خلائی مخلوق ہے یا نہیں؟ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ سامنے آگئی

جاسم محمد

محفلین
خلائی مخلوق ہے یا نہیں؟ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ سامنے آگئی
جون 04, 2021
E34BE493-CBC1-44E4-B421-2129092CDC73_cx0_cy15_cw0_w1080_h608_s.jpg

1972 میں امریکی ایئر فورس کی جاری کردہ تصویر جس میں اڑن طشتری جیسی چیز دکھائی دے رہی ہے (اے ایف پی)

امریکہ کے انٹیلی جنس عہدیداروں کو اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے کہ نیوی ایوی ایٹرز کی جانب سے حالیہ برسوں میں ایک غیر شناخت شدہ جو تصویر پیش کی گئی تھی، وہ کسی غیر انسانی مخلوق کے خلائی طیارے کی ہے۔ تاہم انٹیلی جنس رپورٹ میں اس تصویر کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس انٹیلی جنسرپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں غیر شناخت شدہ اجسام دیکھے جانے کے جو زیادہ تر واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ امریکی فوج یا امریکی حکومت کے کسی ادارے کی طرف سے تیار کی گئی کسی دوسری جدید ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔

A9900429-8A1D-4F7D-BA94-499C73C22910_w1080_h608_s.jpg

طیارے سے لی گئی اس تصویر میں پراسراز چیز اڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

نیو یارک ٹائمز کے مطابق کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس سٹڈی میں امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کی ٹاسک فورس نے 120 سے زیادہ ایسی تصاویر اور مناظر کا جائزہ لیا جو امریکی بحریہ کے اہل کاروں نے اور کچھ غیر ملکی افواج نے رپورٹ کی تھیں۔

اخبار نے بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے حکام کا خیال ہے کہ مخالف طاقتوں کی جانب سے تجربات فضا میں نظر آنے والی ان بعض اشکال کا سبب ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے، جس کا نام نیویارک ٹائمز نے ظاہر نہیں کیا، اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس میں اس بارے میں خدشات تھے کہ ممکن ہے کہ چین یا روس ہائپر سانک ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہے ہوں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس رپورٹ کا ایک ان کلاسیفائیڈ ورژن 25 جون تک کانگریس کو پیش کیا جائے گا، جس میں مزید دیگر نتائج بھی بیان کیے جائیں گے۔

کیا اڑن طشتریوں کا وجود حقیقی ہے؟


ہوا میں اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف او) کے بارے میں عوام کی دلچسپی حالیہ ہفتوں میں بہت زیادہ رہی ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو ایسی غیر واضح چیزوں کی تفصیل سامنے آنے کی توقع تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ان چیزوں کو کئی عشروں سے خفیہ رکھنا چاہا ہے۔

لیکن ایک سینئر عہدیدار نے، جن کا ذکر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رپورٹ میں ابہام کا مطلب یہ ہے کہ حکومت فضا میں نظر آنے والی ان غیر واضح اشیا کے بارے میں وثوق سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکی، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت میں زمین سے ہٹ کر کسی اور سیارے یا دو سیاروں کے درمیان سفر میں رہنے والی کوئی مخلوق ہے۔

امریکی حکومت کی طرف سے فضا میں نظر آنے والی غیر واضح اشیا سے متعلق ٹاسک فورس(Unidentified Aerial Phenomenon Task Force) امریکی فوج کے پائلٹوں کی جانب سے ان متعدد مشاہدات کے بعد تشکیل دی گئی، جن میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے فضا میں کچھ ایسی چیزیں دیکھی ہیں، جو غیر معمولی رفتار اور اس انداز سے حرکت کرتی ہیں کہ بظاہر وہ کسی بھی معلوم ٹیکنالوجی یا فزکس کے قانون کی حدود سے آگے کی بات ہے۔

پینٹاگان کی ترجمان سو گف نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس ٹاسک فورس کی قیادت نیوی نے کی تھی اور اس کا مقصد فطرت اور نامعلوم فضائی اشکال کی اور نوعیت کے بارے میں سوجھ بوجھ حاصل کرنا اور اسے اپنی زمینی اور فضائی تربیتوں کا حصہ بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فضا میں اشکال سے متعلق جو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ سیفٹی اور قومی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا سبب ہیں۔

اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف اوز) کے بارے میں طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے زیراستعمال خلائی جہاز ہیں۔

اس کے بعد، پینٹاگان نے پہلی مرتبہ، اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں، ریکارڈ پر یہ اعتراف کیا کہ فضا میں نظر آنے والی نامعلوم اشیا کا سامنا اس کے جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو بھی ہوا ہے اور اس کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے یا ان کو نام دینے کے لیے مختلف طرز کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کئی دہائیوں تک اس موضوع کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔
 
خلائی مخلوق ہے یا نہیں؟ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ سامنے آگئی
جون 04, 2021
E34BE493-CBC1-44E4-B421-2129092CDC73_cx0_cy15_cw0_w1080_h608_s.jpg

1972 میں امریکی ایئر فورس کی جاری کردہ تصویر جس میں اڑن طشتری جیسی چیز دکھائی دے رہی ہے (اے ایف پی)

امریکہ کے انٹیلی جنس عہدیداروں کو اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے کہ نیوی ایوی ایٹرز کی جانب سے حالیہ برسوں میں ایک غیر شناخت شدہ جو تصویر پیش کی گئی تھی، وہ کسی غیر انسانی مخلوق کے خلائی طیارے کی ہے۔ تاہم انٹیلی جنس رپورٹ میں اس تصویر کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس انٹیلی جنسرپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں غیر شناخت شدہ اجسام دیکھے جانے کے جو زیادہ تر واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ امریکی فوج یا امریکی حکومت کے کسی ادارے کی طرف سے تیار کی گئی کسی دوسری جدید ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔

A9900429-8A1D-4F7D-BA94-499C73C22910_w1080_h608_s.jpg

طیارے سے لی گئی اس تصویر میں پراسراز چیز اڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

نیو یارک ٹائمز کے مطابق کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس سٹڈی میں امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کی ٹاسک فورس نے 120 سے زیادہ ایسی تصاویر اور مناظر کا جائزہ لیا جو امریکی بحریہ کے اہل کاروں نے اور کچھ غیر ملکی افواج نے رپورٹ کی تھیں۔

اخبار نے بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے حکام کا خیال ہے کہ مخالف طاقتوں کی جانب سے تجربات فضا میں نظر آنے والی ان بعض اشکال کا سبب ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے، جس کا نام نیویارک ٹائمز نے ظاہر نہیں کیا، اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس میں اس بارے میں خدشات تھے کہ ممکن ہے کہ چین یا روس ہائپر سانک ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہے ہوں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس رپورٹ کا ایک ان کلاسیفائیڈ ورژن 25 جون تک کانگریس کو پیش کیا جائے گا، جس میں مزید دیگر نتائج بھی بیان کیے جائیں گے۔

کیا اڑن طشتریوں کا وجود حقیقی ہے؟


ہوا میں اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف او) کے بارے میں عوام کی دلچسپی حالیہ ہفتوں میں بہت زیادہ رہی ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو ایسی غیر واضح چیزوں کی تفصیل سامنے آنے کی توقع تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ان چیزوں کو کئی عشروں سے خفیہ رکھنا چاہا ہے۔

لیکن ایک سینئر عہدیدار نے، جن کا ذکر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رپورٹ میں ابہام کا مطلب یہ ہے کہ حکومت فضا میں نظر آنے والی ان غیر واضح اشیا کے بارے میں وثوق سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکی، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت میں زمین سے ہٹ کر کسی اور سیارے یا دو سیاروں کے درمیان سفر میں رہنے والی کوئی مخلوق ہے۔

امریکی حکومت کی طرف سے فضا میں نظر آنے والی غیر واضح اشیا سے متعلق ٹاسک فورس(Unidentified Aerial Phenomenon Task Force) امریکی فوج کے پائلٹوں کی جانب سے ان متعدد مشاہدات کے بعد تشکیل دی گئی، جن میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے فضا میں کچھ ایسی چیزیں دیکھی ہیں، جو غیر معمولی رفتار اور اس انداز سے حرکت کرتی ہیں کہ بظاہر وہ کسی بھی معلوم ٹیکنالوجی یا فزکس کے قانون کی حدود سے آگے کی بات ہے۔

پینٹاگان کی ترجمان سو گف نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس ٹاسک فورس کی قیادت نیوی نے کی تھی اور اس کا مقصد فطرت اور نامعلوم فضائی اشکال کی اور نوعیت کے بارے میں سوجھ بوجھ حاصل کرنا اور اسے اپنی زمینی اور فضائی تربیتوں کا حصہ بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فضا میں اشکال سے متعلق جو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ سیفٹی اور قومی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا سبب ہیں۔

اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف اوز) کے بارے میں طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے زیراستعمال خلائی جہاز ہیں۔

اس کے بعد، پینٹاگان نے پہلی مرتبہ، اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں، ریکارڈ پر یہ اعتراف کیا کہ فضا میں نظر آنے والی نامعلوم اشیا کا سامنا اس کے جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو بھی ہوا ہے اور اس کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے یا ان کو نام دینے کے لیے مختلف طرز کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کئی دہائیوں تک اس موضوع کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔
امریکیوں سے کہیں ادھر اسلام آباد چکر لگائیں، خلائی مخلوق نا دکھی تو کہنا۔
 
جہاں ایک جانب سنجیدہ سائینسی حلقوں میں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ اب کائینات میں کسی اور ذہین مخلوق کی تلاش بے سود ہے اور اسے ترک کردینا چاہیے وہیں دوسری جانب پینٹاگون سے منسوب اس کہانی میں عوام الناس کے لیے مزہ ہی مزہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
امریکیوں سے کہیں ادھر اسلام آباد چکر لگائیں، خلائی مخلوق نا دکھی تو کہنا۔
جہاں ایک جانب سنجیدہ سائینسی حلقوں میں یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ اب کائینات میں کسی اور ذہین مخلوق کی تلاش بے سود ہے اور اسے ترک کردینا چاہیے وہیں دوسری جانب پینٹاگون سے منسوب اس کہانی میں عوام الناس کے لیے مزہ ہی مزہ ہے۔
یو ایف اوز یعنی ناقابل شناخت اڑنے والی اجسام کو اب بالکل مذاق تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان کی موجودگی کی تصدیق اسٹیٹ آف دی آرٹ عسکری ریڈار اوپر انکشافات میں کر چکے ہیں۔ اب یا تو یہ ریڈار جھوٹ بول رہے ہیں یا امریکی عسکری حکام۔ سچ جو بھی ہے عوام تک لانا پڑے گا۔
NASA is getting serious about UFOs
 

سید رافع

محفلین
زمین کے علاوہ اور انسانوں کے علاوہ حیات تو ہے۔

ارتقاء کی دلیل تو نہیں کہیں گے لیکن مجدد الف ثانی رح کے مکتوبات میں انکے خانہ کعبہ کے طواف کا ذکر ہے۔ دوران طواف ان سے بعض ارواح نما لوگ ملے اور آپ نے ان سے انکے آباو اجداد کا آدم ع سے ہونے کا پوچھا۔ جوابا انہوں نے کہا کہ آپ کس آدم کی بات کر رہے ہیں؟ انکا مطلب تھا کہ آدم ع سے قبل بھی لاکھوں آدم گزر چکے ہیں اور وہ انکی اولاد میں سے ہیں۔

قرآن میں کل پچیس دفعہ لفظ آدم آیا ہے جن میں سے صرف ایک جگہ ان کی تخلیق کا ذکر ہے اور وہ کچھ یوں ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ
ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ
ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

7:11

اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ 7:11

خَلَقْنٰكُمْ جمع کی ضمیر ہے۔ یعنی ایک آدم کی بات نہیں ہو رہی جسے خلق کیا گیا تھا۔ جیسے کہ اوٹنیاں تو بہت ہیں لیکن جناب سیدنا صالح علیہ السلام کی اوٹنی ایک ہے۔ مراحل تین ہیں کہ خلق آدموں کو کیا گیا، صورت گری بھی آدموں کی ہوئی اور سجدہ مخصوص آدم ع کو ہوا۔

یوں بھی ایک یہی عالم تو ہے نہیں۔ قرآن میں بالکل پہلی سورت میں الحمد للہ رب العالمین فرمایا گیا اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام عالَم کا پیدا کرنے والا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ اس جیسے اٹھارہ ہزار عالَم دنیا میں موجود ہے، ان سب میں اللہ کی مخلوق موجود ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے "رب اللعالمین " کی تفسیر میں یہ بات منقول ہے کہ کل اٹھارہ ہزار عالم ہیں، عالمِ دنیا ان میں سے ایک ہے۔ اور تفسیر روح البیان مذکور ہے کہ اسی ہزار عالم ہیں۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ ہزار عالم ہیں واللہ اعلم۔ لیکن ایک سے زیادہ ہیں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنی لاکھ بار اس دنیا اور ان عالموں کو بنایا اور تباہ کیا جا چکا ہے۔ جیسا کہ آئس ایج، ڈائنسور ایج وغیرہ۔ آج بھی ستارے اور ان سے منسلکہ نظام بنتے نابود ہوتے رہتے ہیں۔

بیشک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔
3:33

چنانچہ آدم علیہ السلام جو قریبا 5775 سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے وہ ان تمام عالموں میں موجود آدم سے بزرگ و برتر علم الاسماء کی وجہ سے ہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی اور عالم میں آدم ہیں ہی نہیں۔ یا دوسری بات یہ کہی جائے کہ دوسرے عالمین کے آدم علم الاسماء کے تحمل کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پہلی بات سے یہ دنیا بڑی خصوصی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے کہ اس جیسی مخلوق کہیں اور نہیں البتہ دیگر انوع کی مخلوق موجود ہے۔ جبکہ دوسری بات ماننے سے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کی چکی ہر چھ دن میں ایک نئی صورت میں سامنے آتی ہے جو پچھلی صورت سے بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ ساتویں روز یہ نابود ہوتی ہے۔ اسی دنیا میں آدموں کی تخلیق کی گئی۔ وہ دیکھنے میں عام آدمی کی طرح تھے۔ چلتے پھرتے کھاتے پیتے۔ پھر ان میں سے ایک کو چن کر ان میں علم الاسماء وحی کیا گیا۔ کیونکہ آدم ع کو آئے 5775 سال ہوگئے ہیں سو ہم اس کائنات کی آخری نابود کے قریب ہیں۔ جو کہ کامل نابود ہو گی کیونکہ دین کامل ہو چکا ہے۔ اب نئی تخلیق کی ضرورت نہیں۔

بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے۔ 7:54

یہ چھ روز 24 گھنٹوں کے نہیں ہیں۔

مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہُوا کرتا ہے۔ 22:47


آج کے سائنسدان مختلف ہیں لیکن بھلے ادوار سے پتہ چلتا ہے کہ خود نیوٹن مذہبی انسان تھا۔ اسکی ہزاروں صفحات کی بائبل کی تفسیر موجود ہے۔
 
خلائی مخلوق ہے یا نہیں؟ امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ سامنے آگئی
جون 04, 2021
E34BE493-CBC1-44E4-B421-2129092CDC73_cx0_cy15_cw0_w1080_h608_s.jpg

1972 میں امریکی ایئر فورس کی جاری کردہ تصویر جس میں اڑن طشتری جیسی چیز دکھائی دے رہی ہے (اے ایف پی)

امریکہ کے انٹیلی جنس عہدیداروں کو اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے کہ نیوی ایوی ایٹرز کی جانب سے حالیہ برسوں میں ایک غیر شناخت شدہ جو تصویر پیش کی گئی تھی، وہ کسی غیر انسانی مخلوق کے خلائی طیارے کی ہے۔ تاہم انٹیلی جنس رپورٹ میں اس تصویر کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس انٹیلی جنسرپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں غیر شناخت شدہ اجسام دیکھے جانے کے جو زیادہ تر واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ امریکی فوج یا امریکی حکومت کے کسی ادارے کی طرف سے تیار کی گئی کسی دوسری جدید ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔

A9900429-8A1D-4F7D-BA94-499C73C22910_w1080_h608_s.jpg

طیارے سے لی گئی اس تصویر میں پراسراز چیز اڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

نیو یارک ٹائمز کے مطابق کلاسیفائیڈ انٹیلی جنس سٹڈی میں امریکی محکمہ دفاع پنٹاگان کی ٹاسک فورس نے 120 سے زیادہ ایسی تصاویر اور مناظر کا جائزہ لیا جو امریکی بحریہ کے اہل کاروں نے اور کچھ غیر ملکی افواج نے رپورٹ کی تھیں۔

اخبار نے بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے حکام کا خیال ہے کہ مخالف طاقتوں کی جانب سے تجربات فضا میں نظر آنے والی ان بعض اشکال کا سبب ہو سکتے ہیں، جن کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے، جس کا نام نیویارک ٹائمز نے ظاہر نہیں کیا، اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس میں اس بارے میں خدشات تھے کہ ممکن ہے کہ چین یا روس ہائپر سانک ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہے ہوں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس رپورٹ کا ایک ان کلاسیفائیڈ ورژن 25 جون تک کانگریس کو پیش کیا جائے گا، جس میں مزید دیگر نتائج بھی بیان کیے جائیں گے۔

کیا اڑن طشتریوں کا وجود حقیقی ہے؟


ہوا میں اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف او) کے بارے میں عوام کی دلچسپی حالیہ ہفتوں میں بہت زیادہ رہی ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو ایسی غیر واضح چیزوں کی تفصیل سامنے آنے کی توقع تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ان چیزوں کو کئی عشروں سے خفیہ رکھنا چاہا ہے۔

لیکن ایک سینئر عہدیدار نے، جن کا ذکر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رپورٹ میں ابہام کا مطلب یہ ہے کہ حکومت فضا میں نظر آنے والی ان غیر واضح اشیا کے بارے میں وثوق سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکی، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت میں زمین سے ہٹ کر کسی اور سیارے یا دو سیاروں کے درمیان سفر میں رہنے والی کوئی مخلوق ہے۔

امریکی حکومت کی طرف سے فضا میں نظر آنے والی غیر واضح اشیا سے متعلق ٹاسک فورس(Unidentified Aerial Phenomenon Task Force) امریکی فوج کے پائلٹوں کی جانب سے ان متعدد مشاہدات کے بعد تشکیل دی گئی، جن میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے فضا میں کچھ ایسی چیزیں دیکھی ہیں، جو غیر معمولی رفتار اور اس انداز سے حرکت کرتی ہیں کہ بظاہر وہ کسی بھی معلوم ٹیکنالوجی یا فزکس کے قانون کی حدود سے آگے کی بات ہے۔

پینٹاگان کی ترجمان سو گف نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس ٹاسک فورس کی قیادت نیوی نے کی تھی اور اس کا مقصد فطرت اور نامعلوم فضائی اشکال کی اور نوعیت کے بارے میں سوجھ بوجھ حاصل کرنا اور اسے اپنی زمینی اور فضائی تربیتوں کا حصہ بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فضا میں اشکال سے متعلق جو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، وہ سیفٹی اور قومی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا سبب ہیں۔

اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا (یو ایف اوز) کے بارے میں طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی خلائی مخلوق کے زیراستعمال خلائی جہاز ہیں۔

اس کے بعد، پینٹاگان نے پہلی مرتبہ، اخبار نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں، ریکارڈ پر یہ اعتراف کیا کہ فضا میں نظر آنے والی نامعلوم اشیا کا سامنا اس کے جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو بھی ہوا ہے اور اس کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے یا ان کو نام دینے کے لیے مختلف طرز کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کئی دہائیوں تک اس موضوع کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔
اس خبر کا لنک بھی شیئر کیجیے!
 

سید رافع

محفلین
ویسے امریکی گورنمنٹ ہی اس معاملے میں جھوٹی نکلے گی۔ امید ہے یہ کڑی ٹیسلہ اور اسکی اینٹی گریوٹی تحقیق تک جائے گی۔ اس نے یو ایف او کی شکل پیٹنٹ کرائی تھی۔ مشہور آئنسٹائن کی تھیوری کی گئی ہے کہ دنیا محدود ترقی کر سکے۔


 

جاسم محمد

محفلین
پنٹاگون: اڑن طشتریوں کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں
ویب ڈیسک ہفتہ 26 جون 2021

2194726-pentagonuforeportx-1624693295-649-640x480.jpg

پنٹاگون نے ان ’’اُڑتی ہوئی نامعلوم چیزوں‘‘ کو امریکی سلامتی کےلیے خطرہ بھی قرار دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)


واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع ’’پنٹاگون‘‘ نے گزشتہ روز ایک خصوصی رپورٹ امریکی کانگریس میں پیش کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تصدیق شدہ معلومات کی روشنی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُڑن طشتریاں واقعی کوئی وجود رکھتی ہیں لیکن ’’اڑن طشتریوں کی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں۔‘‘

حیرت انگیز طور پر، اس رپورٹ کے صرف 9 صفحات ہی عوام اور میڈیا کےلیے جاری کیے گئے ہیں جبکہ باقی کی تمام رپورٹ ’’خفیہ‘‘ رکھی گئی ہے۔

بتاتے چلیں کہ امریکی میڈیا کو اس عجیب و غریب رپورٹ کی سُن گن چند ہفتوں پہلے ہی مل گئی تھی جبکہ ایکسپریس نیوز کی اسی ویب سائٹ پر اس بارے میں وقفے وقفے سے خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔

یہ خبریں بھی ضرور پڑھیے:

اس رپورٹ میں 2004 سے گزشتہ برس تک اُڑن طشتریاں دیکھے جانے کے 144 واقعات کا تذکرہ ہے جن میں سے بیشتر امریکی بحریہ کے اہلکاروں نے رپورٹ کیے ہیں۔

واضح رہے کہ ’’اڑن طشتریوں‘‘ (UFOs) کو نیا متبادل نام ’’غیر شناخت شدہ ہوائی مظاہر‘‘ (UAPs) دیا جاچکا ہے تاکہ انہیں سنجیدہ سائنسی تحقیق کا موضوع بنایا جاسکے۔

یہ رپورٹ امریکی بحریہ کی خصوصی ’’یو اے پی ٹاسک فورس‘‘ اور پنٹاگون کے ’’آفس آف دی ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس‘‘ نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے، جبکہ عوام اور میڈیا کےلیے اس رپورٹ کا جو حصہ جاری (unclassify) کیا گیا ہے اسے ’’ابتدائی تجزیئے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

اس ابتدائی تجزیئے کا خلاصہ یہ ہے کہ ناکافی معلومات کی وجہ سے یو اے پیز (UAPs) کی کوئی سائنسی اور معقول وضاحت ممکن نہیں۔ لہٰذا، فی الحال ان مشاہدات کو جدید زمینی ٹیکنالوجی (انسانی ایجاد)، کرہ فضائی میں رونما ہونے والے قدرتی مظاہر، یا پھر ’’غیر ارضی ماخذ‘‘ (خلائی مخلوق) میں سے کسی ایک سے بھی وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔

آسان الفاظ میں: اُڑن طشتریوں کا وجود حتمی طور پر ثابت شدہ تو نہیں لیکن ان کے ’’سچ‘‘ ہونے سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا!

رپورٹ کے اسی حصے میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ یو اے پیز (UAPs) نہ صرف پروازوں کی حفاظت کےلیے مسئلہ ہیں بلکہ ’’امریکا کی قومی سلامتی کےلیے چیلنج‘‘ بھی ہیں کیونکہ شاید ’’ان کی کوئی ایک توجیح ممکن نہ ہو۔‘‘

ویسے تو ہوا میں اُڑتی ہوئی ’’نامعلوم‘‘ چیزیں دیکھے جانے کے مبینہ واقعات ہزاروں سال قدیم ہیں لیکن بیسویں صدی میں ان کا سلسلہ 1940 کے عشرے میں شروع ہوا جب دوسری عالمی جنگ جاری تھی۔

تب سے لے کر آج تک ’’اُڑن طشتریاں‘‘ دیکھنے کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن کی بڑی تعداد امریکا سے تعلق رکھتی ہے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق، آج بھی اندازاً گیارہ کروڑ امریکی لوگ خلائی مخلوق کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں اور اُڑن طشتریوں سے متعلق سامنے آنے والے واقعات کو درست سمجھتے ہیں۔
حوالہ: نیویارک ٹائمز
U.S. Has No Explanation for Unidentified Objects and Stops Short of Ruling Out Aliens
 
Top