عمار ابن ضیا
محفلین
میرے دفتر کے ایک ساتھی اشرف جہانگیر نے اپنی غزل اصلاح کے لیے پیش کرنے کا کہا تھا۔ تعمیل کررہا ہوں۔
خوب ہوتا کہ تو مِرا بنتا
میرے دل کا تو آسرا بنتا
شکر ہے موت کی سی ہے نعمت
ورنہ میرا نجانے کیا بنتا
پھر تو تیرے وجود میں رہتا
پھول تو اور میں صبا بنتا
گھیر لیتے جہاں تمہیں جنگل
میں نکلنے کا راستہ بنتا
جب تو آتا رقیب سے ملکر
تیرے زخموں کی میں دوا بنتا
جب تیرا دل اداس ہو جاتا
ایک منظر میں دلکشا بنتا
چھوڑجاتی جہاں مجھے دنیا
تو وہاں میرا آسرا بنتا
آہ! صد آہ! کاش دنیا میں
میں ہی اک تیرا آشنا بنتا
دل ترا جبکہ غم سے بھر جاتا
تیرے ہونٹوں کی میں صدا بنتا
ساتھ ہوتا وہ آج تو اشرف
ایک نغمہِ دل رُبا بنتا
میرے دل کا تو آسرا بنتا
شکر ہے موت کی سی ہے نعمت
ورنہ میرا نجانے کیا بنتا
پھر تو تیرے وجود میں رہتا
پھول تو اور میں صبا بنتا
گھیر لیتے جہاں تمہیں جنگل
میں نکلنے کا راستہ بنتا
جب تو آتا رقیب سے ملکر
تیرے زخموں کی میں دوا بنتا
جب تیرا دل اداس ہو جاتا
ایک منظر میں دلکشا بنتا
چھوڑجاتی جہاں مجھے دنیا
تو وہاں میرا آسرا بنتا
آہ! صد آہ! کاش دنیا میں
میں ہی اک تیرا آشنا بنتا
دل ترا جبکہ غم سے بھر جاتا
تیرے ہونٹوں کی میں صدا بنتا
ساتھ ہوتا وہ آج تو اشرف
ایک نغمہِ دل رُبا بنتا