفے کاسینو کی پشت والے شبینہ پوسٹ آفس تک گئے۔ ہلدا نے وہاں سے کسی کو فون کیا تھا اور اسکے بعد آپ بھی ٹیلی فون بوتھ میں تشریف لے گئے تھے اسکے بعد سے پھر کہیں نہیں دکھائی دیئے۔"

"تم اسکے بعد اسکا تعاقب کرتے رہے تھے۔"

"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے، وہیں واپس گئی تھی، اسکا اور کوئی گھر نہیں ہے، مگر اب مجھے کیا کرنا ہے؟"

"یہ معلوم کر کے بتاؤں گی، اچھا بہت بہت شکریہ۔"

اس نے سلسلہ منقطع کر دیا، تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے اور اسے صفدر کی رپورٹ سنانے لگی، اسکی آواز سے تھکن ظاہر ہو رہی تھی، ایکس ٹو کو رپورٹ دینے کے بعد اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور مسہری پر گر گئی۔

------------

دوسرے دن عمران کو اطلاع ملی کہ صفدر پھر ہلدا کا تعاقب کر رہا ہے اور شاہد ہلدا کے ساتھ ہے۔ وہ جولیا کی دوسری کال کا منتظر تھا جس سے اسے اطلاع ملتی کہ شاہد اور ہلدا محض سڑک پیمائی کر رہے ہیں یا کہیں بیٹھے بھی ہیں۔

اور یہ بات تو اب پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ وہ لڑکی کسی نہ کسی جرم میں ضرور ملوث ہے ورنہ اسے پچھلی شام سگریٹ کے خالی پیکٹ میں اس قسم کا پیغام کیوں ملتا۔

اب عمران یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کی دیکھ بھال باقاعدہ طور پر کی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ پچھلی شام جس شخص نے اسے پولیس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا وہ شروع ہی سے اسکی دیکھ بھال کرتا رہا ہوگا؟

کچھ دیر بعد اسے جولیا کی طرف سے اطلاع ملی کہ شاہد اور ہلدا میونسپل گارڈن میں ہیں اور صفدر انکی نگرانی کر رہا ہے۔

عمران بھی میونسپل گارڈن کی طرف روانہ ہو گیا، لڑکی کے متعلق اسے جولیا سے رات کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے جہاں کام کرتی ہے اور شاہد کی داستان بھی معلوم ہوئی تھی۔ شاہد کی کہانی کا یہ مطلب تھا کہ وہ ابھی تک معاملے کی بات کی طرف نہیں آیا تھا بلکہ یہ حرکت صرف جان پہچان پیدا کرنے کے لئے کی گئی تھی۔

عمران کی دانست میں شاہد کا اقدام غیر مناسب نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اب شاہد کے فرشتے بھی ہلدا کی اصلیت تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ویسے بھی وہ لڑکی اس کو کافی چالاک اور ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھنے والی معلوم ہوئی تھی۔

میونسپل گارڈن پہنچ کر ان دونوں کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ وہ ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے مل گئے۔

عمران نے انکے قریب سے گزرتے وقت محسوس کیا کہ شاہد سچ مچ اوٹ پٹانگ باتیں کر رہا ہے، ہلدا بار بار ہنس رہی تھی۔

اچانک عمران کی نظریں ایک آدمی پر رک گئیں جو ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھا پائپ میں تمباکو بھر رہا تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے پچھلی شام کیفے کاسینو میں ہلدا کے قریب سگریٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔

یہ تھا تو دیسی ہی لیکن وجیہہ اور جامہ زیب آدمی تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی جس کی بنا پر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی غلط راستے کا راہرو ہوگا۔

اس نے صفدر کو بھی دیکھا جو لان پر اوندھا پڑا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد لڑکی وہاں سے تنہا رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جب وہ پھاٹک سے گزر گئی تو عمران نے صفدر کو بھی اٹھتے دیکھا۔

شاہد جانوروں کے کٹہرے کی طرف چلا گیا، لیکن وہ آدمی جہاں تھا وہیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ گویا اسکا کام یہ تھا کہ وہ اسی وقت ہلدا پر نظر رکھے جب تک شاہد اسکے ساتھ دیکھا جائے۔

یہ چیز عمران کے لئے غیر متوقع بھی نہیں تھی، اس نے پچھلی شام ہی اندازہ کر لیا تھا کہ خود لڑکی کے آدمی بھی اسکی نگرانی کرتے ہیں اور یہی دیکھنے کے لئے وہ اس وقت یہاں آیا تھا، مگر یہ چیز اسکے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس وقت بھی اسی آدمی سے مڈ بھیڑ ہو گی جس نے سگریٹ کا پیکٹ پھینکا تھا۔

اس اتفاق نے اس کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی تھیں، اگر اس آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا اس وقت لڑکی کی نگرانی پر مامور ہوتا تو شاید عمران کو اس کا علم ہی نہ ہو سکتا کہ لڑکی کی نگرانی ہو رہی ہے کیونکہ وہ آدمی بھی اسی آدمی کی طرح وہیں بیٹھا رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔شاہد اپنی راہ لگتا اور ہلدا اپنی راہ؟

یہ آدمی عمران کو ہلدا سے زیادہ اہم معلوم ہو رہا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھا اور عمران نے اسکا تعاقب شروع کر دیا لیکن اب ایک نئی دشواری آ پڑی تھی۔ عمران نے سوچا کہ اگر وہ پیدل ہی چلتا رہا تو خود اسکی گاڑی میونسپل گارڈن کے باہر ہی کھڑی رہ جائے گی مگر باغ کے باہر پہنچتے ہی عمران کی باچھیں کھل گئیں کیونکہ یہ مشکل بھی آسان ہو گئی تھی، وہ آدمی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا اسے اسٹارٹ کر رہا تھا۔

بس تھوڑی دیر بعد عمران کی کار موٹر سائیکل کے پیچھے لگ گئی، موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ شاید وہ آدمی اس معاملے میں کافی حد تک محتاط تھا۔

ہلدا کے مقابلے میں اس آدمی کو اہمیت دینے کا مقصد یہ تھا کہ عمران جلد از جلد اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے کیونکہ وہ اب مطمئن تھا۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کا تعلق انہیں پر اسرا لاشوں سے ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی دوسرے چکر میں ہوں اور ان سے اتفاقاً ہی ٹکراؤ ہو گیا ہو۔

ہلدا کے متعلق تو ابھی تک کی رپورٹوں کا ماحصل صرف اتنا ہی تھا کہ وہ ایک مشن ہسپتال میں نرس ہے اور ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی بھی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ اسکے ملنے جلنے والوں سے متعلق بھی معلومات حاصل ہو سکیں لیکن اس میں ناکامی ہی ہوئی تھی۔ ویسے ایک عمران کو ملا تھا مگر اسکا رویہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ دونوں کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ تو بس اسکی نگرانی کرتا تھا اور اس رویہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ آدمی بھی کسی کو جواب دہ ہوگا۔ مگر نہیں، عمران نے سوچا، یہ بھی ممکن ہے کہ صرف انہیں دونوں نے کسی قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہو اور کسی تیسرے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔

موٹر فراٹے بھرتی رہی اور اسکا تعاقب جاری رہا، تھوڑی دیر بعد عمران نے اسے ایک تار گھر کے سامنے رکتے دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل سے اتر کر اندر چلا گیا۔ عمران بھی گاڑی روک کر اترا، دوسرے ہی لمحے میں وہ بھی تار گھر کے کمپاؤنڈ میں تھا۔

پھر اس نے اسے کھڑکی سے تار کا فارم لیتے دیکھا، وہ کھڑکی ہی پر جلدی جلدی فارم پر کچھ لکھنے لگا تھا جیسے ہی اس نے فارم لکھ کر کاؤنٹر کلرک کو دیا، عمران ٹیلی فون بوتھ میں گھس گیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ یہاں ایکس ٹو کا لہجہ اختیار کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے اس نے اسے عمران ہی کی حیثیت میں مخاطب کیا۔

اسکی نظر کلائی کی گھڑی پر تھی اور وہ ماؤتھ پیس میں کہہ رہا تھا۔ "جولیا، کریم پورہ کے تار گھر سے تین بج کر سترہ منٹ پر ایک تار دیا گیا ہے، فوراً پتہ لگاؤ کہ تار کسے اور کہاں دیا گیا ہے اور تار دینے والے کا نام اور پتہ بھی چاہئے۔ ارے ہاں میں عمران ہوں جلدی کرو۔۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔۔؟"

اس نے سلسلہ منقطع کر دیا اور بوتھ میں رک کر اس آدمی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ پھر جب اسکی موٹر سائیکل کافی فاصلے پر پہنچ گئی تو عمران نے بوتھ سے نکل کر تعاقب کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ سلسلہ گرین اسکوائر کی ایک کوٹھی میں ختم ہوا۔ عمران عمارت پر نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گیا، کچھ دور جا کر اس نے کار روک دی اور نیچے اتر آیا۔

اب وہ کوٹھی کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ پھاٹک پر اسے کسی کی نیم پلیٹ نہیں نظر آئی، ویسے وہ آس پاس کی شاندار عمارتوں میں سے تھی۔ عمران نے کوٹھی کے محلِ وقوع پر تفصیلی نظر ڈالی اور پھر اپنی کار میں آ بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔اب وہ واپس جا رہا تھا۔

اپنے فلیٹ پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے جولیا کو فون کیا، اس بار وہ ایکس ٹو کی حیثیت سے بول رہا تھا۔ "کیپٹن خاور سے کہو کہ گرین اسکوائر میں پیٹرک بار کے سامنے والی کوٹھی کی نگرانی کرے۔۔۔۔۔۔۔اس میں خصوصیت سے ایسے آدمی پر نظر رکھنی ہے جسکی چال میں خفیف سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ آدمی اس وقت اسی عمارت میں ہے۔"

"بہت بہتر جناب۔"

"یہ کام جلد سے جلد شروع ہونا چاہئے، اسے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اس عمارت میں کون رہتا ہے اور اس آدمی کا اس سے کیا تعلق ہے جسکی چال میں ۔۔۔۔۔۔۔ لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"

"بہتر جناب۔"

"عمران نے جس تار کے متعلق تم سے کہا تھا اس کے لئے کیا ہوا۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔وہ، جی ہاں، اس سلسلے میں لیفٹیننٹ صدیقی تفتیش کر رہا ہے۔"

"ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔"

"جی نہیں ۔۔۔۔۔۔"

"جیسے ہی معلوم ہو مجھے مطلع کرنا۔"

"تو عمران کو اطلاع نہ دی جائے۔"

"نہیں۔۔۔۔۔۔تم براہِ راست مجھے اطلاع دو گی۔"

"بہت بہتر جناب۔"

عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس نے کپڑے اتارے اور صرف انڈر ویئر اور بنیان ہی میں رہا، حالانکہ سردیوں کے دن تھے اور یہاں کمرے میں ٹھنڈک بھی تھی لیکن موج ہی تو ہے، آرام کرسی پر نیم دراز ہو کر اس نے سلیمان کو آواز دی اور وہ پہلے ہی سے چائے کی ٹرے سنبھالے ہوئے ادھر ہی آ رہا تھا۔

"ابے تو بولتا کیوں نہیں؟"

"جب آ ہی رہا تھا تو بولنے کی کیا ضرورت تھی۔" سلیمان نے کہا۔

"اچھا جی، اگر آتے وقت کوئی تمھاری گردن اڑا دیتا تب بھی تم خاموش ہی رہتے۔"

"نہیں صاحب، لپٹ پڑتا اس سے، خون پی لیتا۔"

"لپٹ پڑتے۔" عمران دہاڑا۔ "ابے تو پھر ان قیمتی برتنوں کا کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔نمک حرام کہیں کے۔"

"نمک حرام نہ کہا کیجئے صاحب۔" سلیمان نے برا مان کر کہا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران نے آنکھیں نکالیں۔

"اگر نمک حرام ہوتا تو دو آنے سیر کبھی نہ بکتا بلکہ بوتلوں میں پچپن روپے فی بوتل کے حساب سے فروخت ہوتا اور لوگ نمکین پکوڑے کھا کر ادھر ادھر غل غپاڑے مچاتے پھرتے۔"

"تیری باتیں سمجھنے کے لئے ارسطو کا دماغ چاہئے، میری سمجھ میں تو نہیں آتیں۔ ابے تو کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔"

سلیمان نے چائے کی کشتی میز پر رکھ دی اور روہانسی آواز میں بولا۔ "آج میں بالکل پھکڑ ہوں اور بلبل ٹاکیز میں زندہ ناچ گانے کا آج آخری پروگرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خدا میں کیا کروں۔"

"خدا تیرے گناہ معاف کرے سلیمان۔" عمران ٹھنڈی سانس لیکر بولا۔

"وہ تو روز کے روز معاف ہوتے رہتے ہیں صاحب، آپ ان کے لئے پریشان نہ ہوں، اب اگر آج ہی آپ صرف ایک شو کے پیسے دلوا دیں تو واپسی پر خوب توبہ کروں گا۔۔۔۔۔۔سر پیٹوں گا۔۔۔۔۔۔ناک رگڑوں گا اور گڑ گڑاؤں گا، اللہ رحم کرے گا اور میرے آج کے گناہ معاف ہو جائیں گے، ہائے کیا آپ نے یہ شعر نہیں سنا۔

فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں"

"سلیمان۔"

"جی صاحب۔"

"اب تو میرے لائق نہیں رہ گیا۔"

"کیوں صاحب۔"

"تیرے لئے پیری مریدی زیادہ مناسب رہے گی، کیوں خواہ مخواہ میری عاقبت اور اپنی دنیا برباد کر رہا ہے۔"

"میں نے بھی سوچا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر نہیں چلے گی۔" سلیمان نے پیالی میں جائے انڈیل کر شکر ملاتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں چلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی میری شادی نہیں ہوئی اس لئے ڈاڑھی نہیں رکھ سکوں گا۔"

"شادی کے بغیر مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟"

"اب تو یہی سوچا ہے کہ اگر سال تک شادی نہ ہوئی تو مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سلیمان۔"

"جی صاحب۔"

"میں تجھے ڈس مس کر دوں گا اگر تو نے شادی کی۔"

"شادی نہ ہوئی تو میں خود ہی اپنے کو ڈس مس کر لوں گا صاحب۔"

"جی ہاں، یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ نہ کسی سے لڑائی نہ جھگڑا نہ گالی گلوچ نہ جوتم نہ پیزار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو تنگ آ گیا ہوں ایسی چپ چپاتی زندگی سے۔"

عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔۔۔یہ عمران کا فون تھا، ایکس ٹو کا نہیں۔

"ابے دیکھ تو کون ہے۔" عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔

سلیمان نے کال ریسیو کی اور ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر عمران سے کہا۔ "کیپٹن فیاض صاحب ہیں۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران مکا ہلا کر بولا۔ "کہہ دو صاحب مر گئے۔"

"صاحب مر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سلیمان نے ببانگ دہل کہا اور فوراً ہی سلسلہ منقطع کر دیا۔

"ابے۔۔۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔کیا؟"

"جو کچھ آپ نے کہا تھا۔" سلیمان نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔

"غصے میں کہا تھا۔" عمران غصیلی آواز میں بولا۔

سلیمان پھر فون کی طرف جھپٹا۔۔۔۔۔۔۔۔اور عمران نے ڈانٹ کر پوچھا۔

"اب کیا ہے۔"

"کپتان صاحب کو بتا دوں کہ غصے میں مر گئے تھے۔"

"ابے اس شہر میں رہنا محال ہو جائے گا۔"

"پھر بتایئے نا کیا کروں؟" سلیمان اپنی پیشانی پر دو ہتھڑ مار کر بولا۔

"بلبل ٹاکیز۔" عمران اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

"خدا آپ کو سلامت رکھے صاحب، صرف تین روپے۔۔۔۔۔۔سالوں نے بارہ آنے والی سیٹیں پیچھے پھینکوا دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔بھلا بتایئے اتنی دور سے کیا مزا آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔مس بمبولا فلم اسٹار ڈانس کرے گی۔"

"میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تجھے بلبل ٹاکیز کی گیٹ کیپری مل جائے تو کیسی رہے گی۔"

"ہاں۔۔۔۔۔۔۔بہت اچھا ہوتا۔" سلیمان مایوسانہ لہجے میں بولا۔

"مگر پھر آپ کو رات کا کھانا ایک بجے سے پہلے نہیں مل سکتا۔"

"ابے میں تجھے ڈس مس کر دینے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔"

"ذرا کر کے تو دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ ہی سے اپنی گردن ریت ڈالوں گا۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ کو قاتل کا سراغ لگانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔اس سے کیا فائدہ؟"

دفعتاً پرائیوٹ فون کی گھنٹی بجی اور عمران چائے چھوڑ کر اس کمرے میں چلا آیا جہاں پرائیوٹ یعنی ایکس ٹو کا فون تھا۔

دوسری طرف سے جولیا بول رہی تھی۔ "جولیانا سر، وہ تار کسی مسٹر داور نے دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔تار کا مضمون تھا کہ وہی پھر اسکے ساتھ تھا۔ یہ تار مقامی ہی تھا۔ سول لائن کے کسی ڈاکٹر گلبرٹ کے لئے تھا۔ پتہ ایک سو تیرہ اے، سول لائنز۔"

"تار دینے والے کا پتہ۔" عمران نے پوچھا۔

"گرین اسکوائر کی گیارہویں عمارت۔"

"گڈ۔۔۔۔۔۔۔۔" عمران نے ایکس ٹو کے لہجے میں کہا۔ "اب صدیقی سے معلوم کرو کہ گرین اسکوائر کی وہ گیارہویں ہی عمارت تو نہیں ہے جسکی نگرانی کے لئے اسے ہدایت کی گئی ہے۔"

"جی ہاں۔۔۔۔۔وہی عمارت ہے، صدیقی نے ابھی ابھی اپنی رپورٹ دی ہے اور اس شخص کا نام بھی داور ہے جسکی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"

"بہت خوب۔" عمران نے کہا۔ "تم بہت اچھی جا رہی ہو۔"

"بہت بہت شکریہ جناب۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "صفدر کی رپورٹ بھی سن لیجئے، وہ اس لڑکی کو ہسپتال تک پہنچا کر واپس آ گیا ہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔"

"اچھا۔۔۔" عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

وہ اس ڈاکٹر گلبرٹ کے متعلق سوچنے لگا تھا جسے تار دیا گیا تھا۔

وہ نشست کے کمرے میں آ کر پھر چائے پینے لگا۔ سلیمان کچن میں جا چکا تھا۔ وہ بھی اچھا ہی ہوا تھا کیونکہ اب عمران تفریح کے موڈ میں نہیں تھا بلکہ کچھ دیر سنجیدگی سے سوچنے کے لئے وقت چاہتا تھا۔

لیکن اسے وقت نہ مل سکا کیونکہ کوئی باہر سے کال بل کا بٹن دبا رہا تھا۔ عمران نے جسم پر بے رنگ گاؤن ڈالا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ جانتا تھا کہ آنے والا کیپٹن فیاض کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا، اس نے دروازے کی چٹخنی گرا دی۔

فیاض آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا۔

"اوہ۔۔۔۔۔تو تم موجود ہو۔" اس نے غرا کر کہا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا خیریت ہے نا۔"

"اب تمھارے نوکروں کو بھی یہ مجال ہو گئی ہے کہ میرا مذاق اڑائیں۔"

"کیوں؟ کیا ہوا؟" عمران نے حیرت ظاہر کی پھر یک بیک چہرے پر شرمندگی کے آثار پیدا کر کے بولا۔ "ارے ہاں۔۔۔۔۔۔میں اس سور کو عنقریب ڈس مس کرنے والا ہوں، ابھی جب میں نے یہاں قدم رکھا تو وہ شراب کے نشے میں دھت تھا اور یہ دیکھو۔"

عمران نے لبادے کی ڈوری کھول دی اور صرف انڈر ویئر اور بنیان میں اس کے سامنے کھڑا رہا۔

"کیا مطلب۔" فیاض نے تیکھے لہجے میں کہا۔

"روزانہ صرف کوٹ اتارا کرتا تھا، آج کمبخت نے نشے میں پتلون بھی کھینچ لی۔۔۔۔۔۔اب تم ہی بتاؤ، مگر تمھاری شان میں کیا گستاخی کی اس گدھے نے۔"

"میں نے فون پر تمھارے متعلق دریافت کیا تھا، بولا کہ صاحب مر گئے۔"

"حد ہو گئی نمک حرامی اور بد خواہی کی۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "حالانکہ وہ سور اچھی طرح جانتا ہے کہ میں آج کل بالکل مفلس ہو رہا ہوں، مر گیا تو کفن کہاں سے آئے گا۔"

فیاض کچھ نہ بولا، برا سا منہ بناتے ہوئے بیٹھ گیا۔

"چائے سوپر فیاض۔"

"نہیں شکریہ، تم میرے لئے بے حد تکلیف دہ ہوتے جا رہے ہو۔"

"اتفاق سے یہی شکایت مجھے بھی تم سے ہے۔"

"کیوں، میں نے کیا کیا ہے۔"

"آخر کار تمھارے آدمیوں نے عقلمندی کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔"

"کیا تمھارا اشارہ اس لڑکی ہلدا کے معاملے کی طرف ہے۔"

"یقیناً"

"تم اسکے بارے میں کیا جانتے ہو۔"

"جب یہ معلوم ہے کہ تمھارا آدمی اس سے ربط و ضبط بڑھا چکا ہے تو میں نے کچھ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔"

"لیکن اسکے باوجود بھی پچھلی شام کیفے کاسینو میں نظر آئے تھے۔" فیاض کا لہجہ طنزیہ تھا۔

"اور یہ واقعی ایک بہت بڑا گناہ تھا کیونکہ اتفاق سے انسپکٹر شاہد اور ہلدا بھی وہیں موجود تھے۔"

"میں یقین نہیں کر سکتا کہ تم وہاں اتفاقاً گئے تھے۔"

"یقین نہ کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ میں بہرحال وہاں موجود تھا۔"

"خیر اس سے بحث نہیں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس لڑکی کے چکر میں نہ پڑو۔" فیاض مسکرایا۔

"تب تو پھر میرا خیال ہے کہ تمھارا اندازہ غلط ہی نکلا ہے۔"


(ختم شد صفحات از 26 تا 35، الحمدللہ)

۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top