کاشفی
محفلین
غزل
(اصغر حسین خاں نظیر)
خندہ بہ لب، شگفتہ رُو، ناز سے آرہے ہو تم
میری نگاہِ شوق پر حُسن لُٹا رہے ہو تم
زلفِ دراز کھول کر خود کو چھُپارہے ہو تم
کیفیت و سرور کا پردہ بنا رہے ہو تم
ہیر کے شعر دمبدم سوز سے گارہے ہو تم
کس کے کمالِ عشق کا حال سنا رہے ہو تم
طرّہء زلفِ عنبریں کھول کے میرے روبرو
نکہت و نورو رنگ میں مجھ کو بسا رہے ہو تم
خندہء دل نواز سے نغمہء جاں گداز سے
آنکھوں میں بس رہے ہو تم دل میں سما رہے ہو تم
وادیء طور کے عوض کس کا مکاں جلاؤ گے؟
چنگ کے تار تار سے شعلے اٹھارہے ہو تم
ہاتھ میں لے کے میرا ہاتھ کرتے ہو مسکرا کے بات
دونوں جہاں سے چھین کر اپنا بنا رہے ہو تم
ابرِ کرم سے مست ہوں بادہ کشِ الست ہوں
نظریں اُٹھا کے پَے بہ پَے اور پِلا رہے ہو تم
کیف ہے یا سرور ہے خواب ہے یا خیال ہے
رُوٹھ کے سو رہا ہوں میں مجھ کو منا رہے ہو تم
جنبشِ شاخِ گُل نہیں، لرزش موجِ مُل نہیں
سیرِ چمن کے واسطے مجھ کو بلا رہے ہو تم
ہیر کے حُسن و عشق کا چھیڑ کے ذکر اے نظیر
عالمِ بودو ہست کو وجد میں لارہے ہو تم
(اصغر حسین خاں نظیر)
خندہ بہ لب، شگفتہ رُو، ناز سے آرہے ہو تم
میری نگاہِ شوق پر حُسن لُٹا رہے ہو تم
زلفِ دراز کھول کر خود کو چھُپارہے ہو تم
کیفیت و سرور کا پردہ بنا رہے ہو تم
ہیر کے شعر دمبدم سوز سے گارہے ہو تم
کس کے کمالِ عشق کا حال سنا رہے ہو تم
طرّہء زلفِ عنبریں کھول کے میرے روبرو
نکہت و نورو رنگ میں مجھ کو بسا رہے ہو تم
خندہء دل نواز سے نغمہء جاں گداز سے
آنکھوں میں بس رہے ہو تم دل میں سما رہے ہو تم
وادیء طور کے عوض کس کا مکاں جلاؤ گے؟
چنگ کے تار تار سے شعلے اٹھارہے ہو تم
ہاتھ میں لے کے میرا ہاتھ کرتے ہو مسکرا کے بات
دونوں جہاں سے چھین کر اپنا بنا رہے ہو تم
ابرِ کرم سے مست ہوں بادہ کشِ الست ہوں
نظریں اُٹھا کے پَے بہ پَے اور پِلا رہے ہو تم
کیف ہے یا سرور ہے خواب ہے یا خیال ہے
رُوٹھ کے سو رہا ہوں میں مجھ کو منا رہے ہو تم
جنبشِ شاخِ گُل نہیں، لرزش موجِ مُل نہیں
سیرِ چمن کے واسطے مجھ کو بلا رہے ہو تم
ہیر کے حُسن و عشق کا چھیڑ کے ذکر اے نظیر
عالمِ بودو ہست کو وجد میں لارہے ہو تم