"خلائی اڑان" ---- ایک نظم اصلاح کے لئیے۔

ایک نئی نظم کے ساتھ حاضر ہوں۔
نظم کا عنون ہے "خلائی اڑان" ۔
تسخیر خلاء اور چاند پر انسانی قدم ایک تاریخی واقعہ ہے۔
اس تناظر میں اجرام فلکی کس طرح تاثر دے رہیں ہیں یہ نظم ان لمحات اور تاثرات کو پیش کرتی نظر آتی ہے۔
اک اصطلاح "نوری سال" یعنی "Light Year" کا بھی استعمال کیا ہے ۔
بطور خاص استاد محترم جناب الف عین صاحب اور دیگر احباب سے اصلاح اور مشورہ کی گزارش ہے،
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن
ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
----------------------------------------
جب خلاؤں میں سفر کرنے کے جوہر جاگے
اک جہاں اور نیا پانے کے خوگر جاگے

کھول کر بندِ یقیں، قیدِ زمیں کے، انساں
صبح کو یاں سے چلے، رات قمر پر جاگے

ایک ہنگام اٹھا ، اہلِ سماوات میں تب
زحل و مرّیخ نہیں سارے ہی شَشدَر جاگے

دشتِ افلاک میں خوا بیدہ ہزاروں تارے
آنکھ ملتے ہوئے ، سب نیند سے اٹھ کر جاگے

اُٹّھا انسان کی پرواز پہ شورِ محشر
ایک سورج ہی نہیں ،سینکڑوں اختر جاگے

ان میں اک شور اٹھا ،"خاک اُڑی ! اے، وہ گئی!"
اتنے حیراں!، کئی راتیں متواتر جاگے !

دشتِ تنہائی میں گم اپنے ستاروں کے مطیع
کتنے سیّارے پریشان سے شب بھر جاگے

کہکشاؤں کے بھی دل خوف سے بے حد لرزے
پائےِ آدم کے تلے آنے کے سب ڈر جاگے

دیکھنے غور سے آدم کو سفیرانِ نجم
اُن دنوں رات میں آ کر کے قمر پر جاگے

غرض ہنگامہ و کہرام کا عالم ایسا
جوں، شبِ خون پہ ، سویا ہوا لشکر جاگے

تھا کوئ راز سے واقف تو وہ مہتاب ہی تھا
کیسے اِس آدمِ خاکی میں یہ شہپر جاگے!

آسمانوں میں یہ پھر چاند نے سرگوشی کی
کس طرح مستِ گراں خواب کے تیور جاگے

"تھی اسی فکر میں، سیماب طبیعت اس کی
سوئے گر آج زمیں پر، تو فلک پر جاگے !!

تم، کہ حیران نہ ہو ،محنتیِ انسانوں پر
اس تگ و دو میں، یہ دن رات برابر جاگے

آج پہنچا ہے یہ راکٹ پہ یہاں ہو کے سوار
کل کو شاید یہ کسی اور زمیں پر جاگے !!

دوربیں سے یہ خلاؤں کو کنگھالے، اس پر
'نوری سالوں' سے پرے ہوتے وہ منظر جاگے !!

اک نئی جہد نیا کھیل ملا ہے اس کو
آج اس چاند پہ کل اور قمر پر جاگے !

اب زمیں چھوڑ کے یہ فتنہ خلاؤں میں اُڑے
کل کو ممکن ہے کہ دیکھو سرِ کوثر جاگے !!"

ہو گیا راز سے واقف یوں نظامِ شمسی !
اور پرے دور کے بھی سب مہہ و اختر جاگے !

آدمِ زاد سے خوش تھے تو یہ سورج اور چاند
منتظر کب سے تھے، کہ خُلد کا رہبر جاگے !

کر کے تسخیرِ خلاء اب تو یہ سرگرداں ہے
کیسے ممکن حدِ سورج سے یہ باہر جاگے ؟!

منتظر، منزلیں کتنی ہیں خلا میں، کاشف!
دیکھنا یہ ہے کہ اب کس کا مقدّر جاگے !!

سیّد کاشف
-------------------------------
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
بہت طویل مسلسل غزل ہے۔ کچھ اشعار آسانی سے حذف کئے جا سکتے ہیں۔ کیا ان کی نشان دہی بھی کروں؟
اختر جاگے، قمر پر جاگے جیسے قوافی عجیب ہیں کہ بول چال میں یہ نہیں کہا جاتا۔
کوژر قافیئے کا ستعمال بھی درست نہیں لگ رہا۔
 
استاد محترم ۔۔۔
میں ان قوافی پر دوبارہ غور کرتا ہوں اور اگر بدل نہ سکا تو نظم سے نکال دونگا۔ جن اشعار کو نکالا جا سکتا ہے ان کی نشاندہی فرما دیں۔
اس نظم کا مضمون ویسے بھی عام واقعات سے ہٹ کر ہے۔ سو اس تناظر میں اس طرح کے قوافی کیا قابلِ قبول نہیں ہیں؟
آپ کے پر شفقت رہنمائی کا منتظر ہوں۔
شکریہ۔ جزاک اللہ ۔
 
کاشف اسرار احمد بھائی اچھی نظم ہے ، جیسا کہ استادِ محترم نے فرمایا کہ چند ایک اشعار پر از سرِ نو غور کرنا چاہئے،
میری دوستانہ رائے یہ ہے کہ اس خیال کے لیے بہتر ساخت (فامیٹ) مثنوی کی ہے ۔
اس سے کم از کم دو فوائد کی توقع کی جا سکتی ہے ، اول تو یہ کہ ردیف کی قید سے آزادی حاصل ہو سکے گی، دوسرے روانی میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔
پابند نظم میں بھی آسانی ہو سکتی ہے مگر میرا خیال ہے ۔ 1) مسدس یا مخمس میں کہی جائے تو بات کہنے کی کنجائش زیادہ ہوجاتی ہے ، 2) اسی ساخت میں غیر مردف کہی جائے۔
بہرحال یہ فقط ایک دوست کی حثیت سے رائے ہے ۔ جسے سو فیصد رد بھی کیا جا سکتا ہے ۔
 
شکریہ ادب دوست بھائی۔
جب یہ نظم شروع کی تھی تب طوالت کا اندزہ نہیں تھا۔ پھر دھیرے دھیرے پھیلتی چلی گئی۔
آپ کا مشورہ صائب ہے لیکن اب نئے سرے سے محنت کرنا یقیناََ زیادہ وقت لے گا۔
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
میں اپنی رائے پر قائم ہوں۔ ایسے قوافی بناوٹی لگتے ہیں، استعمال برائے استعمال۔ ان سے بچا کرو۔
 
Top