طارق شاہ
محفلین
غزل
سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے
تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے
واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے
یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے
مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی
میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے
گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے
سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن نہیں تو ہم سے
مُشتاق گر تِرا ، کُچھ لِکھے تو کیا عجب ہے
ہوں مثلِ نرگس آنکھیں پیدا ابھی قلم سے
ہر چند، یہ تمنّا درخور کب ہمارے !
نزدیک تُو جو آوے کیا دُور ہے کَرَم سے
اب ہیں کہاں وہ نالے، سر گشتگی کِدھر ہے
تھیں سب وہ باتیں ثابت، میرے ہی دَم قدم سے
ہے اِک نِگاہ کافی، گو ہووے گاہِ گاہے
چنداں نہیں ہے مطلب، عاشِق کو بَیش و کم سے
کاہے کو ہوتی ہم کو گردش نصیب طالع
گر پاؤں اپنا باہر رکھتے نہ ہم عَدم سے
آتے ہیں دام میں کب خورشِید رُو کسی کے
اے شیخ! یہ نہیں ہیں تسبیح کے سے شم سے
ہے دردؔ پر بھی کُچھ تو میری ہی سی مُصِیبت !
گھیرے ہے اور ہی غم، چُھوٹے جو ایک غم سے
خواجہ مِیر درؔد دہلوی
1785 - 1721