خطرے میں انسان کی انسان سے ہی جان ہے ---براہے اصلاح

الف عین
@محمّ احسن سمیع راحل
شاہد شاہنواز
-----------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
------
خطرے میں انسان کی انسان سے ہی جان ہے
کیوں بنا انسان ایسا عقل بھی حیران ہے
-------------
ہر طرف ہی دیکھتے ہیں بے بسی قانون کی
مجرموں کے واسطے کیوں اس قدر بے جان ہے
--------
آج پانی سے بھی سستی ہو گئی ہے جان کیوں ؟
وحشتوں میں ڈوبتا کیوں جا رہا انسان ہے ؟
------------
آدمی نے چُن لیا کیوں راستہ شیطان کا ؟
آج کا انسان کیوں یہ اس قدر نادان ہے ؟
-----------------
جل رہے ہیں لوگ کیوں سب نفرتوں کی آگ میں ؟
جس کو چھوٹی بات سمجھے اک بڑا بحران ہے
-----------------یا
جس کو سمجھے بات چھوٹی وہ بنی طوفان ہے
------------------
مجرموں کو چھوڑ دینا یہ کہاں انصاف ہے
یہ وطیرہ ہی ہماری موت کا سامان ہے
-------------
ہر کسی سے ایک جیسا ہر طرح انصاف ہو
جان ہے قربان جن پر ﷺان کا یہ فرمان ہے
-----------------
شکر کرنا چاہئے ارشد خدا کی ذات کا
مملکت جو دی ہمیں ہے اس کا یہ احسان ہے
 

الف عین

لائبریرین
یہ ویسی ہی غزل ہے جیسی آپ چھ آٹھ ماہ پہلے کہتے تھے! بس شتر گربہ نہیں ہے!
یہ میں اکثر کہتا ہوں کہ مصرع نثر کے جتنا قریب ہو گا، اتنا ہی رواں ہو گا۔ ایک ہی مثال.. مملکت جو دی ہمین ہے..... اگر مملکت جو ہم کو دی ہے... کہیں تو اچھا نہیں لگتا۔ پھر حیرت ہے کہ یہ سامنے کا مصرعہ آپ کو نہیں سوجھا!
کہاں انصاف ہے... درست محاورہ ہے یا 'کہاں کا انصاف'؟
آپ کسی چیز 'پر' شکر ادا کرتے ہیں. اور کسی ذات 'کا' شکر ادا کیا جاتا ہے۔
اس کو بھی بس مشق کے لیے سمجھیے اور اصلاح کی محنت کسی سے نہ کروائی جائے تو بہتر ہے
 
Top