طارق شاہ
محفلین
غزل
خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے
سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے
حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار
ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے
ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال
پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے
بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل
ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے کہیں، سینہ ہی تو ہے
اچھّے بُرے سبھی رہیں اعمال سے یہاں
کِردار، شخصیت کا اِک آئِینہ ہی تو ہے
اچھّا کیے کو ، اچھّا نہ کہنا بُرا بہت!
تم نام کچھ بھی دو اِسے، یہ کِینہ ہی تو ہے
اُن سے ہمارے عِشق کی اب داستاں خلشؔ !
کہنے کو ایک قصۂ پارینہ ہی تو ہے
شفیق خلشؔ
---0---