خواجہ اور خامہ (مشفق خواجہ)

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر آغا سہیل

مشفق خواجہ سے مجھے قرابت قریبہ تو کجا واجبی سی رسم و راہ بھی نہیں تھی۔یعنی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں تھا۔ طرفین میں سے کسی جانب سے تبادلۂ خیالات کی نہ تو کبھی خواہش پیدا ہوئی اور نہ تشویق، غالباً اس کی وجہ مزاجوں کے مابین بُعد مشرقین حائل تھا۔ہر بڑے ادیب اور انشا پرداز سے یکطرفہ تعلق(قاری کی حیثیت سے ) ضرور قائم تھا اور چونکہ میری سہل انگاری اور آرام طلبی محققین اور مدققین (کابس احترام ملحوظ رکھتی ہے ) لہٰذا کبھی کسی موضوع پر گفتگو کرنے ، تبادلہ خیالات یا مکالمہ کا شوق بھی پیدا نہیں ہوا۔ اجتناب کی ایک وجہ وہ احترام بھی تھا جو مرحوم سے بابائے اردو کی نسبت سے ملحوظ تھا۔تاہم ان کے مبلغ علم میں تعمیرِ فکر کی جہد مسلسل میں جو توانائی تھی وہ سچے دانش جو کا احساس پیدا کرتی تھی۔
ایک ہمارا مشترکہ آنجہانی دوست من موہن تلخ جب بھی(دہلی یا لکھنؤ میں ملتا) تو مرحوم کا ذکر خیر ضرور کرتا۔ نیز یہ کہ ہمارے مرحوم استاد پروفیسر ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی نے ایک زمانے میں ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ پر جو کام مجھ سے لینے کے لئے سعی بلیغ فرمائی۔ انھیں خاکسار کے بارے میں یہ حسنِ ظن تھا کہ تحقیق و تدقیق کی تشویق دلانے سے میں اس تذکرے پر کام کر لوں گا لیکن میں نے مرحوم کو بھی مایوس کیا اور تحقیق و تدقیق کو بھاری پتھر سمجھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد شمیم انہونوی(ابن نسیم انہونوی جو غالباً اب مرحوم ہاشمی صاحب کے خویش ہیں تذکرۂ خوش معرکہ زیبا پر کام کرنے پر آمادہ ہو گئے ( غالباً اسی موضوع پر موصوف نے ڈاکٹریٹ بھی کر لی تاہم میرے علم میں خواجہ (مشفق) صاحب کے مزاج اور مذاق۔نستعلیق، مذاق تفکر و تعقل آیا تو مجھے یک گونہ تسلی اور طمانیت حاصل ہوئی کہ اب یہ بیل صحیح معنیٰ میں منڈھے چڑھے گی۔ظاہر ہے اس کی ایک وجہ تو بابائے اردو سے مرحوم کی دیرینہ قربت اور تعلق اور تربیت و تہذیب تھی، دوسرے موصوف کا جو ہر ذاتی کو کماحقہ اس کام کے لئے موزوں تھا نیز یہ کہ مبلغ علم میں جو قوت نمو مسلسل ارتقا پذیر تھی وہ اس کی ضمانت فراہم کرتی تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ تحقیق و تدقیق میں (فی زمانہ)تنقید اور تخلیق کے مذاق سلیم کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے کلاسیکی اور آفاقی لغات (معّرب، مفّرس، مہنّد) پر مکمل دسترس حاصل ہو ( جو اب نادر ہے ) خواجہ مرحوم محض متبع اور پیرو کار نہیں تھے کہ مولوی صاحب کے مذاق کی حرف بہ حرف پیروی کر کے دو چار نامے کے مقالات لکھ کر معاملہ صاف کر دیتے یا تدوین میں چند نسخوں کی ترتیب و تہذیب کر کے مقدمہ لکھ کر اور حواشی رقم کر کے سمجھ لیتے کہ ان کی تکلیف شرعی ختم ہو گئی یا بہت سے بہت مخلّی الطبع ہو کر( جسیے مولوی صاحب اکثر احباب سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اردو زبان سے تاہل اختیار کر لیا یہ اور خاموش ہو جاتے )۔
مرحوم خواجہ نے ایک طرف تو تحقیق و تدقیق کی ثقاہت کے پیڈسٹل سے نیچے اتر کر مر وجہ اردو صحافت (کی بد مذاقی) سے سمجھوتہ نہیں کیا نہ اس کی زبان و بیان سے اور نہ تفکر تعمیم(یعنی عامیانہ پن) بلکہ تخصیص میں جو مذمّن ہونا چاہیے اسے باقی رکھا تاہم خواجہ کا خامہ بگوش معتکف رہتا کہ شعر و ادب کی تخلیق کے نام پر صحافت کی رکاکت روز بروز نت نئے گل کھلا رہی تھی کہ ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ، مخلی بالطبع ہونے کے بعد آخر خامہ بگوش کب تک تابِ سخن رکھتا، قرطاس پر بسم اللہ کہہ کر رواں ہوا۔ ماضی و حال کے تما م محاسبہ اور محاکمہ کرنے پر کمر بستہ ہو گیا۔ خواجہ کو اس سے ضرور طمانیت میسر آئی ہو گی لیکن وطن عزیز کے بے لگام اور خود سر(شیر چشم اور خود نگرِ مبتدی صحافیوں ) کے ہوش ٹھکانے آ گئے ۔ اس کی شدید ضرورت بھی تھی۔ صحافت(زرد) ہی شرف معاشرے کے منظّم، منضبط مشاعرہ کے قوام نہیں بگاڑ رہی تھی بلکہ نام نہاد جرنلزم (جو بے سمت اور خیرہ سر ہے اور جس سنو بری میں مبتلا ہے ) نہ معاشرے کی خیرخواہ ہے اور نہ ملک عزیز کی ، اسے ادب قرار دینا بجائے خود بددیانتی اور بدعت ہے ۔خامہ بگوش اس بدعت کو ادبی تخلیق قرار نہیں دے سکتا تھا، چنانچہ اس کا قلم حرکت میں رہتا اور لوگ منغض یا چراغ پا ہوتے تھے تو ہوا کرتے جس کو علم و ادب کی حرمت کا اور صحت کا خیال ہو گا وہ ہر گز اسے برداشت نہیں کرے گا۔
ایک بات اور بھی غور طلب ہے کہ ہوا اور خلاء میں خیالی گھوڑے دوڑائے جاتے رہتے ہیں اور اس یاوہ گوئی(جذبے خیال اور وجدان کے رومان کو) ادب اور تخلیق ادب قرار دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس رخ اور کس سمت سے اسے ادب کہا جائے کہ آئی ٹی(انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے ترقی یافتہ دور میں ادب تو بڑی چیز ہے یہ صحافت کی تعریف پر بھی صورت حال پوری نہیں اترتی) مگر جب سے صحافت (بالخصوص برصغیر کی صحافت میں صنعت کار دخیل ہوا یہ زبان کا اور صحافت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ۔ نہ صحافت صحافت رہی اور نہ ادب ادب رہا کہ ادب کی کوئی بھی صنف ہو جب تک اس میں تخلیق کی آنچ نہ ہو اور فکر و عقل کی قوت نمونہ ہو اس کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔ خواجہ اس صورت حال کا صحیح تجزیہ( معروضی طور پر) کرتے رہے ہیں اور شعر و ادب کی تخلیق کو صحافت (صحافت کا سیاسی کینسر) متاثر کرتا رہا اور خواجہ کو روحانی اور قلبی تکلیف پہنچتی رہی۔جب تک معاشرے کے جملہ اقدار کے منہاج کا صحیح تعین نہ ہو سکے اور یہ پتہ نہ چلے کہ یہ صحافت کس طرف(قوم کو) لے جا رہی ہے اور اگر ادب کے نام پر بدعت روارکھی جا رہی ہے تو یہ ادب کدھر جا رہا ہے (خلاء میں تخلیق ہوئی یہ تو ادب برائے زندگی کی تعریف میں نہیں آتا) اس عمل کو بعض بر خود غلط عناصر ترقی پسندی سے معنون کرتے ہیں جو غلط ہے کہ ترقی پسندی کا نظریہ اور فلسفہ مادی جدلیت کے ارتقاء سے عبارت ہوتا ہے اور آج کا صحافی(اور صنعت کار) دونوں سرمایہ دارانہ نظام میں گروپی اور طبقاتی مفادات کے تحفظ سے اپنے مفادات کے تحفظ کو وابستہ کئے ہوئے ہیں (جو ادب اور صحافت دونوں کے لئے اور وطن عزیز کے معاشرے کے لئے مہلک ہے )۔ بر صغیر کے کسی دور میں یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی تو لہٰذا ایک طرف زبان او ادب کے خسارے کا خیال تو دوسری طرف معاشرے کی خلاقی اقدار کا زیاں ، اس صورت حال سے خواجہ اور خامہ دونوں مشوش رہتے تھے تو خامہ حرکت میں آتا۔ ظاہر ہے کہ مخلّی بالطبع ہونے میں فکاہات کی جو صورت سامنے آتی وہ ملک کے ہر طبقے کو پسند نہیں آتی تھی(بالخصوص طنز جس کا مقصد در پر دہ اصلاح ہوتا ہے اور وہ کڑوا ہوتا یہ قاری کو پسند خاطر نہیں ہوتا تھا)۔
انگریزی زبان کی صحافت بھی ہمارے معاشرے میں مریضانہ ہے کہ بیشتر صحافی انگریزی زبان(ادب سے بالکل واقف نہیں ) سے بھی واقف ہوتے ہوئے ، اپنے خیالات اور نظریات کو مسخ کر کے پیش کرتے کہ وہ اپنی مادری ، علاقائی زبان میں سوچ کر انگریزی میں (غلط) ترجمہ کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ۔چونکہ بر صغیر کے عموماً اور پاکستان میں خصوصاً تمام جمہوری ادارے غیر جمہوری منہاج پر استوار ہیں ۔ لہٰذا قومی زبان(بشمول عدلیہ مقنّنہ اور انتظامیہ) کوئی صحت مند تشخص نہیں رکھتی لہٰذا قومی زبان کی جگہ انگریزی کا مصنوعی رعب و دبدبہ( کوڑ ے کی جگہ استعمال ہو رہا ہے )کہ عوام الناس کو رعایا اور حکمرانوں کو ظل اللہ اور ان کے احکام کو صحائف آسمانی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔بابائے اردو اور خواجہ کا خامہ اس صورت حال پر ہمیشہ ملول اور متفکر رہے جو بہر حال قومی شعار ہے ۔بابائے اردو جس طرح اردو زبان اور ادب کے لیے اپنے قلب میں سمندر کی سی گہرائی اور اطراف و اکناف عالم کی سی وسعت و پہنائی اور کشادگی رکھتے تھے وہ ہر طرح کی عصبیتوں اور تنگ دلی سے پاک اور مبرّا تھی وہی خواجہ کو ورثے میں ملی تھی۔ اگر کوئی اردو زبان میں اردو کو گالیوں اور دشنام طرازیوں کا ہدف بناتا تو بھی اردو کے بہی خواہ اسے خوش آمدید کہتے اور خوش ہوتے کہ دیکھو زبان کی وسعت اور پہنائی یہاں تک پہنچی تو ہے ۔ لیکن اردو زبان کے سکہ بند شعراء ادیب اگر انگریزی زبان کو( اردو کی موجودگی میں ) ترسیلِ خیال اور ابلاغ خیال کا ذریعہ بناتے تو ہر محسن زبان کی طرح خواجہ کو بھی تکلیف ہوتی اور یوں لگتا کہ اردو زبان کا یہ مستند ادیب اور شاعر جھوٹ بول رہا ہے اور خود کو جھٹلا رہا ہے ۔
انگریزی کی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے افادیت سے انکار نہیں ہے بلکہ کل26حروف پر مشتمل زبان جس کا کل مال(مانگتے تانگے کے لغات کی منت پذیر ہے اور جس اردو کے مقابلے میں ۔ تہی مایہ ہے وہ اگر بین الاقوامی زبان بنی بیٹھی ہے تو یہ بھی اردو والوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ لسانی نقطہ نظر سے اردو زبان پُر مایہ ہے صرف استعمار پسندوں نے ساری دنیا کے لغات اپنی زبان میں لے لیے ہیں جن کو ذرا کھرچو تو ان کی اصل آشکار ہو جاتی ہے ۔ اردو ایک تحلیلی زبان ہے اور اس میں جذب و انجذاب کی کیفیت بوجوہ (انگریزی کے مقابلے میں زیادہ ہے ) لیکن پاکستانی بیورو کریسی کی سہل انگاری نے بوجوہ اس کی افادیت سے انکا ر کر دیا ہے ۔ اس صورت حال کا خواجہ کو بخوبی ادراک تھا۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بعض سیاسی حلقوں نے بھی اردو زبان کو متنازعہ قرار دیا تھا اور اردو کے طرف داروں نے ایک مذہبی گروہ سے اختلاف کی وجہ سے اردو کی مخالفت شروع کر دی تھی اور اس سلسلے میں اردو خوا مخواہ مطعون ہو گئی تھی جس کا خواجہ کو احسا س تھا مگر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ خواجہ کو اسی گروپ میں لے لیا گیا اور انھیں رجعت پسند قرار دیا جانے لگا تھا۔یہ بجائے خود افترا تھا اگر بفرض محال خواجہ کی ہمدردیاں کسی مذہبی گروہ سے تھیں تو اس کا اردو زبان سے محبت اور نفرت سے کیا تعلق تھا۔ لسانی، صوبائی سیاست کو تنگ نظر نہیں ہونا چاہئے اور قومی ترقی سے گر وہی اور محدود مفادات کو الگ رکھنا چاہیے ۔
ابھی حال ہی میں روس کی ڈاکٹر لڈمیلہ وسیلوا نے لاہور اور کراچی دونوں مقامات پر فیض احمد فیض کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ سو ویت یونین کے سقوط کا فیض صاحب نے بہت پہلے سے خدشہ ظاہر کر دیا تھا(ظاہر ہے فیض صاحب کوئی ولی اللہ تو تھے نہیں ۔ صرف مادی جدلیاتی تناظر میں معروضی تجزیہ نگار تھے اور تاریخ کے مادی جدلیاتی تناظر میں معروضی تجزیہ کر کے جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کا اظہار کر رہے تھے )اگر خواجہ اپنے خامہ کو مہیز کر کے اس موضوع پر لگاتے تو ان کا استنباط بھی یہی ہوتا اس لئے ایک محبّ وطن کو اس تناظر میں بھی غور کرنا چاہئے کہ سقوط سو ویت یونین کے موقع پر کسی ایک فرد واحد کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی جب کہ سقوط ڈھاکہ کا المیہ جب رونما ہوا تو بر صغیر میں کہرام مچ گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی تناظر میں معیشت میں سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام میں سے عوام الناس کے مفاد میں کون سا نظام بہتر اور افضل ہے اور جس نظام میں جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے وہ کیا ہے ۔ اگر خواجہ اور خامہ دونوں اس موضوع پر حرکت میں آتے تو قولِ فیصل کس کے حق میں صادر ہوتا۔
مولانا حسرت موہانی جیسا متقی پرہیزگار اور راسخ العقیدہ(سنت والجماعت با عمل مسلمان) جب علی الاعلان خود کو کمیونسٹ کہتا تھا تو اسے مرتد اور بے دین کہنے والا کوئی فتویٰ(باز اور فتویٰ ساز اولیٰ الامر) کہا ں تھا؟ مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے صدق جدید میں میرزا یاس یگانہ چنگیزی کی مسلمہ شاعرانہ حیثیت کو خاطر میں لائے بغیر(کہ وہ بہت مشکل ثابت ہوتا تھا منکر نہیں تھا، اہل لکھنؤ کے ایک گر وہ نے اس کا حشر و نشر کیا اور اسی یاس یگانہ چنگیزی کے دیوان کے کلام بلاغت نظام کی تدوین و تہذیب کر کے خواجہ نے اہل علم کے سامنے پیش کیا تو اسے کس مقام پر رکھا جائے گا، اہل علم کے وہ ثقہ اور متدین معاصرینِ یگانہ اسے اس وقت بھی یگانہ روزگار اور شعراء میں فرد فرید مانتے تھے اور منقولات کے علی الرغم معقولات کی رو سے تعمیر فکر اور تاہل و تعقل کا معقولات سے مملو مفکر شاعر تھا( جو غالب شکن اور خرافات عزیز کے با وصف اپنا ایک نظریۂ فن رکھتا تھا اور استقامت سے اس پر ڈٹا رہتا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواجہ کا خامہ اس بدعتی کے حق میں زیادہ تھا یا اردو زبان و ادب کے ایک مسلم الثبوت استاد کے حق میں تھا اور اس سے خود خواجہ کے اعتقادات اور نظریات کی صحت میں کیا فرق پیدا ہوا۔
میرے عرض کرنے کا موقف یہ ہے کہ خواجہ اور خواجہ کا خامہ علمائے سوء سے کبھی خائف نہیں ہوا۔ علمائے حق کہ( وہ معقولات کے معروضی تدبر و تفکر سے لیس ہوتے ہیں ہمیشہ خواجہ کے حاشیہ خیال میں موجود رہے ) لکھنؤ میں یگانہ پر یہ افتاد پڑی(لکھنؤ پر کیا ٹکا ہے جذباتی اور خود سر جہلا کا یہ گر وہ کسی مقام پر بھی اشتعال میں آ سکتا ہے ) تو چند مدبرین اور مفکرین یگانہ کی تالیف قلب کے لئے کچھ پوشیدہ اور کچھ علانیہ ان سے ملتے ان میں پروفیسر احتشام حسین بھی تھے ۔ احتشام صاحب کا بیان ہے کہ انھوں نے کہا یگانہ صاحب آپ اب ان نا مساعد حالات او ر اپنے ماحول میں یہ باتیں نہ کہا کیجیئے تو جواب میں اس کلام کے بر جستہ انھوں نے کہا احتشام صاحب میں اب بھی یہ باتیں نہیں کروں گا تو پھر کب کروں گا یعنی وہ مشکک تھے ۔ اس کا ان کو احساس اور اعتراف تھا مگر ماحول نامساعد تھا۔ حال بہ ایں جارسید کہ ہمارے نام نہاد دانش ور آج تک اپنی خود ساختہ انا کے خول کے دائرے میں پوری کائنات کو اپنے دام خیال کا اسیر اور حلقہ بگوش سمجھتے ہیں اور اس ے باہر رہنے والے کو مخلوق خدا بھی نہیں گردانتے ۔ آج بھی یگانہ جیسے کافر اور زندیق کو نام نہاد دانش ورگھاس نہیں ڈالتے جبکہ یگانہ کی بصیرت اور مبلغ علم (اور معلومات کا خزانہ بہر حال افضل ہے ) اور چونکہ ان کٹھ ملاؤں کی پہنچ سے باہر ہے لہٰذا وہ لائق اعتنا نہیں رہا۔خواجہ نے (اور بیک وقت خواجہ کے قلم نے بھی) یگانہ کی اسی بصیرت اور دانش کو نمایاں کرنے کے لئے یگانہ کے دیوان کی ازسر نو تدوین کی اور تحقیق و تدقیق کا موضوع بنایا۔ گو یگانہ کی متخیلہ کی تعمیر میں جو شوخی اور شوخ چشمی کا زاویہ متعین ہوتا ہے وہ ان کے متقدمین اور معاصرین شعراء سے ذرا مختلف ہے لیکن خود یگانہ کے مزاج اور مذاق (سخن) کے اختلاف سے ان کی بصیرت اور مبلغ علم پر حرف نہیں آتا لہٰذا خواجہ نے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یگانہ کے کلام کی تدوین تن دہی سے کر ڈالی۔
جب احتشام حسین نے لکھنؤ میں یگانہ کے ساتھ نارد ا سلوک پر ان سے براہ راست یہ کہا کہ اب آپ ایسی باتیں نہ کیا کیجئے جن سے ایسے واقعات کے رونما ہونے کا احتمال ہو تو انھوں نے برجستہ کہا احتشام صاحب میں اب بھی یہ باتیں نہیں کروں گا تو پھر کب کروں گا یعنی ان کو اپنی عمرِ طبعی کا بھی احساس تھا اور اپنی تکلیف شرعی کا بھی۔ نیز لکھنؤ کے اس ناہموار معاشرے کے قوام کا بھی۔ آج بھی(بزعم خویش) ایسے افراد ہمارے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود ہیں جو اگر اپنی بصیرت پر خود غور کریں اور اس کامحاسبہ یا محاکمہ کریں (تو یگانہ کی متخیلہ بصیرت کے علی الرغم خود ان کی سوجھ بوجھ، بصیرت اور مبلغ علم یگانہ کے کلام کی تفہیم میں نابالغ نظر آئے گا ، مثلاً میر اور غالب اور یگانہ جس پیڈسٹل پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں شوخی اور شوخ چشمی سے کام لیتے ہیں وہ سوئے ادب نہیں ہے ۔علامہ اقبال نے بھی اسی بدعت حسنہ سے کام لیا ہے ۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
شاعر کا مافی الضمیر وہ نہیں ہے جو بادی النظر میں سامنے آتا ہے یعنی یگانہ خدا نہیں بنے تھے بلکہ خدا اپنی ذات میں تنہا تھا اور اس کی ذات کا عارف کوئی نہیں تھا جب انسان کو پیدا کیا تو اس کی ذات کا عرفان قائم ہوا۔ شوخی اور شوخ چشمی یہ ہے کہ ہمارے بغیر(انسان کے بغیر) نا سمجھوں کو اپنی فہم کا قصور نظر نہیں آتا، یگانہ کا نظر آتا ہے ۔ اسی بناء پر خواجہ نے تحقیق و تدقیق کے دوائر میں رہ کر یگانہ کے کلام کی تدوین کی۔ اب ایک مسئلہ خواجہ کے مذاق تحقیق کے سلسلے میں یہ ہے کہ اگر وہ خود تحقیق کے اسی دائرے میں محدود رکھتے اور اسی روش پر گامزن رہتے تو زیادہ سے زیادہ وہ اس میدان میں قاضی عبدالودود بن سکتے تھے ) جو سوشل سائنسیز کو اور ترقی پسندی( یعنی مادی جد لیا ت سے کماحقہ فیض حاصل کر نے کے قائل نہیں تھے بلکہ فرسودہ اور از کار رفتہ مذاق تحقیق تک محدود تھے ۔خواجہ نے نہ خود کو محدود کیا اور نہ اپنے مزاج اور مذاق کو مسدود رکھا بلکہ صحافت کے خار زار میں اپنے پیڈسٹل سے اتر کر(بڑے بڑے کج کلا ہوں کا) ادب کے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے محاکمہ اور محاسبہ کر ڈالا جس کی ضرورت تھی) اور یہ کام خواجہ نہیں بلکہ خامہ بگوش ہی انجام دے سکتا تھا۔
اس معاملے میں ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں دونوں کو خامہ بگوش سے ناجائز شکایتیں ہیں مگر خامہ بگوش کوکسی سے ذاتی پرخاش نہیں تھی بلکہ اخلاقیات کے دوائر سے غور کیجئے تو بھی ایک ادارہ ہے جس کے اخلاقی اقدار(ترقی یافتہ اور ترقی پذیر) معاشروں میں کارفرما ہیں ۔ چاروں چولوں سے چوکس معاشروں تک میں ذار سا بھی رخنہ پڑ جاتا ہے تو مستقبل میں بڑا بھاری خلا ظاہر ہوتا ہے ۔ دانش وری اور دیدہ وری کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ بروقت اس سے آگہی رکھی جائے (سو قوم خفتہ میں اگر کوئی فرد بشر بھی بیدار ہو) تو اس کا نوٹس لیا ہے سو خواجہ اور خامہ بگوش دونوں بیدار اور بیدار مغز ثابت ہوئے ) خواجہ اور خامہ بگوش دونوں متوازن فکر اور بصیرت کے حامل ثابت ہوئے اور افراط و تفریط جو ہمارے قومی مزاج کا طرۂ امتیاز ہے اس سے اپنے قاری کو دور رکھا۔
خواجہ نے تحقیق کے (اردو مزاج کو) فرسودہ روایت کے از کار رفتہ امور کو دور رکھا اور جدید(مغرب کے ترقی یافتہ مزاج سے ) آشنا کیا یعنی قاری کی علمی تشنگی کی جستجو کو سیر اب کرنے کی سعی جاری رکھی۔ تحقیق و تدقیق میں تنقید تجزیہ اور تحلیل کو رہبر بنایا اور جزئیات کے مراکز اور سرچشموں اور منابع کو منتشر نہیں ہونے دیا اور اس مقصد کے لئے حواشی اور شذرات کی تفسیر اور تصریح سے کام لیا اور خامہ بگوش کی حیثیت سے جس تنوع کو فکاہات میں باقی رکھا اسے ادبی استقامت بخشی اور صحافت کے سطحی اور سطحی بد مذاقی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا، یہ بجائے خود اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ خواجہ اور خامہ کا علمی اور ادبی حلقوں میں احترام اور وقار قائم ہوا جو اردو تحقیق وتدوین میں بھی باوقار رہے گی اور فکاہات میں بھی وقیع مقام کی مستحق سمجھی جائے گی۔
***
تشکر: منصف، 30 اگست 2009ء
http://www.munsifdaily.com/adab.html
 
Top