محمد وارث
لائبریرین
خطرناک لاشیں از ابنِ صفی (صفحہ 26 تا 35)
دوستوں کا سا تھا۔
"آہا۔۔۔۔تو کیا میرے علاوہ کوئی اور بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔"
"مجھے اس کا علم نہیں ہے۔" جولیا نے کہا۔
"آہا۔۔۔۔ٹھیک، یہ عمران صاحب بھی کیفے کاسینو میں نظر آئے تھے۔"
"ارے چھوڑو یہ قصہ، وہ کہاں نہیں نظر آتا۔" جولیا نے کہا۔ "مجھے ان دونوں کی ملاقات کی تفصیل بتاؤ۔"
"تفصیل احمقانہ ہے، پتہ نہیں کیوں یہاں کے سارے آفیسر خود کو عمران کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج ان شاہد صاحب نے بھی اسی قسم کی ایک حرکت فرمائی تھی، ہلدا کوئی چیز خریدنے کے لئے ایک دوکان پر رکی تھی اور قیمت ادا کرنے کے لئے اپنا وینٹی بیگ کھولا تھا، پھر آگے بڑھ گئی۔ شاہد صاحب نے جھٹ اپنی جیب سے دس دس کے دو نوٹ نکالے اور اسکی طرف جھپٹے، اسے روک کر کہا کہ دیکھئے آپ کے بیگ سے شاید یہ روپے گر گئے تھے۔ اس نے وینٹی بیگ کھول کر اپنی رقم کا جائزہ لیا اور کہا کہ وہ روپے اس کے نہیں ہو سکتے۔ آپ نے بالکل عمران ہی کے سے انداز میں بے حد پریشانی ظاہر فرمائی اور اس سلسلے میں اپنے بچپن اور آغوشِ مادر تک پہنچ گئے۔ والدہ محترمہ کے دو چار قول دہرائے جو بچپن ہی میں ان کے گوش گزار کئے جاتے رہے تھے، مثلاً کہیں کوئی چیز پڑی ہو تو ہر گز نہ اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔چور کے ساتھ حشر کے دن آگ میں ڈال دیئے جائیں گے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر ہلدا کی جگہ تم ہوتیں تو شاید ایک آدھ تھپڑ رسید کر دیتیں مگر وہ تو اس سے بھی زیادہ خبطی پن کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔ اس نے اس سے کہا تھا کہ وہ کئی سال سے کسی ایمان دار آدمی کی تلاش میں ہے، لیکن آج تک ایک بھی نہ مل سکا اور یہ اسکی خوش قسمتی ہی تھی کہ شاہد جیسے آدمی سے راہ چلتے ملاقات ہو گئی، اس خوشی میں وہ اسے چائے پلانا چاہتی ہے اور اسکے بعد بھی وہ اس سے اکثر ملتی رہنا پسند کرے گی۔ اسطرح دونوں کیفے کاسینو میں پہنچے تھے، پھر پتہ نہیں کہ عمران صاحب کیسے نازل ہوئے اور اسکا تعاقب کرتے ہوئے کیفے کاسینو کی پشت والے شبینہ پوسٹ آفس تک گئے۔ ہلدا نے وہاں سے کسی کو فون کیا تھا اور اسکے بعد آپ بھی ٹیلی فون بوتھ میں تشریف لے گئے تھے اسکے بعد سے پھر کہیں نہیں دکھائی دیئے۔"
"تم اسکے بعد اسکا تعاقب کرتے رہے تھے۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے، وہیں واپس گئی تھی، اسکا اور کوئی گھر نہیں ہے، مگر اب مجھے کیا کرنا ہے؟"
"یہ معلوم کر کے بتاؤں گی، اچھا بہت بہت شکریہ۔"
اس نے سلسلہ منقطع کر دیا، تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے اور اسے صفدر کی رپورٹ سنانے لگی، اسکی آواز سے تھکن ظاہر ہو رہی تھی، ایکس ٹو کو رپورٹ دینے کے بعد اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور مسہری پر گر گئی۔
------------
دوسرے دن عمران کو اطلاع ملی کہ صفدر پھر ہلدا کا تعاقب کر رہا ہے اور شاہد ہلدا کے ساتھ ہے۔ وہ جولیا کی دوسری کال کا منتظر تھا جس سے اسے اطلاع ملتی کہ شاہد اور ہلدا محض سڑک پیمائی کر رہے ہیں یا کہیں بیٹھے بھی ہیں۔
اور یہ بات تو اب پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ وہ لڑکی کسی نہ کسی جرم میں ضرور ملوث ہے ورنہ اسے پچھلی شام سگریٹ کے خالی پیکٹ میں اس قسم کا پیغام کیوں ملتا۔
اب عمران یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کی دیکھ بھال باقاعدہ طور پر کی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ پچھلی شام جس شخص نے اسے پولیس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا وہ شروع ہی سے اسکی دیکھ بھال کرتا رہا ہوگا؟
کچھ دیر بعد اسے جولیا کی طرف سے اطلاع ملی کہ شاہد اور ہلدا میونسپل گارڈن میں ہیں اور صفدر انکی نگرانی کر رہا ہے۔
عمران بھی میونسپل گارڈن کی طرف روانہ ہو گیا، لڑکی کے متعلق اسے جولیا سے رات کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے جہاں کام کرتی ہے اور شاہد کی داستان بھی معلوم ہوئی تھی۔ شاہد کی کہانی کا یہ مطلب تھا کہ وہ ابھی تک معاملے کی بات کی طرف نہیں آیا تھا بلکہ یہ حرکت صرف جان پہچان پیدا کرنے کے لئے کی گئی تھی۔
عمران کی دانست میں شاہد کا اقدام غیر مناسب نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اب شاہد کے فرشتے بھی ہلدا کی اصلیت تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ویسے بھی وہ لڑکی اس کو کافی چالاک اور ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھنے والی معلوم ہوئی تھی۔
میونسپل گارڈن پہنچ کر ان دونوں کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ وہ ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے مل گئے۔
عمران نے انکے قریب سے گزرتے وقت محسوس کیا کہ شاہد سچ مچ اوٹ پٹانگ باتیں کر رہا ہے، ہلدا بار بار ہنس رہی تھی۔
اچانک عمران کی نظریں ایک آدمی پر رک گئیں جو ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھا پائپ میں تمباکو بھر رہا تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے پچھلی شام کیفے کاسینو میں ہلدا کے قریب سگریٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔
یہ تھا تو دیسی ہی لیکن وجیہہ اور جامہ زیب آدمی تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی جس کی بنا پر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی غلط راستے کا راہرو ہوگا۔
اس نے صفدر کو بھی دیکھا جو لان پر اوندھا پڑا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد لڑکی وہاں سے تنہا رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جب وہ پھاٹک سے گزر گئی تو عمران نے صفدر کو بھی اٹھتے دیکھا۔
شاہد جانوروں کے کٹہرے کی طرف چلا گیا، لیکن وہ آدمی جہاں تھا وہیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ گویا اسکا کام یہ تھا کہ وہ اسی وقت ہلدا پر نظر رکھے جب تک شاہد اسکے ساتھ دیکھا جائے۔
یہ چیز عمران کے لئے غیر متوقع بھی نہیں تھی، اس نے پچھلی شام ہی اندازہ کر لیا تھا کہ خود لڑکی کے آدمی بھی اسکی نگرانی کرتے ہیں اور یہی دیکھنے کے لئے وہ اس وقت یہاں آیا تھا، مگر یہ چیز اسکے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس وقت بھی اسی آدمی سے مڈ بھیڑ ہو گی جس نے سگریٹ کا پیکٹ پھینکا تھا۔
اس اتفاق نے اس کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی تھیں، اگر اس آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا اس وقت لڑکی کی نگرانی پر مامور ہوتا تو شاید عمران کو اس کا علم ہی نہ ہو سکتا کہ لڑکی کی نگرانی ہو رہی ہے کیونکہ وہ آدمی بھی اسی آدمی کی طرح وہیں بیٹھا رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔شاہد اپنی راہ لگتا اور ہلدا اپنی راہ؟
یہ آدمی عمران کو ہلدا سے زیادہ اہم معلوم ہو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھا اور عمران نے اسکا تعاقب شروع کر دیا لیکن اب ایک نئی دشواری آ پڑی تھی۔ عمران نے سوچا کہ اگر وہ پیدل ہی چلتا رہا تو خود اسکی گاڑی میونسپل گارڈن کے باہر ہی کھڑی رہ جائے گی مگر باغ کے باہر پہنچتے ہی عمران کی باچھیں کھل گئیں کیونکہ یہ مشکل بھی آسان ہو گئی تھی، وہ آدمی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا اسے اسٹارٹ کر رہا تھا۔
بس تھوڑی دیر بعد عمران کی کار موٹر سائیکل کے پیچھے لگ گئی، موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ شاید وہ آدمی اس معاملے میں کافی حد تک محتاط تھا۔
ہلدا کے مقابلے میں اس آدمی کو اہمیت دینے کا مقصد یہ تھا کہ عمران جلد از جلد اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے کیونکہ وہ اب مطمئن تھا۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کا تعلق انہیں پر اسرا لاشوں سے ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی دوسرے چکر میں ہوں اور ان سے اتفاقاً ہی ٹکراؤ ہو گیا ہو۔
ہلدا کے متعلق تو ابھی تک کی رپورٹوں کا ماحصل صرف اتنا ہی تھا کہ وہ ایک مشن ہسپتال میں نرس ہے اور ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی بھی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ اسکے ملنے جلنے والوں سے متعلق بھی معلومات حاصل ہو سکیں لیکن اس میں ناکامی ہی ہوئی تھی۔ ویسے ایک عمران کو ملا تھا مگر اسکا رویہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ دونوں کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ تو بس اسکی نگرانی کرتا تھا اور اس رویہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ آدمی بھی کسی کو جواب دہ ہوگا۔ مگر نہیں، عمران نے سوچا، یہ بھی ممکن ہے کہ صرف انہیں دونوں نے کسی قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہو اور کسی تیسرے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔
موٹر فراٹے بھرتی رہی اور اسکا تعاقب جاری رہا، تھوڑی دیر بعد عمران نے اسے ایک تار گھر کے سامنے رکتے دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل سے اتر کر اندر چلا گیا۔ عمران بھی گاڑی روک کر اترا، دوسرے ہی لمحے میں وہ بھی تار گھر کے کمپاؤنڈ میں تھا۔
پھر اس نے اسے کھڑکی سے تار کا فارم لیتے دیکھا، وہ کھڑکی ہی پر جلدی جلدی فارم پر کچھ لکھنے لگا تھا جیسے ہی اس نے فارم لکھ کر کاؤنٹر کلرک کو دیا، عمران ٹیلی فون بوتھ میں گھس گیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ یہاں ایکس ٹو کا لہجہ اختیار کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے اس نے اسے عمران ہی کی حیثیت میں مخاطب کیا۔
اسکی نظر کلائی کی گھڑی پر تھی اور وہ ماؤتھ پیس میں کہہ رہا تھا۔ "جولیا، کریم پورہ کے تار گھر سے تین بج کر سترہ منٹ پر ایک تار دیا گیا ہے، فوراً پتہ لگاؤ کہ تار کسے اور کہاں دیا گیا ہے اور تار دینے والے کا نام اور پتہ بھی چاہئے۔ ارے ہاں میں عمران ہوں جلدی کرو۔۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔۔؟"
اس نے سلسلہ منقطع کر دیا اور بوتھ میں رک کر اس آدمی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ پھر جب اسکی موٹر سائیکل کافی فاصلے پر پہنچ گئی تو عمران نے بوتھ سے نکل کر تعاقب کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ سلسلہ گرین اسکوائر کی ایک کوٹھی میں ختم ہوا۔ عمران عمارت پر نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گیا، کچھ دور جا کر اس نے کار روک دی اور نیچے اتر آیا۔
اب وہ کوٹھی کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ پھاٹک پر اسے کسی کی نیم پلیٹ نہیں نظر آئی، ویسے وہ آس پاس کی شاندار عمارتوں میں سے تھی۔ عمران نے کوٹھی کے محلِ وقوع پر تفصیلی نظر ڈالی اور پھر اپنی کار میں آ بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔اب وہ واپس جا رہا تھا۔
اپنے فلیٹ پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے جولیا کو فون کیا، اس بار وہ ایکس ٹو کی حیثیت سے بول رہا تھا۔ "کیپٹن خاور سے کہو کہ گرین اسکوائر میں پیٹرک بار کے سامنے والی کوٹھی کی نگرانی کرے۔۔۔۔۔۔۔اس میں خصوصیت سے ایسے آدمی پر نظر رکھنی ہے جسکی چال میں خفیف سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ آدمی اس وقت اسی عمارت میں ہے۔"
"بہت بہتر جناب۔"
"یہ کام جلد سے جلد شروع ہونا چاہئے، اسے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اس عمارت میں کون رہتا ہے اور اس آدمی کا اس سے کیا تعلق ہے جسکی چال میں ۔۔۔۔۔۔۔ لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"
"بہتر جناب۔"
"عمران نے جس تار کے متعلق تم سے کہا تھا اس کے لئے کیا ہوا۔"
"اوہ۔۔۔۔۔۔وہ، جی ہاں، اس سلسلے میں لیفٹیننٹ صدیقی تفتیش کر رہا ہے۔"
"ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔"
"جی نہیں ۔۔۔۔۔۔"
"جیسے ہی معلوم ہو مجھے مطلع کرنا۔"
"تو عمران کو اطلاع نہ دی جائے۔"
"نہیں۔۔۔۔۔۔تم براہِ راست مجھے اطلاع دو گی۔"
"بہت بہتر جناب۔"
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
(جاری ہے)
۔
دوستوں کا سا تھا۔
"آہا۔۔۔۔تو کیا میرے علاوہ کوئی اور بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔"
"مجھے اس کا علم نہیں ہے۔" جولیا نے کہا۔
"آہا۔۔۔۔ٹھیک، یہ عمران صاحب بھی کیفے کاسینو میں نظر آئے تھے۔"
"ارے چھوڑو یہ قصہ، وہ کہاں نہیں نظر آتا۔" جولیا نے کہا۔ "مجھے ان دونوں کی ملاقات کی تفصیل بتاؤ۔"
"تفصیل احمقانہ ہے، پتہ نہیں کیوں یہاں کے سارے آفیسر خود کو عمران کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج ان شاہد صاحب نے بھی اسی قسم کی ایک حرکت فرمائی تھی، ہلدا کوئی چیز خریدنے کے لئے ایک دوکان پر رکی تھی اور قیمت ادا کرنے کے لئے اپنا وینٹی بیگ کھولا تھا، پھر آگے بڑھ گئی۔ شاہد صاحب نے جھٹ اپنی جیب سے دس دس کے دو نوٹ نکالے اور اسکی طرف جھپٹے، اسے روک کر کہا کہ دیکھئے آپ کے بیگ سے شاید یہ روپے گر گئے تھے۔ اس نے وینٹی بیگ کھول کر اپنی رقم کا جائزہ لیا اور کہا کہ وہ روپے اس کے نہیں ہو سکتے۔ آپ نے بالکل عمران ہی کے سے انداز میں بے حد پریشانی ظاہر فرمائی اور اس سلسلے میں اپنے بچپن اور آغوشِ مادر تک پہنچ گئے۔ والدہ محترمہ کے دو چار قول دہرائے جو بچپن ہی میں ان کے گوش گزار کئے جاتے رہے تھے، مثلاً کہیں کوئی چیز پڑی ہو تو ہر گز نہ اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔چور کے ساتھ حشر کے دن آگ میں ڈال دیئے جائیں گے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر ہلدا کی جگہ تم ہوتیں تو شاید ایک آدھ تھپڑ رسید کر دیتیں مگر وہ تو اس سے بھی زیادہ خبطی پن کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔ اس نے اس سے کہا تھا کہ وہ کئی سال سے کسی ایمان دار آدمی کی تلاش میں ہے، لیکن آج تک ایک بھی نہ مل سکا اور یہ اسکی خوش قسمتی ہی تھی کہ شاہد جیسے آدمی سے راہ چلتے ملاقات ہو گئی، اس خوشی میں وہ اسے چائے پلانا چاہتی ہے اور اسکے بعد بھی وہ اس سے اکثر ملتی رہنا پسند کرے گی۔ اسطرح دونوں کیفے کاسینو میں پہنچے تھے، پھر پتہ نہیں کہ عمران صاحب کیسے نازل ہوئے اور اسکا تعاقب کرتے ہوئے کیفے کاسینو کی پشت والے شبینہ پوسٹ آفس تک گئے۔ ہلدا نے وہاں سے کسی کو فون کیا تھا اور اسکے بعد آپ بھی ٹیلی فون بوتھ میں تشریف لے گئے تھے اسکے بعد سے پھر کہیں نہیں دکھائی دیئے۔"
"تم اسکے بعد اسکا تعاقب کرتے رہے تھے۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے، وہیں واپس گئی تھی، اسکا اور کوئی گھر نہیں ہے، مگر اب مجھے کیا کرنا ہے؟"
"یہ معلوم کر کے بتاؤں گی، اچھا بہت بہت شکریہ۔"
اس نے سلسلہ منقطع کر دیا، تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے اور اسے صفدر کی رپورٹ سنانے لگی، اسکی آواز سے تھکن ظاہر ہو رہی تھی، ایکس ٹو کو رپورٹ دینے کے بعد اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور مسہری پر گر گئی۔
------------
دوسرے دن عمران کو اطلاع ملی کہ صفدر پھر ہلدا کا تعاقب کر رہا ہے اور شاہد ہلدا کے ساتھ ہے۔ وہ جولیا کی دوسری کال کا منتظر تھا جس سے اسے اطلاع ملتی کہ شاہد اور ہلدا محض سڑک پیمائی کر رہے ہیں یا کہیں بیٹھے بھی ہیں۔
اور یہ بات تو اب پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ وہ لڑکی کسی نہ کسی جرم میں ضرور ملوث ہے ورنہ اسے پچھلی شام سگریٹ کے خالی پیکٹ میں اس قسم کا پیغام کیوں ملتا۔
اب عمران یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کی دیکھ بھال باقاعدہ طور پر کی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ پچھلی شام جس شخص نے اسے پولیس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا وہ شروع ہی سے اسکی دیکھ بھال کرتا رہا ہوگا؟
کچھ دیر بعد اسے جولیا کی طرف سے اطلاع ملی کہ شاہد اور ہلدا میونسپل گارڈن میں ہیں اور صفدر انکی نگرانی کر رہا ہے۔
عمران بھی میونسپل گارڈن کی طرف روانہ ہو گیا، لڑکی کے متعلق اسے جولیا سے رات کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی ہے جہاں کام کرتی ہے اور شاہد کی داستان بھی معلوم ہوئی تھی۔ شاہد کی کہانی کا یہ مطلب تھا کہ وہ ابھی تک معاملے کی بات کی طرف نہیں آیا تھا بلکہ یہ حرکت صرف جان پہچان پیدا کرنے کے لئے کی گئی تھی۔
عمران کی دانست میں شاہد کا اقدام غیر مناسب نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اب شاہد کے فرشتے بھی ہلدا کی اصلیت تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ویسے بھی وہ لڑکی اس کو کافی چالاک اور ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھنے والی معلوم ہوئی تھی۔
میونسپل گارڈن پہنچ کر ان دونوں کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ وہ ایک بنچ پر بیٹھے ہوئے مل گئے۔
عمران نے انکے قریب سے گزرتے وقت محسوس کیا کہ شاہد سچ مچ اوٹ پٹانگ باتیں کر رہا ہے، ہلدا بار بار ہنس رہی تھی۔
اچانک عمران کی نظریں ایک آدمی پر رک گئیں جو ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھا پائپ میں تمباکو بھر رہا تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس نے پچھلی شام کیفے کاسینو میں ہلدا کے قریب سگریٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔
یہ تھا تو دیسی ہی لیکن وجیہہ اور جامہ زیب آدمی تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی جس کی بنا پر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی غلط راستے کا راہرو ہوگا۔
اس نے صفدر کو بھی دیکھا جو لان پر اوندھا پڑا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد لڑکی وہاں سے تنہا رخصت ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جب وہ پھاٹک سے گزر گئی تو عمران نے صفدر کو بھی اٹھتے دیکھا۔
شاہد جانوروں کے کٹہرے کی طرف چلا گیا، لیکن وہ آدمی جہاں تھا وہیں بیٹھا پائپ پیتا رہا۔ گویا اسکا کام یہ تھا کہ وہ اسی وقت ہلدا پر نظر رکھے جب تک شاہد اسکے ساتھ دیکھا جائے۔
یہ چیز عمران کے لئے غیر متوقع بھی نہیں تھی، اس نے پچھلی شام ہی اندازہ کر لیا تھا کہ خود لڑکی کے آدمی بھی اسکی نگرانی کرتے ہیں اور یہی دیکھنے کے لئے وہ اس وقت یہاں آیا تھا، مگر یہ چیز اسکے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس وقت بھی اسی آدمی سے مڈ بھیڑ ہو گی جس نے سگریٹ کا پیکٹ پھینکا تھا۔
اس اتفاق نے اس کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی تھیں، اگر اس آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا اس وقت لڑکی کی نگرانی پر مامور ہوتا تو شاید عمران کو اس کا علم ہی نہ ہو سکتا کہ لڑکی کی نگرانی ہو رہی ہے کیونکہ وہ آدمی بھی اسی آدمی کی طرح وہیں بیٹھا رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔شاہد اپنی راہ لگتا اور ہلدا اپنی راہ؟
یہ آدمی عمران کو ہلدا سے زیادہ اہم معلوم ہو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھا اور عمران نے اسکا تعاقب شروع کر دیا لیکن اب ایک نئی دشواری آ پڑی تھی۔ عمران نے سوچا کہ اگر وہ پیدل ہی چلتا رہا تو خود اسکی گاڑی میونسپل گارڈن کے باہر ہی کھڑی رہ جائے گی مگر باغ کے باہر پہنچتے ہی عمران کی باچھیں کھل گئیں کیونکہ یہ مشکل بھی آسان ہو گئی تھی، وہ آدمی ایک موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا اسے اسٹارٹ کر رہا تھا۔
بس تھوڑی دیر بعد عمران کی کار موٹر سائیکل کے پیچھے لگ گئی، موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔ شاید وہ آدمی اس معاملے میں کافی حد تک محتاط تھا۔
ہلدا کے مقابلے میں اس آدمی کو اہمیت دینے کا مقصد یہ تھا کہ عمران جلد از جلد اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے کیونکہ وہ اب مطمئن تھا۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کا تعلق انہیں پر اسرا لاشوں سے ہوگا۔ ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی دوسرے چکر میں ہوں اور ان سے اتفاقاً ہی ٹکراؤ ہو گیا ہو۔
ہلدا کے متعلق تو ابھی تک کی رپورٹوں کا ماحصل صرف اتنا ہی تھا کہ وہ ایک مشن ہسپتال میں نرس ہے اور ہسپتال ہی کے ایک کمرے میں رہتی بھی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہو سکا تھا کہ اسکے ملنے جلنے والوں سے متعلق بھی معلومات حاصل ہو سکیں لیکن اس میں ناکامی ہی ہوئی تھی۔ ویسے ایک عمران کو ملا تھا مگر اسکا رویہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ دونوں کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ تو بس اسکی نگرانی کرتا تھا اور اس رویہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ آدمی بھی کسی کو جواب دہ ہوگا۔ مگر نہیں، عمران نے سوچا، یہ بھی ممکن ہے کہ صرف انہیں دونوں نے کسی قسم کا کھیل شروع کر رکھا ہو اور کسی تیسرے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔
موٹر فراٹے بھرتی رہی اور اسکا تعاقب جاری رہا، تھوڑی دیر بعد عمران نے اسے ایک تار گھر کے سامنے رکتے دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل سے اتر کر اندر چلا گیا۔ عمران بھی گاڑی روک کر اترا، دوسرے ہی لمحے میں وہ بھی تار گھر کے کمپاؤنڈ میں تھا۔
پھر اس نے اسے کھڑکی سے تار کا فارم لیتے دیکھا، وہ کھڑکی ہی پر جلدی جلدی فارم پر کچھ لکھنے لگا تھا جیسے ہی اس نے فارم لکھ کر کاؤنٹر کلرک کو دیا، عمران ٹیلی فون بوتھ میں گھس گیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے جولیا کے نمبر ڈائیل کئے۔ یہاں ایکس ٹو کا لہجہ اختیار کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے اس نے اسے عمران ہی کی حیثیت میں مخاطب کیا۔
اسکی نظر کلائی کی گھڑی پر تھی اور وہ ماؤتھ پیس میں کہہ رہا تھا۔ "جولیا، کریم پورہ کے تار گھر سے تین بج کر سترہ منٹ پر ایک تار دیا گیا ہے، فوراً پتہ لگاؤ کہ تار کسے اور کہاں دیا گیا ہے اور تار دینے والے کا نام اور پتہ بھی چاہئے۔ ارے ہاں میں عمران ہوں جلدی کرو۔۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔۔؟"
اس نے سلسلہ منقطع کر دیا اور بوتھ میں رک کر اس آدمی کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ پھر جب اسکی موٹر سائیکل کافی فاصلے پر پہنچ گئی تو عمران نے بوتھ سے نکل کر تعاقب کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ سلسلہ گرین اسکوائر کی ایک کوٹھی میں ختم ہوا۔ عمران عمارت پر نظر ڈالتا ہوا آگے نکل گیا، کچھ دور جا کر اس نے کار روک دی اور نیچے اتر آیا۔
اب وہ کوٹھی کی طرف پیدل جا رہا تھا۔ پھاٹک پر اسے کسی کی نیم پلیٹ نہیں نظر آئی، ویسے وہ آس پاس کی شاندار عمارتوں میں سے تھی۔ عمران نے کوٹھی کے محلِ وقوع پر تفصیلی نظر ڈالی اور پھر اپنی کار میں آ بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔اب وہ واپس جا رہا تھا۔
اپنے فلیٹ پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے جولیا کو فون کیا، اس بار وہ ایکس ٹو کی حیثیت سے بول رہا تھا۔ "کیپٹن خاور سے کہو کہ گرین اسکوائر میں پیٹرک بار کے سامنے والی کوٹھی کی نگرانی کرے۔۔۔۔۔۔۔اس میں خصوصیت سے ایسے آدمی پر نظر رکھنی ہے جسکی چال میں خفیف سی لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ آدمی اس وقت اسی عمارت میں ہے۔"
"بہت بہتر جناب۔"
"یہ کام جلد سے جلد شروع ہونا چاہئے، اسے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ اس عمارت میں کون رہتا ہے اور اس آدمی کا اس سے کیا تعلق ہے جسکی چال میں ۔۔۔۔۔۔۔ لنگڑاہٹ پائی جاتی ہے۔"
"بہتر جناب۔"
"عمران نے جس تار کے متعلق تم سے کہا تھا اس کے لئے کیا ہوا۔"
"اوہ۔۔۔۔۔۔وہ، جی ہاں، اس سلسلے میں لیفٹیننٹ صدیقی تفتیش کر رہا ہے۔"
"ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔"
"جی نہیں ۔۔۔۔۔۔"
"جیسے ہی معلوم ہو مجھے مطلع کرنا۔"
"تو عمران کو اطلاع نہ دی جائے۔"
"نہیں۔۔۔۔۔۔تم براہِ راست مجھے اطلاع دو گی۔"
"بہت بہتر جناب۔"
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
(جاری ہے)
۔