خواہشِ وصلِ دائمی نہ گئی۔۔۔ ایک غزل

ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں ....
آپ تمام احباب کی آراء کا منتظر رہونگا ..
----------------------------------
خواہشِ وصلِ دائمی نہ گئی
زندگی سے یہ تِشنگی نہ گئی

شاخِ وابستگی تو سوکھ چکی
ہجر کے گل کی تازگی نہ گئی

حرف گیری سے اعتبار گیا
چشمِ حیراں تری نمی نہ گئی

ہم تلافی کریں یا کفّارہ
ایک الجھن ہے منطقی نہ گئی
ق.....
وقت کے ہم ہیں، دو کناروں پر
کب کی گزری ہوئی گھڑی نہ گئی

پاٹ دریا کا اب ہوا سیلاب
دھار بر وقت پار کی نہ گئی
.........
ظرف کاشف انہی کا ہے اعلٰی
جن کی لہجے سے عاجزی نہ گئی
سید کاشف
-----------------------------

شکریہ
 
Top