محسن حجازی
محفلین
اردو شاعری غالبا اتنی ہی پرانی ہوگی جتنی کہ اردو۔ قیاس اس بنیاد کی اس تقین پر ہے کہ فارغ البال لوگ ہر دور میں ہوتے ہوں گے۔ اب اردو کی تاریخ سے تو ہم زیادہ آگاہ نہیں تاہم اردو کے اساتذہ پر نظر ڈالی جائے تو کسی خاتون شاعرہ کا نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اب خواتین شاعرات کی تعداد نہ صرف اچھی خاصی ہے بلکہ اب تو اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہرچوتھی خاتون شعر گوئی کی صلاحیت سے مالامال نظر آتی ہے۔
اگر شاعری کی بنیاد فراغت و فرصت سمجھا جائے تو اس تغیر زمانہ کے ڈانڈے مغرب کے صنعتی انقلاب سے جا ملتے ہیں کہ اردو ادب نسواں میں اس انقلاب کی اصل بنیاد غالبا جوسر، گرائنڈر، اوون اور بالخصوص خانساماں کی ایجاد سے پڑی۔ ظاہر ہے کہ چار سیر قیمہ کوٹنے، دو سیر پیاز کاٹنے، آدھ کلو ثابت سرخ مرچ سل پر پیسنے اور چولہے میں گھنٹہ بھر لکڑیاں جھونکنے اور دھونکنے کے بعد 'وہ جہاں بھی گیا لوٹ کر میرے پاس آیا' قسم کے خیالات کا امکان ویسا ہرگز نہیں رہتا بلکہ اس قسم کے خیالات 'وہ جہاں بھی گیا وہیں رہے' کی سمت میں بھٹکنے لگتے ہیں۔
ہماری بہت سی شاعرات سے بات چیت بھی ہوئی، ہم نے تخلیقی عمل کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے اور واردات قلبی کی بابت بھی استفسار رہا کہ اردو کے قریب قریب تمام جید شعرا نے نہ صرف اس کا وجود تسلیم کیا ہے بلکہ اسے محرک بھی قرار دیا ہے۔ تاہم خواتین شاعرات اس حاجت سے قطعی بے نیاز نظر آتی ہیں بلکہ بیشتر نے واردات قلبی سے یکسر انکار کیا۔ ہماری دانست میں واردات قلبی کے بغیر شاعری شہر کراچی میں ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ کی مانند ہےجس میں راہ چلتوں کے گھائل ہونے کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے تاہم اس سب سے بے نیاز بیشتر خواتین شاعرات اندھا دھند بلا اشتعال فائرنگ میں شب و روز ہمہ تن مصروف و مشغول نظر آتی ہیں۔
دوسرا معاملہ فعلن فعولن کا ہے اور یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ خواتین شاعرات خود خواہ کتنی ہی سبک رو نازک اندام کیوں نہ ہوں، اشعار بہرطور پیدائشی وزن میں ہوتے ہیں۔علم عروض کے اساتذہ بہ اصرار کہتے ہیں خواتین شعرا عموما عروضی غلطیاں بہت کم کرتی ہیں۔ ہماری رائے اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ ہماری دانست میں اساتذہ علم عروض ایسی غلطی کم کرتے ہیں اور کسی سیانے کے بقول 'غلطی پر سرزنش میں سے آدمی یا سرزنش' کے انتخاب میں سے اول الذکر کو مقدم جانتے ہیں۔
اس مفروضے کی جانچ کے واسطے ہم نے ایک سادہ تجربہ کیا جو درج ذیل ہے۔
ہم نے ایک ایسی غزل گھڑ ڈالی جس میں واردات قلبی تو درکنار واردات عقلی کو بھی قطعی دخل اندازی کی اجازت نہ تھی۔ شعر سے شعر کا کوئی تعلق نہ ہونا تو یوں غزل کا خاصہ سمجھا جاتا ہے، یہاں ایک مصرعے کا دوسرے مصرعے سے بھی قطعی کوئی تعلق نہ تھا اور تیار ہونے پر بنام محسن حجازی ایک عروضی ماہر کے نام اس رقعے کے ہمراہ ارسال کر دی کہ صاحب اصلاح احوال کے واسطے پیش خدمت ہے نیز زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی خواہش مند ہیں آپ سے نابغہ روزگار آدمی جاں بہ لب تہذیب مشرق کے چند آخری ٹمٹماتے چراغ ہیں جن کے واسطے قدرواحترام ہم پر لازم و واجب ہے وغیرہ وغیرہ الغرض جس قدر مکھن کا استعمال ممکن تھا کر ڈالا۔ جوابا جو غزل تقطیع اشعار کے واسطے بھیجی گئی تھی، تقطیع تعلق و گفتار پر منتنج ہوئی۔ مختصر جوابی مراسلے میں فرمایا کہ آپ کے اشعار میں وزن تو درکنار معنی بھی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ براہ کرم کوشش شعرگوئی پر اپنی کوششیں ترک کر دیجئے اور اپنی صلاحیتوں کو کسی اور سمت میں استعمال فرمائيے تاہم سمت کا تعین فرمانے سے گریزاں رہے۔
یوں تو ہمیں یقین کامل تھا کہ غزل موصوف نے غور سے نہ دیکھی ہوگی تاہم ان کی لوح حافظہ سے مکمل محو ہوجانے کے انتظار میں ہم نے دو ہفتے کے وقفے کے بعد وہی غزل کشش صدیقی کے نام سے موصوف کی خدمت میں ارسال کی تاہم اب کے رقعے کو نہ صرف مختصر رکھا بلکہ صیغہ تانیث میں معصومیت سمو کر اصلاح کے طالب ہوئے۔ جوابا ہمیں کوئی پندرہ صفحوں پر پھیلا توصیفی خط موصول ہوا جس میں فردا فردا ہمارے ہر شعر کی بابت وہ وہ تشریحات و تصریحات بیان تھیں جو خود وقت تحریر ہمارا منشا و مقصود تو کیا وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ آخر میں فرمایا کشش صاحبہ آپ کے اشعار قدرتی طور پر اردو میں کثیرالاستعمال بحور پر از خود یوں منطبق ہوئے جاتے ہیں کہ آج سے پہلے اس مظہر کا مشاہدہ خاکسار کو نصیب نہیں ہوا۔ نیز شعر کے دومصرعوں میں بعد المشرقین رکھ کر کم سے کم گنجائش میں زیادہ سے زیادہ متنوالنوع مضامین سمیٹنے کی جو طرح آپ نے ڈالی ہے، اس تیز رفتار دور میں وہ خاکسار کی نظر میں اکیسویں صدی میں اردو غزل کو نہ صرف نئی جہت اور نیا چہرہ دینے کے ہم معنی بلکہ کاوش کے اعتبار سے ادبی اجتہاد کے مترادف ہے جس پر آپ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ امید ہےکہ فن شعر گوئی کا سلسلہ جاری رہے گا اور آپ کے مزید فن پارے پرکھنے کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی۔
ہم اس سادہ سے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ غزل تو باوزن و باشرع و پابند بحر و ردیف تھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اسم گرامی خاصا بے ہنگم و بے وزن ہے اور ہمارے شعری سفر میں پا بہ زنجیر ہے۔ ہم اپنے شعری سفر کے لیے کیا قلمی نام اختیار کریں، یہ تجویز ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔
اگر شاعری کی بنیاد فراغت و فرصت سمجھا جائے تو اس تغیر زمانہ کے ڈانڈے مغرب کے صنعتی انقلاب سے جا ملتے ہیں کہ اردو ادب نسواں میں اس انقلاب کی اصل بنیاد غالبا جوسر، گرائنڈر، اوون اور بالخصوص خانساماں کی ایجاد سے پڑی۔ ظاہر ہے کہ چار سیر قیمہ کوٹنے، دو سیر پیاز کاٹنے، آدھ کلو ثابت سرخ مرچ سل پر پیسنے اور چولہے میں گھنٹہ بھر لکڑیاں جھونکنے اور دھونکنے کے بعد 'وہ جہاں بھی گیا لوٹ کر میرے پاس آیا' قسم کے خیالات کا امکان ویسا ہرگز نہیں رہتا بلکہ اس قسم کے خیالات 'وہ جہاں بھی گیا وہیں رہے' کی سمت میں بھٹکنے لگتے ہیں۔
ہماری بہت سی شاعرات سے بات چیت بھی ہوئی، ہم نے تخلیقی عمل کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے اور واردات قلبی کی بابت بھی استفسار رہا کہ اردو کے قریب قریب تمام جید شعرا نے نہ صرف اس کا وجود تسلیم کیا ہے بلکہ اسے محرک بھی قرار دیا ہے۔ تاہم خواتین شاعرات اس حاجت سے قطعی بے نیاز نظر آتی ہیں بلکہ بیشتر نے واردات قلبی سے یکسر انکار کیا۔ ہماری دانست میں واردات قلبی کے بغیر شاعری شہر کراچی میں ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ کی مانند ہےجس میں راہ چلتوں کے گھائل ہونے کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے تاہم اس سب سے بے نیاز بیشتر خواتین شاعرات اندھا دھند بلا اشتعال فائرنگ میں شب و روز ہمہ تن مصروف و مشغول نظر آتی ہیں۔
دوسرا معاملہ فعلن فعولن کا ہے اور یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ خواتین شاعرات خود خواہ کتنی ہی سبک رو نازک اندام کیوں نہ ہوں، اشعار بہرطور پیدائشی وزن میں ہوتے ہیں۔علم عروض کے اساتذہ بہ اصرار کہتے ہیں خواتین شعرا عموما عروضی غلطیاں بہت کم کرتی ہیں۔ ہماری رائے اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ ہماری دانست میں اساتذہ علم عروض ایسی غلطی کم کرتے ہیں اور کسی سیانے کے بقول 'غلطی پر سرزنش میں سے آدمی یا سرزنش' کے انتخاب میں سے اول الذکر کو مقدم جانتے ہیں۔
اس مفروضے کی جانچ کے واسطے ہم نے ایک سادہ تجربہ کیا جو درج ذیل ہے۔
ہم نے ایک ایسی غزل گھڑ ڈالی جس میں واردات قلبی تو درکنار واردات عقلی کو بھی قطعی دخل اندازی کی اجازت نہ تھی۔ شعر سے شعر کا کوئی تعلق نہ ہونا تو یوں غزل کا خاصہ سمجھا جاتا ہے، یہاں ایک مصرعے کا دوسرے مصرعے سے بھی قطعی کوئی تعلق نہ تھا اور تیار ہونے پر بنام محسن حجازی ایک عروضی ماہر کے نام اس رقعے کے ہمراہ ارسال کر دی کہ صاحب اصلاح احوال کے واسطے پیش خدمت ہے نیز زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی خواہش مند ہیں آپ سے نابغہ روزگار آدمی جاں بہ لب تہذیب مشرق کے چند آخری ٹمٹماتے چراغ ہیں جن کے واسطے قدرواحترام ہم پر لازم و واجب ہے وغیرہ وغیرہ الغرض جس قدر مکھن کا استعمال ممکن تھا کر ڈالا۔ جوابا جو غزل تقطیع اشعار کے واسطے بھیجی گئی تھی، تقطیع تعلق و گفتار پر منتنج ہوئی۔ مختصر جوابی مراسلے میں فرمایا کہ آپ کے اشعار میں وزن تو درکنار معنی بھی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ براہ کرم کوشش شعرگوئی پر اپنی کوششیں ترک کر دیجئے اور اپنی صلاحیتوں کو کسی اور سمت میں استعمال فرمائيے تاہم سمت کا تعین فرمانے سے گریزاں رہے۔
یوں تو ہمیں یقین کامل تھا کہ غزل موصوف نے غور سے نہ دیکھی ہوگی تاہم ان کی لوح حافظہ سے مکمل محو ہوجانے کے انتظار میں ہم نے دو ہفتے کے وقفے کے بعد وہی غزل کشش صدیقی کے نام سے موصوف کی خدمت میں ارسال کی تاہم اب کے رقعے کو نہ صرف مختصر رکھا بلکہ صیغہ تانیث میں معصومیت سمو کر اصلاح کے طالب ہوئے۔ جوابا ہمیں کوئی پندرہ صفحوں پر پھیلا توصیفی خط موصول ہوا جس میں فردا فردا ہمارے ہر شعر کی بابت وہ وہ تشریحات و تصریحات بیان تھیں جو خود وقت تحریر ہمارا منشا و مقصود تو کیا وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ آخر میں فرمایا کشش صاحبہ آپ کے اشعار قدرتی طور پر اردو میں کثیرالاستعمال بحور پر از خود یوں منطبق ہوئے جاتے ہیں کہ آج سے پہلے اس مظہر کا مشاہدہ خاکسار کو نصیب نہیں ہوا۔ نیز شعر کے دومصرعوں میں بعد المشرقین رکھ کر کم سے کم گنجائش میں زیادہ سے زیادہ متنوالنوع مضامین سمیٹنے کی جو طرح آپ نے ڈالی ہے، اس تیز رفتار دور میں وہ خاکسار کی نظر میں اکیسویں صدی میں اردو غزل کو نہ صرف نئی جہت اور نیا چہرہ دینے کے ہم معنی بلکہ کاوش کے اعتبار سے ادبی اجتہاد کے مترادف ہے جس پر آپ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ امید ہےکہ فن شعر گوئی کا سلسلہ جاری رہے گا اور آپ کے مزید فن پارے پرکھنے کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی۔
ہم اس سادہ سے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ غزل تو باوزن و باشرع و پابند بحر و ردیف تھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اسم گرامی خاصا بے ہنگم و بے وزن ہے اور ہمارے شعری سفر میں پا بہ زنجیر ہے۔ ہم اپنے شعری سفر کے لیے کیا قلمی نام اختیار کریں، یہ تجویز ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔