نور وجدان
لائبریرین
دو دن پہلےپنجاب اسمبلی میں ایک بل منظور کیا گیا ہے جو کہ منظوری کے بعد سے اب تک ہر ٹی وی چینل پر زیر بحث ہے۔ اور اس بحث نے زور تب پکڑا جب جامعہ بنوریہ کے سربراہ مفتی نعیم کا یہ بیان سامنے آیا کہ اس قانون کی وہ شق جس میں خاتون پر تشدد کی صورت میں مرد کو چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے گھر سے باہر رہنا ہوگا، اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ پھر کیا تھا،ہر ٹی وی چینل پر آج سارا دن ایک طرف مفتی صاحب اور دوسری طرف کبھی فرزانہ باری تو کبھی عاصمہ جہانگیر ۔مفتی صاحب کا موقف یہ ہے کہ اس طرح کے قوانین مغرب کی تقلید میں بنائے جا رہے ہیں اور ان کا مقصد اسلامی اقدار کو ہمارے معاشرے سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔جب کہ اس بل کے حامیوں کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشددکی بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام کے لیے یہ بل پاس کیا گیاہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔یہ سب دیکھ کرجس بات کا مجھے شدت سے احساس ہوا وہ یہ تھی کہ مرد اورخصوصامولوی حضرات کس طرح اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب عورت پر تشدد ہوتا ہے، سر عام عورتوں کو کوڑے لگتے ہیں، غیرت کے نام پر آئے روز قتل ہوتے ہیں، ہزاروں معصوم کلیاں ونی اور سوارہ جیسی رسوم کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں تب کسی کو اسلام یاد کیوں نہیں آتا ؟ تب مفتی صاحب ٹیلی وی پر یہ چیخ چیخ کر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اسلام کی تعلیمات کی منافی ہے۔ تب وہ اس طرح کے غیر انسانی اور غیر اسلامی کام کرنے والوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ تب ان کو اسلام پر خطرے کے بادل منڈلاتے نظر کیوں نہیں آتے؟ میں سوچتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کا اسلام عورت کی غلامی سے شروع ہو کر عورت کی غلامی پر ہی کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی اور مولوی حضرات کی زن مخالف سوچ ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں اسلامی تعلیمات کی ترویج کا کوئی موثر نظام موجود نہیں، اس لیے گاؤں کے کسی ناخواندہ یا شہر کے کسی نیم خواندہ شخص کے لیے وہی حرف آٖخر ہو گا جو اسے مولوی صاحب بتائیں گے۔اب مولوی صاحبان اسے یہ تو بتا دیتے ہیں کہ عورت برائی کی جڑ ہے ، یا عورت اگر برائی کرے گی تو اس کی باز پرس مرد سے کی جائے گی مگر یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی اگر برائی کریں گے تو ان کو بھی اس کی سزا ملے گی۔ اگر عورت کو پردے اور فحاشی سے بچنے کا حکم ہے تو مرد کے لیے بھی یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کا پردہ کرے۔ یہ نہیں کہ خود اپنے گھر کی عورت کو آپ گھر میں قید کر کے رکھیں اور راہ چلتی عورت کو چاہے نظروں سے ہی نگل جائیں۔ اسی طرح اگر خانگی معاملات پر بات کی جائے تو بہت سے پاکستانی مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت سے سختی برتنے کی اسلام میں اجازت ہے۔بلکہ کچھ لوگ تو اس اجازت کو ہدایت سمجھ بیٹھے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہی اسلام ان لوگوں کو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بھی ہدایت دیتا ہے۔ شوہر کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنی بیوی سے اچھی طرح پیش آئے ۔اس کے نان نفقہ کا خیال رکھے۔اور اگر علیحدگی بھی اختیار کرنی ہے تو وہ بھی باعزت طریقے سے کی جائے، کجا کہ خواتین پر تشدد کیا جائے۔
اس مسئلے میں جہاں ایک طرف مولوی حضرات قصوروار ہیں تو دوسری طرف وہ سوچ بھی برابر کی ذمہ دار ہے جو ہماری معاشرتی قدروں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں خواتین کےحقوق کے لیے کام کرنے والی بہت سی این جی اوز ایسی ہیں جن کو نہ تو پاکستان میں خواتین کے بنیادی مسائل سے آگہی ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرتی نظام کا علم۔ ان این جی اوز کو چلانے والی خواتین یا تو غیر ملکی ہیں یا پھر ہائی سوسائٹی ،یا ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کو کیا معلوم کہ عام عورت کے مسائل کیا ہیں؟ خودایل جی ایس یا کونونٹ میں پڑھنے والی ان خواتین کو کیا علم کہ جب ماں کے پاس ایک بچے کو اسکول میں داخلہ دلوانے کے پیسے ہوں تو اس کے لیےکتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس بیٹے کو داخلہ دلوائے جو کہ کل کو گھر سنبھالے گا، یا اس بیٹی کو جسے کل پرائے گھر جانا ہے ، اور اس کے لیے جہیز بھی تیار کرنا ہے۔پھر یہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو تعلیم نہیں دی جاتی۔ کیا ان میں سے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان کے گھر جو بچی کام کر رہی ہے وہ بھی اسکول جانے کی اتنی ہی مستحق ہے جتنی ان کی اپنی بے بی۔ جب انہی کی فیکٹریوں میں خواتین سے کم اجرت پر کام کروایا جاتا تو کیا تب ان کے حقوق پامال نہیں ہوتے؟ مگر اپنے گریبان میں جھانکتا کون ہے؟ان خواتین کی نظروں پر بھی مغرب کی تقلید کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ عورت کے ہر مسئلے کا حل مرد سےبھڑ جانے میں ہے۔ شوہر اگر کسی بات سے منع کر رہا ہے تو اس کی بات اس لیے نہ سنو کہ وہ مرد ہے۔ یا پھر اگر ہاتھ اٹھا رہا ہے تو گھر کی بات کو تھانے کچہری تک لے جاؤ۔ جب کہ ہمارے ہاں لوگ اپنی جان سے زیادہ اپنی عزت کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو اگر آپ ہر دوسرے دن کسی عزت دار شخص کے گھر کے باہر پولیس بلائیں گی تو کیا آپ کا رشتہ چل سکے گا؟ کیا مرد کے ہاتھ میں کڑا پہنا دینے سے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟ اگر معاشرے میں مرد سے نفرت اور مقابلے کی سوچ حاوی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو مرد اپنا دفاع کرنے کے لیے مزید سختی برتنے لگیں اور مرد اور عورت کی یہ جنگ معاشرے کے توازن کو بگاڑ دے گی۔
ہماری کوشش نہ صرف یہ ہونی چاہیے کہ خواتین کے حقوق کو پامال نہ ہو دیا جائے بلکہ یہ بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کا تقدس بھی پامال نہ ہونے پائے۔اس کے لیے مولوی حضرات اور علماء کو چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو عام کریں اور مردوں کو یہ بتائیں کہ اسلام میں خواتین کو کس قدر حقوق دئیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ مردوں کے ہاتھوں میں کڑے پہنانے کی بجائے ان کی کونسلنگ کی جائے۔مسائل کبھی بھی زور زبردستی سے حل نہیں ہوتے، گھر کبھی بھی کورٹ کچہری میں نہیں بنتے۔ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ گھر برداشت اور صبر سے بنتے ہیں۔ اپنے اندر اور معاشرے میں برادشت پیدا کریں۔آپ طالبان سے بات چیت کرنے پر رضامند ہیں مگر گھر کے اندر بات چیت پر پابندی کیوں لگا رہے ہیں؟
اقدس طلحہ
اس مسئلے میں جہاں ایک طرف مولوی حضرات قصوروار ہیں تو دوسری طرف وہ سوچ بھی برابر کی ذمہ دار ہے جو ہماری معاشرتی قدروں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں خواتین کےحقوق کے لیے کام کرنے والی بہت سی این جی اوز ایسی ہیں جن کو نہ تو پاکستان میں خواتین کے بنیادی مسائل سے آگہی ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرتی نظام کا علم۔ ان این جی اوز کو چلانے والی خواتین یا تو غیر ملکی ہیں یا پھر ہائی سوسائٹی ،یا ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کو کیا معلوم کہ عام عورت کے مسائل کیا ہیں؟ خودایل جی ایس یا کونونٹ میں پڑھنے والی ان خواتین کو کیا علم کہ جب ماں کے پاس ایک بچے کو اسکول میں داخلہ دلوانے کے پیسے ہوں تو اس کے لیےکتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس بیٹے کو داخلہ دلوائے جو کہ کل کو گھر سنبھالے گا، یا اس بیٹی کو جسے کل پرائے گھر جانا ہے ، اور اس کے لیے جہیز بھی تیار کرنا ہے۔پھر یہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو تعلیم نہیں دی جاتی۔ کیا ان میں سے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان کے گھر جو بچی کام کر رہی ہے وہ بھی اسکول جانے کی اتنی ہی مستحق ہے جتنی ان کی اپنی بے بی۔ جب انہی کی فیکٹریوں میں خواتین سے کم اجرت پر کام کروایا جاتا تو کیا تب ان کے حقوق پامال نہیں ہوتے؟ مگر اپنے گریبان میں جھانکتا کون ہے؟ان خواتین کی نظروں پر بھی مغرب کی تقلید کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ عورت کے ہر مسئلے کا حل مرد سےبھڑ جانے میں ہے۔ شوہر اگر کسی بات سے منع کر رہا ہے تو اس کی بات اس لیے نہ سنو کہ وہ مرد ہے۔ یا پھر اگر ہاتھ اٹھا رہا ہے تو گھر کی بات کو تھانے کچہری تک لے جاؤ۔ جب کہ ہمارے ہاں لوگ اپنی جان سے زیادہ اپنی عزت کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو اگر آپ ہر دوسرے دن کسی عزت دار شخص کے گھر کے باہر پولیس بلائیں گی تو کیا آپ کا رشتہ چل سکے گا؟ کیا مرد کے ہاتھ میں کڑا پہنا دینے سے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟ اگر معاشرے میں مرد سے نفرت اور مقابلے کی سوچ حاوی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو مرد اپنا دفاع کرنے کے لیے مزید سختی برتنے لگیں اور مرد اور عورت کی یہ جنگ معاشرے کے توازن کو بگاڑ دے گی۔
ہماری کوشش نہ صرف یہ ہونی چاہیے کہ خواتین کے حقوق کو پامال نہ ہو دیا جائے بلکہ یہ بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کا تقدس بھی پامال نہ ہونے پائے۔اس کے لیے مولوی حضرات اور علماء کو چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کو عام کریں اور مردوں کو یہ بتائیں کہ اسلام میں خواتین کو کس قدر حقوق دئیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ مردوں کے ہاتھوں میں کڑے پہنانے کی بجائے ان کی کونسلنگ کی جائے۔مسائل کبھی بھی زور زبردستی سے حل نہیں ہوتے، گھر کبھی بھی کورٹ کچہری میں نہیں بنتے۔ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ گھر برداشت اور صبر سے بنتے ہیں۔ اپنے اندر اور معاشرے میں برادشت پیدا کریں۔آپ طالبان سے بات چیت کرنے پر رضامند ہیں مگر گھر کے اندر بات چیت پر پابندی کیوں لگا رہے ہیں؟
اقدس طلحہ
آخری تدوین: