خوب ہوتا : برائے اصلاح

میرے دفتر کے ایک ساتھی اشرف جہانگیر نے اپنی غزل اصلاح کے لیے پیش کرنے کا کہا تھا۔ تعمیل کررہا ہوں۔


خوب ہوتا کہ تو مِرا بنتا
میرے دل کا تو آسرا بنتا

شکر ہے موت کی سی ہے نعمت
ورنہ میرا نجانے کیا بنتا

پھر تو تیرے وجود میں رہتا
پھول تو اور میں صبا بنتا

گھیر لیتے جہاں تمہیں جنگل
میں نکلنے کا راستہ بنتا

جب تو آتا رقیب سے ملکر
تیرے زخموں کی میں دوا بنتا

جب تیرا دل اداس ہو جاتا
ایک منظر میں دلکشا بنتا

چھوڑجاتی جہاں مجھے دنیا
تو وہاں میرا آسرا بنتا

آہ! صد آہ! کاش دنیا میں
میں ہی اک تیرا آشنا بنتا

دل ترا جبکہ غم سے بھر جاتا
تیرے ہونٹوں کی میں صدا بنتا

ساتھ ہوتا وہ آج تو اشرف
ایک نغمہِ دل رُبا بنتا​
 

الف عین

لائبریرین
غزل اچھی ہے عمار، ذرا کطلع بدلنے کا کہو، اس میں ’ایطا‘ ہے۔ یعنی دونوں مصرعوں کے قافیوں میں ’را‘ مشترک ہے، جب کہ دوسرے قافیوں میں محض ’ا‘ (حرفِ روی(
دوسرے اشعار میں ایک آدھ جگہ ’تیرا‘ کی جگہ ‘ترا‘ کا محل ہے تقطیع کے لحاظ سے
مقطع میں ’نغمائے‘ تقطیع میں آتا ہے، نغمہء نہیں۔
یہ مختصرآ، باقی کہو تو اور بغور دیکھوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل اچھی ہے عمار، اشرف صاحب کی، اچھے اشعار ہیں!

مطلع اور نغمہ کے بارے میں مجھے بھی اعجاز صاحب سے اتفاق ہے۔

ویسے کیا خیال ہے اگر ردیف 'بنتا' کی بجائے 'ہوتا' ہوتی، کافی سارے اشعار میں بلا تکلف بدلی جا سکتی ہے، خیر یہ میری ذاتی رائے ہے۔
 
مطلع میں تبدیلی ملاحظہ ہو:

خوب ہوتا کہ تُو مِرا بنتا
میرے دل کا تُو آئینہ بنتا​

مقطع میں بہتری:

ساتھ ہوتا وہ آج تو اشرف
ایک نغمہ کہ دل رُبا بنتا​
 

الف عین

لائبریرین
اس سے بہتری آ گئی ہے، لیکن ان اشعار میں
جب تیرا دل اداس ہو جاتا
ایک منظر میں دلکشا بنتا

/// ’جب ترا‘ تقطیع میں آتا ہے.

آہ! صد آہ! کاش دنیا میں
میں ہی اک تیرا آشنا بنتا

‘آہ صد آہ‘ کی ضرورت؟
اس کو یوں کہیں تو؟
چھوڑ جاتے سبھی اسے جس وقت
کاش اک میں ہی آشنا بنتا
یہی مضمون اور طرح بھی ممکن ہے، کچھ سوچیں اس سلسلے میں.
 

مغزل

محفلین
بہت خوب جناب ، اشرف صاحب کو میری جانب سے مبارکباد ، آپ کا شکریہ پیش کرنے کو ، باقی سب باتیں ہوچکی ہیں۔
 
Top