فلک شیر
محفلین
خواب سب دیکھتے ہیں، تعبیر بھی پاتے ہیں حسبِ قدر
دشمن ہونا لازم ہے، یوں ہی دوست بھی
حریف سبھی بناتے ہیں اور حلیف بھی
خزاں ہر زمین پہ اترتی ہے اور اس کے استقبال کو بہار ہر دفعہ موجود ہوتی ہے
خریدار ہر جنس کو میسر آتا ہے، خواہ زنگ اور مٹی ہی سہی
کینوس پہ پہاڑ کو دوسرے پہاڑ سے وادی الگ کرتی ہے
گھاٹی کے ساتھ ہی ڈھلوان بچھی ہوتی ہے
ایک اور صفر کا ساتھ ہمیشہ سے ہے
اور مثل بھی تو ہے
چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں
سو اپنی اضداد کا انکار اور انہیں اپنا عین کہنے پہ اصرار
یہ شتر مرغ کو روا ہے، یا احمقوں کو جائز
سو اے میرے گھونسلے کے ساتھیو!
تم سنہری شاموں میں
الگ الگ راگوں کے گیت ضرور گانا
اور شبنمی صبحوں میں
اپنی اپنی منفرد خوشبو ضرور ملانا
مگر اس دام ہمرنگِ زمیں سے ہوشیار رہنا
اپنی اصل مت بھلانا
اور
اندھیروں کے مقابل روشنی کے عرف پہ مصر رہنا
اس خواب کو ایک قدیم بودا قول بکتے
بے دیار کے چند آوارہ گرد
فصیل فصیل گھومتے مردار خوروں کی خاطر
تج نہ دینا
میں اس آدرش میں تمہارا ساجھی ہوں
جسے سودائیوں، پیادوں اور سواروں کی ایک پوری
نسل نے اپنایا تھا
میں تمہارا ہم خواب ہوں
اور اس کی اسی پرانی تعبیر کو
اس قدیم آسمان کے نیچے
نئے یقین کے ساتھ
اوراق، اصحاب اور الواح کے زیتونی نور کی رہنمائی میں
میرے ہم نفسو!
پھر سے فاران و آسیا پہ ایک شفیق بادل کی طرح
برستے دیکھنے کا آرزو مند ہوں
فلک شیر چیمہ
دشمن ہونا لازم ہے، یوں ہی دوست بھی
حریف سبھی بناتے ہیں اور حلیف بھی
خزاں ہر زمین پہ اترتی ہے اور اس کے استقبال کو بہار ہر دفعہ موجود ہوتی ہے
خریدار ہر جنس کو میسر آتا ہے، خواہ زنگ اور مٹی ہی سہی
کینوس پہ پہاڑ کو دوسرے پہاڑ سے وادی الگ کرتی ہے
گھاٹی کے ساتھ ہی ڈھلوان بچھی ہوتی ہے
ایک اور صفر کا ساتھ ہمیشہ سے ہے
اور مثل بھی تو ہے
چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں
سو اپنی اضداد کا انکار اور انہیں اپنا عین کہنے پہ اصرار
یہ شتر مرغ کو روا ہے، یا احمقوں کو جائز
سو اے میرے گھونسلے کے ساتھیو!
تم سنہری شاموں میں
الگ الگ راگوں کے گیت ضرور گانا
اور شبنمی صبحوں میں
اپنی اپنی منفرد خوشبو ضرور ملانا
مگر اس دام ہمرنگِ زمیں سے ہوشیار رہنا
اپنی اصل مت بھلانا
اور
اندھیروں کے مقابل روشنی کے عرف پہ مصر رہنا
اس خواب کو ایک قدیم بودا قول بکتے
بے دیار کے چند آوارہ گرد
فصیل فصیل گھومتے مردار خوروں کی خاطر
تج نہ دینا
میں اس آدرش میں تمہارا ساجھی ہوں
جسے سودائیوں، پیادوں اور سواروں کی ایک پوری
نسل نے اپنایا تھا
میں تمہارا ہم خواب ہوں
اور اس کی اسی پرانی تعبیر کو
اس قدیم آسمان کے نیچے
نئے یقین کے ساتھ
اوراق، اصحاب اور الواح کے زیتونی نور کی رہنمائی میں
میرے ہم نفسو!
پھر سے فاران و آسیا پہ ایک شفیق بادل کی طرح
برستے دیکھنے کا آرزو مند ہوں
فلک شیر چیمہ