انیس فاروقی
محفلین
کینیڈا کی ایک تنظیم کینیڈین مسلم کانگریس نے حکومت کینیڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمان خواتین کے کینیڈا میں برقعہ پہننے پر پابندی عائد کی جائے۔ ملاحظہ کیجئے انکی گفتگو۔
جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں تو یہ صاحب سر ڈھانپنے والے حجاب کے خلاف نہیں بلکہ منہ پر لیے جانے والے اُس نقاب کے مخالف ہیں جس سے پورا چہرہ یوں چھپ جاتا ہے کہ جس سے پہچان ہونی مشکل ہو جاتی ہے کہ کون کون ہے۔
چہرے پر نقاب کا مسئلہ خود اسلامی فقہاء میں اختلافی ہے۔
کنیز باندیوں کے لیے حجاب کا حکم نہیں تھا
اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کرنا چاہوں گی کہ ملا حضرات اسلام کے کچھ نازک گوشے ہم عوام سے چھپائے ہوئے ہیں۔ جیسی سوسائٹی آج خواتین کے لیے طالبان علاقوں میں نظر آتی ہے، ایسی سوسائٹی یقینا قرون اولی میں نہیں پائی جاتی تھی۔
کیا آپ کو علم ہے کہ:
1۔ اسلام میں کنیز باندیوں کے لیے چہرے کا نقاب تو ایک طرف رہا، سر کے حجاب کا بھی حکم نہ تھا۔
آج ایران اور سعودیہ میں اسلامی حکومت کے نام پر اپنے ملک کی غیر مسلم شہریوں اور مغربی ممالک سے آنے والی غیر مسلم خواتین پر بھی فحاشی کے نام پر لازمی کر دیا جاتا ہے کہ وہ زبردستی سر پر حجاب لیں (اور سعودیہ میں شاید اس سے بھی زیادہ سختی ہے کہ منہ پر بھی نقاب ڈالیں اور طالبان جیسی سوسائٹیوں کا حال اس سے بھی سخت ہے)۔
تو آپ لوگوں کا علم نہیں، مگر اللہ تعالی نے جو عقل مہیا کی ہے وہ مجھے یہ بات ماننے نہیں دیتی کہ جب کنیز عورتوں کے لیے اسلام میں سر ڈھانپنا لازمی نہ تھا تو پھر غیر مسلم خواتین کو بھی اسلام مجبور نہیں کرتا ہو گا کہ فحاشی کے نام پر اُن کو زبردستی پردہ کروایا جائے۔
جہاں تک میرےعلم میں ہے غلام کنیزوں یا لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی شرط بھی نہیں تھی۔ لیکن ان سے ہونے والے بچوں کی نگہداشت بلکل اپنے بچوں جیسے کرنا ضروری تھا۔ اور باقی خرچ وغیرہ پورا کرنا بھی۔ اسی طرح عورتوں کا اپنے غلاموں سے پڑدہ بھی ضروری نہیں تھا۔
سر کے حجاب کے متعلق تو نہیں لیکن چہرے کے ناقب کے متعلق اختلافات ہیں۔ کئی اسے ضروری اور کئی غیر ضروری کہتے ہیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے داڑھی کا مسلئہ ہے۔ اور مہوش علی آپ اسلامی امور کو اس قدر سنسنی خیز بنا کر ظاہر نہ کریں۔ یہ جیسے ہیں ویسے سب کے سامنے ہیں۔ اور پوری مسلم امّہ اور پوری نسل انسانی کے لئیے مشعل راہ ہیں۔
صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]
صحیح مسلم [آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
Malik said, "The best of what is heard about a slave-girl whom a man has intercourse with while he has a partner in her is that the hadd is not inflicted on him and the child is connected to him. When the slave-girl becomes pregnant, her value is estimated and he gives his partners their shares of the price and the slave-girl is his. That is what is done among us."
Malik said about a man who made his slave-girl halal to (another) man that if the one for whom she was made halal had intercourse with her, her value was estimated on the day he had intercourse with her and he owed that to her owner whether or not she conceived. The hadd was averted from him by that. If she conceived the child was connected to him.
Malik said about a man who had intercourse with his son's or daughter's slave-girl, "The hadd is averted from him and he owes the estimated value of the slave-girl whether or not she conceives."
Muwatta Imam Malik, Book 41, Number 41.6.19a
بات اتنی کہنا چاہتا ہوں کہ لونڈی اور غلام اسلام سے سینکڑوں سال قبل بھی معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ یہ نہیں کہ یہ اسلام کی ایجاد ہے۔ اسلام نے ایسے قوانین اور حقوق و فرائض مقرّر کئے جن سے بتدریج یہ نظام ختم ہوتا چلا گیا۔ اسکو دفعتہّ ختم کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ عملی طور پر معاشرے اسکا متحمّل نہیں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ کنیزوں اور لونڈی غلاموں کو اسلام نے پہلی مرتبہ ریلیف دئے اور انکو آزاد کرنے کی فضیلتیں بتائیں تاکہ آہستہ آہستہ یہ پریکٹس ختم ہوجائے۔ ۔ امریکہ کے صدر لنکن نے جب اس سسٹم کے خاتمے کا اعلان کیا تو کئی غلام اسقدر عادی ہو چکے تھے اس سسٹم کے کہ انہوں نے آزادی کو مسترد کردیا۔ ۔ ۔آپ یندازہ لگا لین کہ یہ سب اگر 1400 سال پہلے کیا جاتا تو اس وقت کے معاشرے میں اسکا کیا امپیکٹ ہوتا۔شہزاد،
کبھی کسی چیز کا علم نہ ہونا بھی خوش قسمتی کا باعث ہوتا ہے۔ یہ بات ہم شروع تو کر رہے ہیں، اور علم حاصل کرنا یقینا اچھی بات بھی ہے، مگر جب یہ باتیں کھلیں گی تو کہیں نہ کہیں آپ کے دل میں بھی یہ خواہش اٹھے گی کہ کاش یہ باتیں ہم نے شروع ہی نہ کی ہوتیں۔
کتنی فیصد امت کو آج اسلام کے ان پہلوؤں کا علم ہے؟
آپ نے فرمایا کہ میں سنسنی پھیلا رہی ہوں۔ چلیں پھر آپ خود بتلائیے کہ آج کے دن کتنے فیصد لوگوں کو ان باتوں کا علم ہے کہ:
1۔ اسلام میں مالک کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ کنیز باندی کو خرید کر اسکے ساتھ سو سکے۔
2۔ اور نہ صرف کہ خود سو سکتا تھا، بلکہ اس کے بعد اُسے وہ آگے دوسرے آقا و مالک کو فروخت کر سکتا تھا جو ایک دفعہ استبرائے رحم ہونے کے بعد پھر اُس کنیز سے ہمبستری کر سکتا تھا۔ ۔۔۔۔ اور پھر آگے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
دیکھئیے ذیل کی روایت:
اور نہ صرف آقا خود، بلکہ اُسکا باپ یا بیٹا یا بھائی بھی اس کنیز سے ہمبستری کر سکتے تھے اور اس سلسلے میں جو احکام فقہ کی کتب میں درج ہیں انہیں پہلی بار پڑھ کو یقینا جھرجھری پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یہ جھرجھری نہ پیدا ہوئی تو مجھے حیرت ہو گی۔ صرف ایک ہلکی سی روایت یہاں پیش خدمت ہے:
[/left]
اور کتنے لوگوں کو علم ہے کہ کنیز باندی کا نکاح جو دوسرے شخص سے کروایا جاتا تھا وہ بھی وقتی و عارضی ہوا کرتا تھا اور مالک ضرورت پڑنے پر اپنی کنیز باندی کو اُس کے شوہر کی زوجیت سے نکال کر آگے فروخت کر سکتا تھا، یا پھر ایک دفعہ استبرائے رحم کروانے کے بعد کسی تیسرے شخص سے اسکا نکاح کر سکتا تھا، اور پھر اسکے بعد چوتھے شخص کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
[اگر کسی کو استبرائے رحم کی اصطلاح کا علم نہیں اور یہ کتنا عرصہ بنتا ہے تو آپ مجھے پی ایم کریں اور شاید آپ کو جواب مل ہی جائے]
یہ ایک لیگل prostitution کی ایسی شکل بن گئی جس کی وجہ سے اللہ کو قرآن میں آیت نازل فرمانی پڑی:
[فتح محمد جالندھری 24:33]۔۔۔ اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بےشرمی سے) دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔۔۔۔
اور روایات میں سے صرف ایک روایت۔
جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی ہیں۔(القرآن 24:33)
اس انصاری پر زنا کروانے پر حد جاری نہیں کی گئی۔ کیوں؟
اگر آپ اس مسئلے کو طول دینا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کیوں کا جواب لانا پڑے گا۔
***************
آج تک ہمارے پاس اسلام کی جو تصویر تھی وہ فقط دائمی تعلق والی نکاح عورت کی تھی۔ اور پھر یہ پتا تھا کہ طلاق دینا انتہائی مکروہ اور ناپسندیدہ فعل ہے اور پاکستانی معاشرے میں تقریبا ناممکن چیز ہے۔
اس کے بعد جب پہلی پہلی مرتبہ "نکاح متعہ" میں عورت کے ساتھ عارضی وقتی تعلقات کا علم ہوا تو پھر جھرجھری تو آئی [اور اگر آپ کو یہ جھرجھری نہ آئی تو مجھے تعجب ہو گا]
اسکے بعد جب پہلی پہلی مرتبہ "کنیز عورت" کے ساتھ یوں عارضی وقتی تعلقات قائم کر کے آگے مزید اور بہت سی باتوں کا علم ہوا تو پھر یہ جھرجھری تو آئی [اور اگر آپ کو نہ آئی تو پھر بھی تعجب ہے]
اور یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں سنسنی پھیلا رہی ہوں حالانکہ میں نے یہ حقیقت بیان کی تھی کہ بہت سی باتیں علماء نے اس حد تک چھپائی ہوئی ہیں کہ عام لوگوں کو اسکا ہرگز علم نہیں ہے۔
سوال:
اچھا اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور میں نے غلط بات کہی ہے تو آپ خود ہی بتلا دیجئے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ آج بھی عقد متعہ کے اوپر تو بحث ہوتی ہے کہ عارضی تعلقات کے نام پر اس کا انکار کیا جاتا ہے، مگر کوئی بحث اس بات پر نہیں ہوتی کہ اسلام میں اس سے کہیں بڑھ کر کنیز عورت کے ساتھ ان عارضی وقتی تعلقات کی اجازت ہے کہ جس کا کوئی منکر نہیں بلکہ سب متفقہ طور پر اسکے جواز کے قائل ہیں۔
سوال:
اچھا اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور میں نے غلط بات کہی ہے تو آپ خود ہی بتلا دیجئے کہ آج کے کتنے فیصد لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ اوائل اسلام میں کنیز عورتوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہوتا تھا جو بغیر حجاب کے سوسائٹی میں گھومتا تھا، اور یہ چیز فحاشی میں شمار نہ ہوتی تھی؟
باقی لوگوں کو چھوڑیں، اسی فورم میں آپ تمام ممبران میں سے آگے بڑھ کر وہ لوگ اپنی گواہی دے دیں جو میرے اس مسئلے کو بیان کرنے سے قبل اس بات کو جانتے تھے۔
اس فورم کے ممبران عام عوام کی نسبت انتہائی پڑھے لکھے ہیں، مگر شاید دو چار کے علاوہ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ عورتوں کا ایک گروہ یوں اسلامی سوسائٹی میں بغیر حجاب کے موجود تھا؟
*****************
بہرحال، مجھے اس بات پر کوئی شکایت نہیں کہ کنیز عورتوں کو حجاب کی اجاز تھی یا نہیں۔ اگر اسلام نے انہیں اسکی اجازت دی تھی تو ٹھیک ہے اور مجھے اس معاملے پر بحث نہیں کرنی۔
مگر مجھے اصل تکلیف پھر آجکل کے علماء سے ہے۔
دیکھئیے، میں نے اوپر اپنی بالکل پہلی تحریر میں یہ بات لکھی تھی اور میں اسے دوبارہ دہرا رہی ہوں کہ:
۔ ایران، سعودیہ اور جن جن جگہوں پر طالبان یا دیگر گروہوں نے آج اسلامی ریاست کے نام پر کسی جگہ اپنی حکومت جاری کی ہے، تو انہوں نے "غیر مسلم خواتین" پر یہ کہہ کر حجاب کی پابندی لازمی کر دی ہے کہ بغیر حجاب کیے وہ معاشرے میں فحاشی پھیلا رہی ہیں۔
باقی جگہوں کو چھوڑیں، ایران شاید ان سب اسلامی ریاستوں میں سب سے زیادہ لبرل ہے، مگر وہاں بھی یہ حالت ہے کہ اگر کسی "غیر مسلم خاتون" کے سر سے سکارف سرک جائے اور بال نظر آنے لگیں تو اس پر اُس خاتون کے پاس پولیس پہنچ جاتی ہے کہ وہ فحاشی پھیلا رہی ہے۔
میرا اعتراض بالکل صاف اور سادہ ہے کہ اگر سر کے بال نظر آنا فحاشی ہے تو پھر یہ فحاشی تو اوائل اسلام سے ہر معاشرے میں لیگل طریقے سے جاری و ساری ہے۔
چنانچہ اگر ایک اسلامی حکومت آج کے دور میں "مسلم خاتون" پر حجاب کی پابندی لگا رہی ہے تو یہ بات پھر بھی سمجھ آتی ہے اور ہضم ہو سکتی ہے، مگر آج جب آپ "غیر مسلم خواتین" پر فحاشی کے نام پر حجاب کی پابندی لازمی کرتے ہیں تو یہ سمجھ سے بالکل بالاتر بات ہے۔
سوال:
کیا رسول اللہ ص کی کوئی صاف و واضح حدیث موجود ہے کہ "غیر مسلم خواتین" کو بھی فحاشی کے نام پر زبردستی سر یا چہرے کا حجاب کروایا جائے؟ یا پھر یہ بدعت آج کے ملا حضرات نے اپنی طرف سے جاری کی ہے؟
یقینا ہم لوگوں میں سے بہت سے لوگ "مقلد" ہوں گے۔ مگر یقینا ہم خدا کا سب سے بڑا تحفہ "عقل" رکھتے ہیں اور ہمیں اجازت ہے کہ اگر کوئی چیز ہمیں اسلام کے خلاف دکھائی دے تو اس پر ملا حضرات سے "ثبوت و دلیل" طلب کریں۔
لیکن ہم ملا حضرات سے یہ "ثبوت و دلیل" طلب تو اُس وقت کریں نا جب کہ ہمیں خود ان چیزوں کا پہلے علم ہو۔ جب ہمارے 99 فیصد لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں اور جن 1 فیصد لوگوں کو علم بھی ہو اُن کے لبوں کو بھی مہر لگی ہو، تو پھر کچھ بعید نہیں کہ آج ایران و سعودیہ کی حکومتوں کے اتنے سالہا سال گذر جانے کے باوجود یہ سوال کبھی عوام کے سامنے نہ اٹھا۔
کنیز عورت کا ستر کیا ہے؟
بھائی جی، ابھی تک بات ہوئی تھی کہ کنیز عورت کے لیے چہرہ تو ایک طرف رہا، سر کا بھی حجاب نہیں تھا۔
اس پر شہزاد آپ نے کہا ہے کہ میں سنسنی پھیلا رہی ہوں اور لوگوں کو پہلے سے ہی ان باتوں کا علم ہے۔ مگر یقین رکھئیے کہ میں رک گئی تھی۔
اچھا اب آپ میری طرح سنسنی نہ پھیلائیے گا اور ہمیں اس بات کا جواب دے دیں کہ کنیز عورت کا ستر کیا ہے۔
اس ستر والے مسئلے کے سامنے حجاب نہ لینے والا مسئلہ تو مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے۔ ذرا شہزاد وحید بھائی صاحب کے جواب کا انتظار کرتے ہیں، اسکے بعد میں دیکھتی ہوں کہ میں رکی رہوں یا پھر آپ لوگوں میں اتنی سکت ہے کہ ان باتوں کو سننے کی تاب رکھیں۔ اور سنسنی کی بات نہ کریں تو اچھا ہو گا کیونکہ اگر علم کے نام پر میں نے لکھ کر دے بھی دیا تو بھی مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ایڈمن یا موڈیریٹر بھائی حضرات اس کو یہاں شائع کریں۔