جاسم محمد
محفلین
خوبصورت ناروے
06/08/2021 نادرہ مہرنواز
ناروے کے بارے میں میرے مضامین کا سلسلہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ سوچا آپ کو ناروے کی سیر بھی کرا دوں۔
قطعی غیر جانبداری سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناروے دنیا کے حسین ترین ملکوں میں سے ایک ہے بلکہ حسین ملکوں کی اگر لسٹ بنے تو ناروے کا نام ٹاپ پر ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ اس کا قدرتی حسن ہے۔ فطرت کو جہاں تک ممکن ہے چھیڑا نہیں گیا۔
یوں تو ناروے پورا کا پوار حسین ہے چپہ چپہ خوبصورت ہے۔ قدرت اس سر زمین پر مہربان رہی ہے۔ پہاڑ، سبزہ، دریا، سمندر، جنگل اور فیورڈز سب ہی یہاں ہے۔ لیکن کچھ جگہیں بطور خاص دیکھنے کے لائق ہیں۔ گو کہ ناروے رہنے اور گھومنے کے لیے ایک مہنگا ملک ہے لیکن اس کی منفرد خوبصورتی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور حالیہ برسوں میں ناروے میں سیاحت کی غرض سے لوگ آنا شروع ہو گئے۔ یہاں کچھ جگہوں کا ذکر ہے۔ اگر ناروے آئیں تو کوشش کریں ان میں سے کچھ ضرور دیکھ لیں۔
Lofoten
اس لسٹ میں سب سے اوپر لوفوتن ہے۔ کہتے ہیں یہ یورپ کی حسین ترین جگہ ہے۔ یہاں کئی جزیرے ہیں اور ہر ایک کی اپنی منفرد خوبصورتی ہے۔ یہاں کے قدرتی مناظر آپ کو مبہوت کر دیں گے۔ سفید ریت کے ساحل، اونچے پہاڑ، جھل مل کرتے جھرنے اور بہت سی تازہ ہوا۔ یہاں چاہیں تو ماہی گیری بھی کر سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہیں جنہیں روبویر کہتے ہیں۔ کرائے پر لیں اور سکون سے چند دن گزاریں۔
Røros
روروس ایک تاریخی جگہ ہے۔ یہاں کسی زمانے میں تانبے کی کانیں تھیں۔ اسی مناسبت سے اسے کان کنی کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں کی عمارات لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ جگہ اب یونیسکو کی تاریخی مقامات کی لسٹ پر بھی ہے۔ اس کی اصلی اور قدیمی حالت قائم رکھنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں آ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ٹائم مشین میں سفر کر کے ماضی میں پہنچ گئے ہیں۔ تاریخ آپ کے پاس سے سرگوشیاں کرتی گزر رہی ہے۔ اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی نہیں بھی ہے پھر بھی آپ اس کے گلی کوچوں میں چلتے خود کو کسی اور ہی دنیا میں پاتے ہیں۔ یہاں کی مچھلی لذیذ اور مشہور ہے۔ ایک کیبن کرائے پر لے کر شہر کی سیر کریں اور قدرت کی فیاضی کی داد دیں۔
geirangerfjord
گئیررانگر۔ یہ جگہ سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہاں ماڈرن ہوٹلز اور ریسٹورنٹز ہیں۔ اسے قدرت کا شہکار کہا جاتا ہے۔ اونچے پہاڑ اور ان پر بچھا مخملی سبزہ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ زمرد رنگ سمندر پر فیری بوٹ کا سفر ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ یہاں کے کھانے بھی مزیدار ہیں۔ کھلی فضا میں طعام کریں اور فطرت کے حسن پر واہ واہ کرتے جایں۔ یہ بھی یونیسکو کے آثار میں شامل ہے۔ یہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنا ٹرپ کسی گائیڈ سے بک کر لیں تاکہ کوئی قابل دید جگہ رہ نہ جائے۔
Trollstigen
ٹرولسٹیگن یعنی جادوئی پگڈنڈیاں۔ یہ سیاحوں کی پسندیدہ ترین جگہ ہے۔ گیئررانگر کے ٹرپ کے ساتھ آپ یہ مقام بھی دیکھ سکتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر آپ ان پر آہستگی سے ڈرائیو کریں اور دل کو سنبھالے رہیں تنگ پتلی سڑکوں کا یہ جال آپ کو چکرا سکتا ہے۔ ہر موڑ کاٹتے ہوئے پیٹ میں کھلبلی سی مچتی ہے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سوچ لیں۔ اگر آپ کو کار سک نس ہے تو رسک مت لیں۔
kjeragbolten
شے راگبولٹن۔ یہاں ایک حیرت ناک منظر آپ دیکھتے ہیں۔ دو بلند پہاڑوں کے بیچ ایک بڑا سا پتھر ٹکا ہوا ہے۔ اگر آپ کو بلندی سے ڈر نہیں لگتا تو آپ یہ ایڈوینچر ضرور کریں۔ جی دار لوگ کرتے ہیں۔ یہ بیس جمپ کرنے والوں کی دل پسند جگہ ہے۔
Preikestolen
اس کے بالکل ساتھ ہی ایک بڑی سی کرسی نما سپاٹ چٹان ہے وہ بھی ایک انوکھی چیز ہے۔ اس پر بھی لوگ چڑھتے ہیں اور دلکش نطارہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتے ہیں۔ اسی چٹان پر ٹام کروز نے اپنی فلم مشن ایمپوسیبل کے کچھ سین فلمائے۔ کچھ سین خود کیے کچھ اسٹنٹ کی مدد سے چٹان پر لٹکتے ہوئے شوٹ کیے۔ ناروے نے ٹام کروز اور ان کے کریو کی ہر ممکن مدد کی اور سہولیات فراہم کیں۔ لیکن فلم بننے کے بعد مایوسی ہوئی کی اس چٹان کو ناروے میں نہیں بلکہ انڈین کشمیر کی کوئی جگہ بتایا گیا۔ خیر پھر بھی ناروے نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ٹام کروز نے اپنی اگلی فلم کے لیے لوکیشن پھر ناروے میں ڈھونڈ لی اور شوٹنگ بھی کی اور ناروے کی مہمان نوازی سے لطف اندوز بھی ہوئے۔
Trolltunga
ٹرول ٹونگا۔ یعنی جناتی زبان۔
ناروے کے پہاڑ اور چٹانیں عجیب عجیب شکلیں اختیار کر گئی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں۔ جناتی سی زبان باہر نکلی ہوئی۔ اس پر چڑھنے کے لیے آپ کو سچ مچ نڈر ہونا پڑے گا۔ یہ دنیا کی عجیب ترین چٹانوں میں سے ہے۔ یہ بھی لوفوٹن کے پاس ہے۔ یہ سات سو میٹر لمبی ہے اور ہوا میں معلق نظر آتی ہے۔
Svalbard
سوالبارد۔ اگر آپ میں سردی برداشت کرنے کا دم ہے اور آپ کو برف اچھی لگتی ہے اور آپ فطرت کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر آپ کو برفانی ریچھ اچھے لگتے ہیں تو آپ کو سوالبارد ضرور آنا چاہیے۔ یہ جزیروں کا ایک مرکب ہے جو نارویجین سر زمین اور قطب شمالی کے درمیان ہے۔ اگر آپ برفانی ریچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو گائیڈ اس کا انتظام کر سکتا ہے۔ لیکن ریچھ کو گلے لگانے کی خواہش مت کیجیئے گا۔
جھیلوں ہی جھیلیں۔
یوں تو فن لینڈ کے سر یہ تاج باندھا جاتا ہے کہ وہ جھیلوں کا ملک ہے۔ وہاں کوئی ساٹھ ہزار کے قریب جھیلیں ہیں۔ لیکن ناروے اسے با آسانی مات دے سکتا ہے کیونکہ ناروے میں ایک لاکھ سے سے بھی زائد جھیلیں ہیں۔ سب قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔ اور یہی نہیں دنیا کی عمیق ترین جھیل بھی ناروے میں ہی ہے۔
اس علاوہ دنیا کی طویل ترین ٹنل بھی ناروے میں ہی ہے پورے ساڑھے چوبیس کلومیٹر۔ اس میں تین رنگوں کے الگ الگ غار ہیں جو جدا راستوں پر جاتے ہیں۔ ڈرائیور کا دل گھبراتا نہیں اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پوری ٹنل کراس کرنے میں بیس منٹ لگتے ہیں۔
Agder
آگدر
فطرت کی فیاضی دیکھنی ہو تو اگدار اور دوویر کا رخ کریں۔ رینڈیرز کے غول کے غول آتے جاتے دکھائی دیں گے۔ لگے گا آپ انیمل ورلڈ کا کوئی ایپیسوڈ لایؤ دیکھ رہے ہیں۔ تصور کی آنکھ سے دیکھیں وہیں کہیں ہو سکتا ہے آپ کو سانٹا کلاوز بھی اپنے رتھ پر سوار مل جائے۔
Aurora and mid-night sun.
حیرت کدے میں داخل ہونے کا شوق ہو تو شمالی روشنیاں یعنی آرورا اور آدھی رات کا سورج یعنی مڈ نائٹ سن دیکھنے کا رسک بھی لے سکتے ہیں۔ رسک اس لیے کہ یہ نظارے موسم کے تعاون کے مرہون منت ہیں۔ موسم بارانی ہو یا ابرآلود تو شاید کچھ نظر نہیں آئے گا۔
northern lights
قطبی روشنیاں
آرورا یعنی قطبی روشنیاں کسی جادو سے کم نہیں۔ جب تک دیکھیں نہیں یقین نہیں آتا اور دیکھ لینے کے بعد بھی مبہوت رہتے ہیں کہ کیا یہ سچ مچ کا منظر تھا یا کوئی طلسم؟ جب سورج سے گیس کے طاقتور ذرات خارج ہو کر زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکراتے ہیں تو سورج کے ان ذرات کی وجہ سے زمین کی فضا میں موجود گیسوں کے مالیکیول چمکنے لگتے ہیں اور یہ جھل مل ہوتی ہے۔ دیکھنے والے ایک سرشاری کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔ اس دید کے شوق میں لوگ شدید سردی میں کئی راتیں گزار دیتے ہیں۔ یوں تو آرورا کے درشن کا کوئی وقت یا کوئی مخصوص مقام نہیں لیکن شہر ترمسو میں اس کے دیکھے جانے کا امکانات بہت ہیں۔ بس موسم صاف ہو۔
آدھی رات کا سورج
ناروے کو آدھی رات کے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے آپ نے بھی یہ سن رکھا ہوگا۔ یہ ہے کیا؟ ایسا نہیں ہے کہ سیاہ رات چھائی ہوئی ہے اور اچانک کہیں سے سورج نکل آیا۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا سا منظر دکھائی دینے لگے۔ بات کچھ یوں ہے کہ آدھی رات کا سورج اس وقت کو کہتے ہیں جب افق پر سورج چھایا رہے۔ اور غروب نہ ہو۔ آب و تاب سے نہ بھی چمکے تو ٹمٹاتا سا ضرور رہتا ہے۔ ناروے میں آپ یہ منطر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ٹرومسو سے ذرا دور جار ایک جگہ ہے نور کاپ وہاں سورج لگاتار اٹھارہ سو گھنٹے طلوع رہتا ہے۔ دن لمبے ہیں بلکہ دن ہی دن ہیں۔ دن کو تقسیم کر دیا جاتا ہے کہ اب صبح ہے اب شام۔ ایسا موسم گرما میں ہوتا ہے۔ علاقے کے لوگ اپنے کام کاج گھڑی دیکھ کر کرتے ہیں۔ گھڑی میں اگر نو بجے ہیں تو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ صبح کے نو ہیں یا رات کے۔ کھڑکیوں پر سیاہ پردے ڈال کر رات کی سی کیفیت بنائی جاتی ہے۔ یہ کیفیت چند دن رہتی ہے پھر آہستہ آہستہ دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں۔ موسم سرما میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اندھیرا اور لمبی سیاہ راتیں۔ اس علاقے کی سیر کرنا چاہیں تو اس کا انتظام ہے۔ لگژری کروز بھی ہیں۔ ہوٹلز بھی اور گائیڈز بھی۔
اگر آپ کو اس کی سے رغبت ہے تو اس کے لیے ناروے کے پہاڑوں سے زیادہ بہتر جگہ دنیا میں کہیں نہیں۔ یہاں بچہ بچہ اس کی کرنا جانتا ہے۔ سکھانے والے بھی ضرور مل جایں گے۔ اسنو بورڈ کے لیے بھی برفوں کے ڈھیر ہیں۔
ناروے میں چوبیس لاکھ جزیرے ہیں اور اس کی ساحلی پٹی ایک لاکھ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
آمد و رفت کے کئی ذرائع ہیں۔ جہاز لیجیے، ٹرین پکڑیئے، بس پر چڑھیے، فیری بوٹ پر سوار ہو جایئے یا خود ڈرائیو کیجیئے۔ راستے اور سڑکیں عمدہ اور محفوظ ہیں۔ ہر طرح کا سفر بذات خود ایک حیران کن اور پر لطف تجربہ ہے۔ ہر کچھ فاصلے پر گیس اسٹیشنز ہیں کافی شاپس بھی ہیں۔ سینڈوچ بھی مل جائیں گے۔
تو جناب توفیق ہو تو جیون میں ایک بار ناروے ضرور آئیے۔ ملک تو حسین ہے ہی لوگ بھی اچھے ہیں دنیا کے ”ہیپی پیپل“ کی لسٹ میں ناروے بھی شامل ہے۔ صاف پانی، صاف ہوا اور صاف ستھری جگہیں اور ٹورازم کے لیے محفوظ بھی ہے۔ کرائم ریٹ بہت کم ہے۔ بس تو پھر آ جائیے۔
06/08/2021 نادرہ مہرنواز
ناروے کے بارے میں میرے مضامین کا سلسلہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ سوچا آپ کو ناروے کی سیر بھی کرا دوں۔
قطعی غیر جانبداری سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناروے دنیا کے حسین ترین ملکوں میں سے ایک ہے بلکہ حسین ملکوں کی اگر لسٹ بنے تو ناروے کا نام ٹاپ پر ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ اس کا قدرتی حسن ہے۔ فطرت کو جہاں تک ممکن ہے چھیڑا نہیں گیا۔
یوں تو ناروے پورا کا پوار حسین ہے چپہ چپہ خوبصورت ہے۔ قدرت اس سر زمین پر مہربان رہی ہے۔ پہاڑ، سبزہ، دریا، سمندر، جنگل اور فیورڈز سب ہی یہاں ہے۔ لیکن کچھ جگہیں بطور خاص دیکھنے کے لائق ہیں۔ گو کہ ناروے رہنے اور گھومنے کے لیے ایک مہنگا ملک ہے لیکن اس کی منفرد خوبصورتی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور حالیہ برسوں میں ناروے میں سیاحت کی غرض سے لوگ آنا شروع ہو گئے۔ یہاں کچھ جگہوں کا ذکر ہے۔ اگر ناروے آئیں تو کوشش کریں ان میں سے کچھ ضرور دیکھ لیں۔
Lofoten
اس لسٹ میں سب سے اوپر لوفوتن ہے۔ کہتے ہیں یہ یورپ کی حسین ترین جگہ ہے۔ یہاں کئی جزیرے ہیں اور ہر ایک کی اپنی منفرد خوبصورتی ہے۔ یہاں کے قدرتی مناظر آپ کو مبہوت کر دیں گے۔ سفید ریت کے ساحل، اونچے پہاڑ، جھل مل کرتے جھرنے اور بہت سی تازہ ہوا۔ یہاں چاہیں تو ماہی گیری بھی کر سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہیں جنہیں روبویر کہتے ہیں۔ کرائے پر لیں اور سکون سے چند دن گزاریں۔
Røros
روروس ایک تاریخی جگہ ہے۔ یہاں کسی زمانے میں تانبے کی کانیں تھیں۔ اسی مناسبت سے اسے کان کنی کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں کی عمارات لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ جگہ اب یونیسکو کی تاریخی مقامات کی لسٹ پر بھی ہے۔ اس کی اصلی اور قدیمی حالت قائم رکھنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں آ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ٹائم مشین میں سفر کر کے ماضی میں پہنچ گئے ہیں۔ تاریخ آپ کے پاس سے سرگوشیاں کرتی گزر رہی ہے۔ اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی نہیں بھی ہے پھر بھی آپ اس کے گلی کوچوں میں چلتے خود کو کسی اور ہی دنیا میں پاتے ہیں۔ یہاں کی مچھلی لذیذ اور مشہور ہے۔ ایک کیبن کرائے پر لے کر شہر کی سیر کریں اور قدرت کی فیاضی کی داد دیں۔
geirangerfjord
گئیررانگر۔ یہ جگہ سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہاں ماڈرن ہوٹلز اور ریسٹورنٹز ہیں۔ اسے قدرت کا شہکار کہا جاتا ہے۔ اونچے پہاڑ اور ان پر بچھا مخملی سبزہ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ زمرد رنگ سمندر پر فیری بوٹ کا سفر ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ یہاں کے کھانے بھی مزیدار ہیں۔ کھلی فضا میں طعام کریں اور فطرت کے حسن پر واہ واہ کرتے جایں۔ یہ بھی یونیسکو کے آثار میں شامل ہے۔ یہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنا ٹرپ کسی گائیڈ سے بک کر لیں تاکہ کوئی قابل دید جگہ رہ نہ جائے۔
Trollstigen
ٹرولسٹیگن یعنی جادوئی پگڈنڈیاں۔ یہ سیاحوں کی پسندیدہ ترین جگہ ہے۔ گیئررانگر کے ٹرپ کے ساتھ آپ یہ مقام بھی دیکھ سکتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر آپ ان پر آہستگی سے ڈرائیو کریں اور دل کو سنبھالے رہیں تنگ پتلی سڑکوں کا یہ جال آپ کو چکرا سکتا ہے۔ ہر موڑ کاٹتے ہوئے پیٹ میں کھلبلی سی مچتی ہے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سوچ لیں۔ اگر آپ کو کار سک نس ہے تو رسک مت لیں۔
kjeragbolten
شے راگبولٹن۔ یہاں ایک حیرت ناک منظر آپ دیکھتے ہیں۔ دو بلند پہاڑوں کے بیچ ایک بڑا سا پتھر ٹکا ہوا ہے۔ اگر آپ کو بلندی سے ڈر نہیں لگتا تو آپ یہ ایڈوینچر ضرور کریں۔ جی دار لوگ کرتے ہیں۔ یہ بیس جمپ کرنے والوں کی دل پسند جگہ ہے۔
Preikestolen
اس کے بالکل ساتھ ہی ایک بڑی سی کرسی نما سپاٹ چٹان ہے وہ بھی ایک انوکھی چیز ہے۔ اس پر بھی لوگ چڑھتے ہیں اور دلکش نطارہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتے ہیں۔ اسی چٹان پر ٹام کروز نے اپنی فلم مشن ایمپوسیبل کے کچھ سین فلمائے۔ کچھ سین خود کیے کچھ اسٹنٹ کی مدد سے چٹان پر لٹکتے ہوئے شوٹ کیے۔ ناروے نے ٹام کروز اور ان کے کریو کی ہر ممکن مدد کی اور سہولیات فراہم کیں۔ لیکن فلم بننے کے بعد مایوسی ہوئی کی اس چٹان کو ناروے میں نہیں بلکہ انڈین کشمیر کی کوئی جگہ بتایا گیا۔ خیر پھر بھی ناروے نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ٹام کروز نے اپنی اگلی فلم کے لیے لوکیشن پھر ناروے میں ڈھونڈ لی اور شوٹنگ بھی کی اور ناروے کی مہمان نوازی سے لطف اندوز بھی ہوئے۔
Trolltunga
ٹرول ٹونگا۔ یعنی جناتی زبان۔
ناروے کے پہاڑ اور چٹانیں عجیب عجیب شکلیں اختیار کر گئی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں۔ جناتی سی زبان باہر نکلی ہوئی۔ اس پر چڑھنے کے لیے آپ کو سچ مچ نڈر ہونا پڑے گا۔ یہ دنیا کی عجیب ترین چٹانوں میں سے ہے۔ یہ بھی لوفوٹن کے پاس ہے۔ یہ سات سو میٹر لمبی ہے اور ہوا میں معلق نظر آتی ہے۔
Svalbard
سوالبارد۔ اگر آپ میں سردی برداشت کرنے کا دم ہے اور آپ کو برف اچھی لگتی ہے اور آپ فطرت کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر آپ کو برفانی ریچھ اچھے لگتے ہیں تو آپ کو سوالبارد ضرور آنا چاہیے۔ یہ جزیروں کا ایک مرکب ہے جو نارویجین سر زمین اور قطب شمالی کے درمیان ہے۔ اگر آپ برفانی ریچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو گائیڈ اس کا انتظام کر سکتا ہے۔ لیکن ریچھ کو گلے لگانے کی خواہش مت کیجیئے گا۔
جھیلوں ہی جھیلیں۔
یوں تو فن لینڈ کے سر یہ تاج باندھا جاتا ہے کہ وہ جھیلوں کا ملک ہے۔ وہاں کوئی ساٹھ ہزار کے قریب جھیلیں ہیں۔ لیکن ناروے اسے با آسانی مات دے سکتا ہے کیونکہ ناروے میں ایک لاکھ سے سے بھی زائد جھیلیں ہیں۔ سب قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔ اور یہی نہیں دنیا کی عمیق ترین جھیل بھی ناروے میں ہی ہے۔
اس علاوہ دنیا کی طویل ترین ٹنل بھی ناروے میں ہی ہے پورے ساڑھے چوبیس کلومیٹر۔ اس میں تین رنگوں کے الگ الگ غار ہیں جو جدا راستوں پر جاتے ہیں۔ ڈرائیور کا دل گھبراتا نہیں اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پوری ٹنل کراس کرنے میں بیس منٹ لگتے ہیں۔
Agder
آگدر
فطرت کی فیاضی دیکھنی ہو تو اگدار اور دوویر کا رخ کریں۔ رینڈیرز کے غول کے غول آتے جاتے دکھائی دیں گے۔ لگے گا آپ انیمل ورلڈ کا کوئی ایپیسوڈ لایؤ دیکھ رہے ہیں۔ تصور کی آنکھ سے دیکھیں وہیں کہیں ہو سکتا ہے آپ کو سانٹا کلاوز بھی اپنے رتھ پر سوار مل جائے۔
Aurora and mid-night sun.
حیرت کدے میں داخل ہونے کا شوق ہو تو شمالی روشنیاں یعنی آرورا اور آدھی رات کا سورج یعنی مڈ نائٹ سن دیکھنے کا رسک بھی لے سکتے ہیں۔ رسک اس لیے کہ یہ نظارے موسم کے تعاون کے مرہون منت ہیں۔ موسم بارانی ہو یا ابرآلود تو شاید کچھ نظر نہیں آئے گا۔
northern lights
قطبی روشنیاں
آرورا یعنی قطبی روشنیاں کسی جادو سے کم نہیں۔ جب تک دیکھیں نہیں یقین نہیں آتا اور دیکھ لینے کے بعد بھی مبہوت رہتے ہیں کہ کیا یہ سچ مچ کا منظر تھا یا کوئی طلسم؟ جب سورج سے گیس کے طاقتور ذرات خارج ہو کر زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکراتے ہیں تو سورج کے ان ذرات کی وجہ سے زمین کی فضا میں موجود گیسوں کے مالیکیول چمکنے لگتے ہیں اور یہ جھل مل ہوتی ہے۔ دیکھنے والے ایک سرشاری کی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔ اس دید کے شوق میں لوگ شدید سردی میں کئی راتیں گزار دیتے ہیں۔ یوں تو آرورا کے درشن کا کوئی وقت یا کوئی مخصوص مقام نہیں لیکن شہر ترمسو میں اس کے دیکھے جانے کا امکانات بہت ہیں۔ بس موسم صاف ہو۔
آدھی رات کا سورج
ناروے کو آدھی رات کے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے آپ نے بھی یہ سن رکھا ہوگا۔ یہ ہے کیا؟ ایسا نہیں ہے کہ سیاہ رات چھائی ہوئی ہے اور اچانک کہیں سے سورج نکل آیا۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا سا منظر دکھائی دینے لگے۔ بات کچھ یوں ہے کہ آدھی رات کا سورج اس وقت کو کہتے ہیں جب افق پر سورج چھایا رہے۔ اور غروب نہ ہو۔ آب و تاب سے نہ بھی چمکے تو ٹمٹاتا سا ضرور رہتا ہے۔ ناروے میں آپ یہ منطر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ٹرومسو سے ذرا دور جار ایک جگہ ہے نور کاپ وہاں سورج لگاتار اٹھارہ سو گھنٹے طلوع رہتا ہے۔ دن لمبے ہیں بلکہ دن ہی دن ہیں۔ دن کو تقسیم کر دیا جاتا ہے کہ اب صبح ہے اب شام۔ ایسا موسم گرما میں ہوتا ہے۔ علاقے کے لوگ اپنے کام کاج گھڑی دیکھ کر کرتے ہیں۔ گھڑی میں اگر نو بجے ہیں تو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ صبح کے نو ہیں یا رات کے۔ کھڑکیوں پر سیاہ پردے ڈال کر رات کی سی کیفیت بنائی جاتی ہے۔ یہ کیفیت چند دن رہتی ہے پھر آہستہ آہستہ دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں۔ موسم سرما میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اندھیرا اور لمبی سیاہ راتیں۔ اس علاقے کی سیر کرنا چاہیں تو اس کا انتظام ہے۔ لگژری کروز بھی ہیں۔ ہوٹلز بھی اور گائیڈز بھی۔
اگر آپ کو اس کی سے رغبت ہے تو اس کے لیے ناروے کے پہاڑوں سے زیادہ بہتر جگہ دنیا میں کہیں نہیں۔ یہاں بچہ بچہ اس کی کرنا جانتا ہے۔ سکھانے والے بھی ضرور مل جایں گے۔ اسنو بورڈ کے لیے بھی برفوں کے ڈھیر ہیں۔
ناروے میں چوبیس لاکھ جزیرے ہیں اور اس کی ساحلی پٹی ایک لاکھ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
آمد و رفت کے کئی ذرائع ہیں۔ جہاز لیجیے، ٹرین پکڑیئے، بس پر چڑھیے، فیری بوٹ پر سوار ہو جایئے یا خود ڈرائیو کیجیئے۔ راستے اور سڑکیں عمدہ اور محفوظ ہیں۔ ہر طرح کا سفر بذات خود ایک حیران کن اور پر لطف تجربہ ہے۔ ہر کچھ فاصلے پر گیس اسٹیشنز ہیں کافی شاپس بھی ہیں۔ سینڈوچ بھی مل جائیں گے۔
تو جناب توفیق ہو تو جیون میں ایک بار ناروے ضرور آئیے۔ ملک تو حسین ہے ہی لوگ بھی اچھے ہیں دنیا کے ”ہیپی پیپل“ کی لسٹ میں ناروے بھی شامل ہے۔ صاف پانی، صاف ہوا اور صاف ستھری جگہیں اور ٹورازم کے لیے محفوظ بھی ہے۔ کرائم ریٹ بہت کم ہے۔ بس تو پھر آ جائیے۔