طارق شاہ
محفلین
غزلِ
ناصر کاظمی
خموشی اُنگلیاں چٹکا رہی ہے
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے، لیکن
ہَوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
تِرے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دَوراں
دِلوں کی آگ بُجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
طنابِ خیمۂ گُل تھام، ناصر
کوئی آندھی اُفق سے آ رہی ہے
ناصر کاظمی
ناصر کاظمی
خموشی اُنگلیاں چٹکا رہی ہے
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے، لیکن
ہَوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
تِرے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دَوراں
دِلوں کی آگ بُجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
طنابِ خیمۂ گُل تھام، ناصر
کوئی آندھی اُفق سے آ رہی ہے
ناصر کاظمی