طارق شاہ
محفلین
غزل
خواجہ میر درد
دل کِس کی چشمِ مست کا سرشار ہوگیا
کِس کی نظر لگی، جو یہ بیمار ہو گیا
کچھ ہے خبر تجھے بھی، کہ اُٹھ اُٹھ کے رات کو !
عاشق تِری گلی میں کئی بار ہو گیا
بیٹھا تھا خضر آکے مِرے پاس ایک دم
گھبرا کے اپنی زیست سے بیزار ہو گیا
چاکِ جگر تو سینکڑوں خاطر میں کُچھ نہ تھے
دل کی تپش کے آگے میں ناچار ہو گیا
کھٹکی کبھی دِلوں میں نہ تیری صدا جرس
نالہ مِرا تو چُھوٹتے ہی پار ہو گیا
اے درد ہم سے یار ہے اب تو سلوک میں
خط زخمِ دل کو مرہمِ زنگار ہوگیا
خواجہ میر درد