فرخ منظور
لائبریرین
دل سے ملتا ہے سلسلہ دل کا
کون سمجھے معاملہ دل کا
لفظ اشکوں سے جگمگاتے ہیں
نعت ہوتی ہے آئنہ دل کا
تیرگی چھٹ گئی زمانے سے
کس نے روشن کیا دیا دل کا
اہلِ دنیا حرم سے لوٹ آئے
اس سے آگے تھا مرحلہ دل کا
سبز گنبد کے سائے میں اک دن
جا کے ٹھہرے گا قافلہ دل کا
ہو نہ سوزِ دروُں تو پھر آصفؔ
کیسے ظاہر ہو مدعا دل کا
کون سمجھے معاملہ دل کا
لفظ اشکوں سے جگمگاتے ہیں
نعت ہوتی ہے آئنہ دل کا
تیرگی چھٹ گئی زمانے سے
کس نے روشن کیا دیا دل کا
اہلِ دنیا حرم سے لوٹ آئے
اس سے آگے تھا مرحلہ دل کا
سبز گنبد کے سائے میں اک دن
جا کے ٹھہرے گا قافلہ دل کا
ہو نہ سوزِ دروُں تو پھر آصفؔ
کیسے ظاہر ہو مدعا دل کا