تجمل نقوی
محفلین
تحریر-بقلم خود
خواب
کتابوں میں گم کسی محبت میں گرفتار ہونے سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مصروف رہنے والی دوشیزہ۔ جسے محظ امورِ خانہ داری کے اور کتابوں کے کچھ نہیں آتا۔ وہ فقط محبت کے قصے پڑھتی ہے اور ہنستی ہے کہ یہ کیسی کیفیت ہوتی ہے وہ نہیں جانتی محبت کیا ہے۔ اس کے لئے تو محظ قصہ کہانی ہے۔
اسے کیا معلوم کہ یہ احساس اس کے اندر ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ مگر الفاظ کی صورت بیان کرنے سے قاصر ہے۔
وہ محبت کو سوچتی ہے اور اپنے خواب بُنتی ہے۔ کسی محرم کا خیالی چہرہ تعمیر کرتی ہے اور اس سے باتیں کرتی ہے۔
وہ سوچتی ہے کہ کسی روز یہ خواب چہرہ تعبیر ہوگا۔
پھر اک روز اسے وہ چہرہ دکھائی دیتا ہے اور وہ محبت کا شکار ہو جاتی ہے۔ وقت کی بے رحمی اور ظلم یہ کہ وہ انسان اس سے گفتگو کرتا ہے اور محبت کی شکار ہوئی لڑکی کے اندر اترتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ اسے محبت کی ستم ظریفی اور انجام بھی بتاتا ہے کہ محبت محظ لفظ نہیں اک کیفیت ہے مگر بضد لڑکی اسے کہتی ہے اس کیفیت میں تو وہ کب سے ہے اس اندھیر نگری میں تو دیئے تم نے جلائے ہیں۔
اکیلے پن کو رونق تم نے بخشی ہے۔ میرے خوابوں کی وہ دھندلی تصویر جس سے میں باتیں کرتی تھی وہ تم ہو۔
تم بولتے چلے جاتے ہو تو میں تمہارے الفاظ اپنے اندر محفوظ کرتی جاتی ہوں۔
تم سے گفتگو کرنا مجھے اکیلا نہیں ہونے دیتا۔ تمہاری آواز میرے کانوں اور روح کو سکون بخشتی ہے۔
تمہاری تصویر مجھ سے باتیں کرتی ہے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔
دیکھو تمہاری محبت مجھے خدا کے قریب کر رہی ہے اور میں نے خدا سے تمہیں مانگا ہے اور وہ اپنے بندوں کی مرادیں ضرور پوری کرتا ہے۔
تمہارا محبت سے انکار میں تسلیم ہے نہی کرتی۔
تمہیں حاصل کرنے کا سوال دنیا سے نہیں خدا سے کیا ہے۔
میری زندگی میں جس شخص کا نام میرے محرم کی صورت ہوگا وہ تم ہو۔ تمہیں میں محرم تسلیم کر چکی ہوں ۔ میں تمہاری محبت کی گرفت سے آزادی نہیں چاہتی۔ تم ملے تو محبت کی تکمیل ہوگی نہ ملے تو سانسوں کی۔
اور میری خواہش ہے کہ میں تمہاری محرم بن کر اس خدا کے گھر جاؤں جس نے تمہیں میری قسمت میں لکھا اور عطا کیا۔ اور ایسا ہی ہوگا۔
اس پاگل کو کون سمجھائے کی وقت بدل جائے تو خواہشیں امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔
لڑکا اسے سمجھاتا ہے کہ میں وہ انسان نہیں جس کی تمہیں تلاش ہے میں برا انسان ہوں کبھی محبت نہیں کر سکوں گا۔ میرا رویہ تمہیں تکلیف دے گا اور تم اکتا جاؤگی۔
چلو فرض کرو تمہیں حاصل ہو جاتا ہوں تو تمہاری خواہش مکمل ہوگی مگر محبت لا حاصل ہے وہ نہیں ملے گی سمجھو اس بات کو۔
جواب آتا ہے تم حاصل ہوئے تو محبت آخری سانس تک رہے گی۔
اور تمہاری اچھائی اور برائی دونوں کو قبول کیا ہے۔ تم برے ہو ہی نہیں سکتے کیوں کہ تمہاری محبت مجھے خدا کے قریب کر رہی ہے۔
ویکھ یارا میریاں گلاں
رب دے نال وی تیریاں گلاں
جب تم بات نہیں کرتے تو خدا سے تمہاری بات کرتی ہوں اور وہ مجھے تمہارے مل جانے کا یقین دلاتا ہے۔ میری پہلی اور آخری محبت تم ہو۔
دیکھو میں پھر کہتا ہوں تمہیں اس محبت سے دور رہو مار دے گی تمہیں۔
محبت کی دو صورتیں ہیں اک یہ کہ یا تو محبوب کے اندر اترا جائے یا اسے اپنے اندر اتار لیا جائے۔ دونوں صورتوں تم ہی اذیت اٹھاؤ گی۔ میرے اندر اترو گی تو گم ہو جاؤ گی مجھے اپنے اندر اتارو گی تو ختم ہو جاؤ گی۔ تم مجھے نہیں سمجھ پاؤ گی۔ میں اک کھوکھلا انسان ہوں اپنے اندر ہی اندر الجھا ہوا مجھے سلجھانے کی کوشش میں خود الجھ جاؤ گی۔
مگر وہ پگلی ضدی لڑکی خود کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اسے لگتا ہے یہ درد اسے آرام دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ مجھے سمجھ چکی ہے۔
سوچتا ہوں کتابوں میں گم لڑکی کہاں ہے۔
سوچتا ہوں محبت کسی پر ترس کیوں نہیں کرتی
محبت سے کنارے کا کوئی حل کیوں نہیں۔
وہ اکثر کہتی ہے مجھے الفاظ کا استعمال نہیں آتا جب ملو گے تو بیان کروں گی۔
وہ کہتی ہے تم لکھتے ہو مجھے تحریر کرو۔
وہ کہتا ہے میں لکھتا نہیں بس اپنے احساس محفوظ کرتا ہوں۔
وہ کہتی ہے تمہارے بن ادھوری ہوں
وہ کہتا ہے محبت نام ہی ادھورے پن کا ہے
وہ کہتی ہے تمہیں خدا سے مانگا ہے
وہ کہتا ہے بھلا یہ بھی کوئی سوال ہوا
وہ کہتی ہے تمہیں کھونے کا سوچنا گناہ سمجھتی ہوں
وہ کہتا ہے کھو جا زندگی کا حصہ ہے
وہ کہتی ہے اگر تم مل جاؤ تو لپٹ کر ایسے رونا ہے جیسے قطار سے بچھڑی کونج روتی ہے
وہ کہتا ہے ارے پگلی آنسو سمبھال کر رکھو کہ میرے بعد یہی تمہارے ساتھی ہیں۔
وہ کہتی ہے مجھے یہ اجازت دو کہ تم کو میں سمجھ پاؤں
وہ کہتا ہے اجازت ہے مگر اک شرط یہ بھی ہے کہ محبت سے دور رہنا تم
وہ کہتی ہے محبت ہو چکی کب کی
وہ کہتا ہے تو پھر انجام کے لیے تیار ہو جاؤ
وہ کہتی ہے کبھی انجام سوچا نہیں میں نے
وہ کہتا ہے دیکھو مجھ سے پہلے تم کتنی خوش باش رہتی تھی
وہ کہتی ہے تمہارا درد مجھے پھول لگتا ہے
وہ کہتا ہے محبت خواب ہے اور آنکھ کھلنے پر ٹوٹ جائے گا
وہ کہتی ہے اسی اک خواب کی تو تعبیر ہو تم
وہ کہتا ہے محبت مار ڈالے گی
وہ کہتی ہے کل نفس ذائقتہ الموت
ان سب سوالوں جوابوں کے بعد محبت کا اگلا موڑ آتا ہے جب زمانے اور وقت کی ستم ظریفیاں شروع ہوتی ہیں اور وہ پاگل لڑکی محبت کا خواب اپنی آنکھوں میں لئے اندر ہی اندر مر جاتی ہے
وہ لڑکا اپنی خاموشی لئے اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیتا کہ محبت کا خواب تو وہ بھی دیکھ چکا ہے اس پاگل کا احساس تو وہ بھی اپنا چکا ہے۔ مگر سخت لہجہ رکھے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ اس کو بھی محبت سے باز رکھ رہا ہے کہ دونوں زندہ رہیں اور یہ خواب ٹوٹنے نہ پائے۔
خواب
کتابوں میں گم کسی محبت میں گرفتار ہونے سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مصروف رہنے والی دوشیزہ۔ جسے محظ امورِ خانہ داری کے اور کتابوں کے کچھ نہیں آتا۔ وہ فقط محبت کے قصے پڑھتی ہے اور ہنستی ہے کہ یہ کیسی کیفیت ہوتی ہے وہ نہیں جانتی محبت کیا ہے۔ اس کے لئے تو محظ قصہ کہانی ہے۔
اسے کیا معلوم کہ یہ احساس اس کے اندر ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ مگر الفاظ کی صورت بیان کرنے سے قاصر ہے۔
وہ محبت کو سوچتی ہے اور اپنے خواب بُنتی ہے۔ کسی محرم کا خیالی چہرہ تعمیر کرتی ہے اور اس سے باتیں کرتی ہے۔
وہ سوچتی ہے کہ کسی روز یہ خواب چہرہ تعبیر ہوگا۔
پھر اک روز اسے وہ چہرہ دکھائی دیتا ہے اور وہ محبت کا شکار ہو جاتی ہے۔ وقت کی بے رحمی اور ظلم یہ کہ وہ انسان اس سے گفتگو کرتا ہے اور محبت کی شکار ہوئی لڑکی کے اندر اترتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ اسے محبت کی ستم ظریفی اور انجام بھی بتاتا ہے کہ محبت محظ لفظ نہیں اک کیفیت ہے مگر بضد لڑکی اسے کہتی ہے اس کیفیت میں تو وہ کب سے ہے اس اندھیر نگری میں تو دیئے تم نے جلائے ہیں۔
اکیلے پن کو رونق تم نے بخشی ہے۔ میرے خوابوں کی وہ دھندلی تصویر جس سے میں باتیں کرتی تھی وہ تم ہو۔
تم بولتے چلے جاتے ہو تو میں تمہارے الفاظ اپنے اندر محفوظ کرتی جاتی ہوں۔
تم سے گفتگو کرنا مجھے اکیلا نہیں ہونے دیتا۔ تمہاری آواز میرے کانوں اور روح کو سکون بخشتی ہے۔
تمہاری تصویر مجھ سے باتیں کرتی ہے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔
دیکھو تمہاری محبت مجھے خدا کے قریب کر رہی ہے اور میں نے خدا سے تمہیں مانگا ہے اور وہ اپنے بندوں کی مرادیں ضرور پوری کرتا ہے۔
تمہارا محبت سے انکار میں تسلیم ہے نہی کرتی۔
تمہیں حاصل کرنے کا سوال دنیا سے نہیں خدا سے کیا ہے۔
میری زندگی میں جس شخص کا نام میرے محرم کی صورت ہوگا وہ تم ہو۔ تمہیں میں محرم تسلیم کر چکی ہوں ۔ میں تمہاری محبت کی گرفت سے آزادی نہیں چاہتی۔ تم ملے تو محبت کی تکمیل ہوگی نہ ملے تو سانسوں کی۔
اور میری خواہش ہے کہ میں تمہاری محرم بن کر اس خدا کے گھر جاؤں جس نے تمہیں میری قسمت میں لکھا اور عطا کیا۔ اور ایسا ہی ہوگا۔
اس پاگل کو کون سمجھائے کی وقت بدل جائے تو خواہشیں امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔
لڑکا اسے سمجھاتا ہے کہ میں وہ انسان نہیں جس کی تمہیں تلاش ہے میں برا انسان ہوں کبھی محبت نہیں کر سکوں گا۔ میرا رویہ تمہیں تکلیف دے گا اور تم اکتا جاؤگی۔
چلو فرض کرو تمہیں حاصل ہو جاتا ہوں تو تمہاری خواہش مکمل ہوگی مگر محبت لا حاصل ہے وہ نہیں ملے گی سمجھو اس بات کو۔
جواب آتا ہے تم حاصل ہوئے تو محبت آخری سانس تک رہے گی۔
اور تمہاری اچھائی اور برائی دونوں کو قبول کیا ہے۔ تم برے ہو ہی نہیں سکتے کیوں کہ تمہاری محبت مجھے خدا کے قریب کر رہی ہے۔
ویکھ یارا میریاں گلاں
رب دے نال وی تیریاں گلاں
جب تم بات نہیں کرتے تو خدا سے تمہاری بات کرتی ہوں اور وہ مجھے تمہارے مل جانے کا یقین دلاتا ہے۔ میری پہلی اور آخری محبت تم ہو۔
دیکھو میں پھر کہتا ہوں تمہیں اس محبت سے دور رہو مار دے گی تمہیں۔
محبت کی دو صورتیں ہیں اک یہ کہ یا تو محبوب کے اندر اترا جائے یا اسے اپنے اندر اتار لیا جائے۔ دونوں صورتوں تم ہی اذیت اٹھاؤ گی۔ میرے اندر اترو گی تو گم ہو جاؤ گی مجھے اپنے اندر اتارو گی تو ختم ہو جاؤ گی۔ تم مجھے نہیں سمجھ پاؤ گی۔ میں اک کھوکھلا انسان ہوں اپنے اندر ہی اندر الجھا ہوا مجھے سلجھانے کی کوشش میں خود الجھ جاؤ گی۔
مگر وہ پگلی ضدی لڑکی خود کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اسے لگتا ہے یہ درد اسے آرام دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ مجھے سمجھ چکی ہے۔
سوچتا ہوں کتابوں میں گم لڑکی کہاں ہے۔
سوچتا ہوں محبت کسی پر ترس کیوں نہیں کرتی
محبت سے کنارے کا کوئی حل کیوں نہیں۔
وہ اکثر کہتی ہے مجھے الفاظ کا استعمال نہیں آتا جب ملو گے تو بیان کروں گی۔
وہ کہتی ہے تم لکھتے ہو مجھے تحریر کرو۔
وہ کہتا ہے میں لکھتا نہیں بس اپنے احساس محفوظ کرتا ہوں۔
وہ کہتی ہے تمہارے بن ادھوری ہوں
وہ کہتا ہے محبت نام ہی ادھورے پن کا ہے
وہ کہتی ہے تمہیں خدا سے مانگا ہے
وہ کہتا ہے بھلا یہ بھی کوئی سوال ہوا
وہ کہتی ہے تمہیں کھونے کا سوچنا گناہ سمجھتی ہوں
وہ کہتا ہے کھو جا زندگی کا حصہ ہے
وہ کہتی ہے اگر تم مل جاؤ تو لپٹ کر ایسے رونا ہے جیسے قطار سے بچھڑی کونج روتی ہے
وہ کہتا ہے ارے پگلی آنسو سمبھال کر رکھو کہ میرے بعد یہی تمہارے ساتھی ہیں۔
وہ کہتی ہے مجھے یہ اجازت دو کہ تم کو میں سمجھ پاؤں
وہ کہتا ہے اجازت ہے مگر اک شرط یہ بھی ہے کہ محبت سے دور رہنا تم
وہ کہتی ہے محبت ہو چکی کب کی
وہ کہتا ہے تو پھر انجام کے لیے تیار ہو جاؤ
وہ کہتی ہے کبھی انجام سوچا نہیں میں نے
وہ کہتا ہے دیکھو مجھ سے پہلے تم کتنی خوش باش رہتی تھی
وہ کہتی ہے تمہارا درد مجھے پھول لگتا ہے
وہ کہتا ہے محبت خواب ہے اور آنکھ کھلنے پر ٹوٹ جائے گا
وہ کہتی ہے اسی اک خواب کی تو تعبیر ہو تم
وہ کہتا ہے محبت مار ڈالے گی
وہ کہتی ہے کل نفس ذائقتہ الموت
ان سب سوالوں جوابوں کے بعد محبت کا اگلا موڑ آتا ہے جب زمانے اور وقت کی ستم ظریفیاں شروع ہوتی ہیں اور وہ پاگل لڑکی محبت کا خواب اپنی آنکھوں میں لئے اندر ہی اندر مر جاتی ہے
وہ لڑکا اپنی خاموشی لئے اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیتا کہ محبت کا خواب تو وہ بھی دیکھ چکا ہے اس پاگل کا احساس تو وہ بھی اپنا چکا ہے۔ مگر سخت لہجہ رکھے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ اس کو بھی محبت سے باز رکھ رہا ہے کہ دونوں زندہ رہیں اور یہ خواب ٹوٹنے نہ پائے۔