با ادب
محفلین
خط بنام سہیلی
سہیلی !
آداب عرض ہے ۔ بعد از آداب اپنی خیریت کی اطلاع دینا مقصود تھی ۔ لیکن تمھارا سابقہ ریکارڈ مدنظر رکھتے ہوئے اس بار تمھیں اپنا حال احوال نہ بتانے کا قصد کیا ہے ۔
پچھلے خط کے وہ صفحات جن کا طعنہ دیتے ہوئے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے اتنی توفیق نہ ہوئی کہ خوشبوؤں میں بسے رنگ دار صفحات پہ خط لکھتی ۔
تو جان رکھو کہ خط پہ جا بجا نشانات میرے آنسوؤں کے تھے جو تمھاری یاد میں بے تاب ہو کے بہائے گئے تھے۔
لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ وہ سبھی آنسو بہا کے فقط اپنا ہی مذاق اڑوایا تم سے ۔ جب سے تم پردیس جا بسی ہو مادیت کی اہمیت تمھاری نگاہ میں بڑھ چکی ہے ۔
پچھلی جمعرات تمھارے بھائی صاحب نے تنخواہ میرے ہاتھ میں تھمائی تو میرا جی چاہا تمھاری چھوٹی کے لیے وہی رنگ برنگے شیشوں والا پراندہ خریدوں جسے خریدنے کے لیے تم نے پورے تین مہینے اپنا جیب خرچ جمع کیا تھا۔
سنا ہے یورپ میں رہنے والی نئی نسل ثقافتی اشیاء کی بڑی قدردان ہے ۔ لیکن اب یہ خیال محض اپنی بے وقوفی ہی لگتا ہے ۔
چاچی زہرہ کی بیٹیاں شہر میں پڑھتی ہیں جب بھی گاؤں آتی ہیں اپنے اماں باوا سمیت ہم سب کو عار دلاتی ہیں کہ ہم نے اپنی حیاتی ان کھیت کھلیانوں اور فطرتی نظاروں پہ وار کے ضائع ہی کر دی ہے ۔ زندگی تو وہ ہے جو شہری گزارا کرتے ہیں ۔
کپڑے جوتے خریدنے ہوں تو شیشوں والی کئی منزلہ اونچی دوکانیں موجود ہیں ۔ گھر کا سودا سلف نکڑ والے جنرل اسٹور سے لانے کی بجائے پہیے والی ریڑھی میں اپنی من مرضی سے ڈال کے دیہات کی زہرہ کی بیٹیاں لمبی ہیل ٹکاتی خود کو ملکہ سے کیا ہی کم سمجھتی ہیں ۔
سوچتی ہوں جب وہ یہ ذرا چار پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پہ ایسی دیدہ ہوائی ہوئی جاتی ہیں تو بھلا یورپ کی گوری میموں کے بیچ رہتے تمھارے خیالات کیوں نہ بلند وبانگ ہونگے ۔
اب کے خط لکھنے بیٹھی تھی تو سوچا تھا تمھیں بتاؤنگی آموں پہ اب کے پچھلے برس سے کہیں بڑھ کے پھل لگا ہے ۔ ماما اصغر کے لڑکوں نے اونچی اونچی پینگیں ان ہی درختوں پہ ڈالی ہیں ۔ سارا دن بندروں کی طرح ان پہ جھولتے رہتے ہیں ۔ سچ پوچھو تو انکی بے فکری دیکھ کے میرا بھی جی مچل اٹھتا ہے ۔ یاد ہے جب ابا جی ہمارے لیے پینگیں ڈالتے تو کیسے میری اور تمھاری ریسیں لگا کرتیں ۔ میں کبھی تم سے اونچی پینگ نہیں جھول پائی ۔ مجھے ہمیشہ قلق رہا ۔
لیکن تم بھی تو تیراکی میں مجھ سے اچھی نہ تھی ۔ میں نہر کے دوسرے سرے پہ پہنچ کے مڑ کے دیکھتی تو تم دور ہانپتی ہوئی بہ مشکل تیرتی دکھائی دیتی ۔
چاچی نوراں کی بہو کا دوسرا بچہ بھی فوت ہو گیا ہے ۔ ایک کو تو پچھلے سال نمونیا ہوگیا تھا دوسرے کو امسال مچھر نگوڑے نے کاٹ لیا ۔
دیکھو ذرا ۔۔ سنا کرتے تھے مچھر کی سزا فقط نمرود کو ہوئی تھی ۔ اور اب سوہنے وطن میں ہزاروں اموات ان مچھروں سے ہوگئیں ۔ شکر ہے تم اور تمھارے بچے یہاں نہیں ۔ ورنہ دھڑکا ہی لگا رہتا کہیں مچھر ہی نہ کاٹ لیں ۔
بس سہیلی جہاں رہو سکھی رہو ۔ خط لکھنا شروع کیا تھا تو تم سے خفا تھی لیکن کہہ سن کے دل ہلکا ہوگیا ۔ اب تو تمھاری فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔ جانے پردیس میں کن حالات کا شکار ہوگی ۔ سبھی اپنے دور بیٹھے ہیں ۔ کس کس کی یاد نہ ستاتی ہوگی ۔
پردیس بڑی ظالم شے ہے جیتے جی قید تنہائی کاٹنی پڑتی ہے ۔
اری میں بھی کیا باتیں لے کے بیٹھ گئی ۔ پھر سے کاغذ پہ آنسو ٹپکے تو تمھاری نفاست پسندطبیعت نے اب کے گوارا نہیں کرنا ۔
بٹیا کو پیار ۔ ہمیشہ سلامت رہو ۔
تمھاری سہیلی بانو ۔
سمیرا امام
سہیلی !
آداب عرض ہے ۔ بعد از آداب اپنی خیریت کی اطلاع دینا مقصود تھی ۔ لیکن تمھارا سابقہ ریکارڈ مدنظر رکھتے ہوئے اس بار تمھیں اپنا حال احوال نہ بتانے کا قصد کیا ہے ۔
پچھلے خط کے وہ صفحات جن کا طعنہ دیتے ہوئے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے اتنی توفیق نہ ہوئی کہ خوشبوؤں میں بسے رنگ دار صفحات پہ خط لکھتی ۔
تو جان رکھو کہ خط پہ جا بجا نشانات میرے آنسوؤں کے تھے جو تمھاری یاد میں بے تاب ہو کے بہائے گئے تھے۔
لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ وہ سبھی آنسو بہا کے فقط اپنا ہی مذاق اڑوایا تم سے ۔ جب سے تم پردیس جا بسی ہو مادیت کی اہمیت تمھاری نگاہ میں بڑھ چکی ہے ۔
پچھلی جمعرات تمھارے بھائی صاحب نے تنخواہ میرے ہاتھ میں تھمائی تو میرا جی چاہا تمھاری چھوٹی کے لیے وہی رنگ برنگے شیشوں والا پراندہ خریدوں جسے خریدنے کے لیے تم نے پورے تین مہینے اپنا جیب خرچ جمع کیا تھا۔
سنا ہے یورپ میں رہنے والی نئی نسل ثقافتی اشیاء کی بڑی قدردان ہے ۔ لیکن اب یہ خیال محض اپنی بے وقوفی ہی لگتا ہے ۔
چاچی زہرہ کی بیٹیاں شہر میں پڑھتی ہیں جب بھی گاؤں آتی ہیں اپنے اماں باوا سمیت ہم سب کو عار دلاتی ہیں کہ ہم نے اپنی حیاتی ان کھیت کھلیانوں اور فطرتی نظاروں پہ وار کے ضائع ہی کر دی ہے ۔ زندگی تو وہ ہے جو شہری گزارا کرتے ہیں ۔
کپڑے جوتے خریدنے ہوں تو شیشوں والی کئی منزلہ اونچی دوکانیں موجود ہیں ۔ گھر کا سودا سلف نکڑ والے جنرل اسٹور سے لانے کی بجائے پہیے والی ریڑھی میں اپنی من مرضی سے ڈال کے دیہات کی زہرہ کی بیٹیاں لمبی ہیل ٹکاتی خود کو ملکہ سے کیا ہی کم سمجھتی ہیں ۔
سوچتی ہوں جب وہ یہ ذرا چار پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پہ ایسی دیدہ ہوائی ہوئی جاتی ہیں تو بھلا یورپ کی گوری میموں کے بیچ رہتے تمھارے خیالات کیوں نہ بلند وبانگ ہونگے ۔
اب کے خط لکھنے بیٹھی تھی تو سوچا تھا تمھیں بتاؤنگی آموں پہ اب کے پچھلے برس سے کہیں بڑھ کے پھل لگا ہے ۔ ماما اصغر کے لڑکوں نے اونچی اونچی پینگیں ان ہی درختوں پہ ڈالی ہیں ۔ سارا دن بندروں کی طرح ان پہ جھولتے رہتے ہیں ۔ سچ پوچھو تو انکی بے فکری دیکھ کے میرا بھی جی مچل اٹھتا ہے ۔ یاد ہے جب ابا جی ہمارے لیے پینگیں ڈالتے تو کیسے میری اور تمھاری ریسیں لگا کرتیں ۔ میں کبھی تم سے اونچی پینگ نہیں جھول پائی ۔ مجھے ہمیشہ قلق رہا ۔
لیکن تم بھی تو تیراکی میں مجھ سے اچھی نہ تھی ۔ میں نہر کے دوسرے سرے پہ پہنچ کے مڑ کے دیکھتی تو تم دور ہانپتی ہوئی بہ مشکل تیرتی دکھائی دیتی ۔
چاچی نوراں کی بہو کا دوسرا بچہ بھی فوت ہو گیا ہے ۔ ایک کو تو پچھلے سال نمونیا ہوگیا تھا دوسرے کو امسال مچھر نگوڑے نے کاٹ لیا ۔
دیکھو ذرا ۔۔ سنا کرتے تھے مچھر کی سزا فقط نمرود کو ہوئی تھی ۔ اور اب سوہنے وطن میں ہزاروں اموات ان مچھروں سے ہوگئیں ۔ شکر ہے تم اور تمھارے بچے یہاں نہیں ۔ ورنہ دھڑکا ہی لگا رہتا کہیں مچھر ہی نہ کاٹ لیں ۔
بس سہیلی جہاں رہو سکھی رہو ۔ خط لکھنا شروع کیا تھا تو تم سے خفا تھی لیکن کہہ سن کے دل ہلکا ہوگیا ۔ اب تو تمھاری فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔ جانے پردیس میں کن حالات کا شکار ہوگی ۔ سبھی اپنے دور بیٹھے ہیں ۔ کس کس کی یاد نہ ستاتی ہوگی ۔
پردیس بڑی ظالم شے ہے جیتے جی قید تنہائی کاٹنی پڑتی ہے ۔
اری میں بھی کیا باتیں لے کے بیٹھ گئی ۔ پھر سے کاغذ پہ آنسو ٹپکے تو تمھاری نفاست پسندطبیعت نے اب کے گوارا نہیں کرنا ۔
بٹیا کو پیار ۔ ہمیشہ سلامت رہو ۔
تمھاری سہیلی بانو ۔
سمیرا امام