صائمہ رمضان
محفلین
کہتے ہیں کہ انسان اپنا بہترین دوست خود ہوتا ہے اور اپنا دشمن بھی خود، اگر وہ اپنی ذات کے ساتھ مخلص ہے تو اپنا سچا اور نایاب دوست کہلاتا ہے اور اگر وہ خود اپنی ذات کے ساتھ مخلص نہیں ہے تو پھر اُسے کسی اور دشمن کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ خود اپنے اندر ایک دشمن کو پال رہا ہوتا ہے۔ ایک انسان بہترین انسان تب بنتا ہے جب وہ خود سے وفا کرے خواہ اُسے زمانہ بے وفا ہی کیوں نہ کہے جو شخص خود سے وفا نہ کرتا ہو وہ دوسروں سے کیا وفا کرے گا یا دوسروں سے کیسے وفا کی امید کر سکتا ہے جبکہ وہ خود سے بے وفائی اور مکر وفریب کرتا ہو۔ جب تک کوئی شخص اپنی عزتِ نفس کا خیال نہیں رکھتا کوئی دوسرا بھی اُس کی عزت نہیں کرتا، جس شخص کا اپنی نظروں میں ہی خود کا مقام بہت چھوٹا ہوگا اور وہ خود کو ناکارہ اور حقیر سمجھے گا تو پھر دنیا کی نظروں میں اس کا وقار و مرتبہ کیا ہوگا! خود پر یقین انسان کو اعتماد دلاتا ہے کہ وہ اعلیٰ ہے بلند تر ہے خدا نے اُسے ایک نایاب مخلوق کی صورت عطا کی ہے، وہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہو سکتا ہے جس کا اختیار اسے حاصل ہو، اپنے آپ کی قدر و قیمت ہی انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ بہت عظیم ہے اور وہ اپنا لوہا منوا سکتا ہے۔
وہ اپنی صلاحیتوں کو جاننے کے بعد ہی دنیا میں انقلاب لا سکتا ہے دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے خدا نے کوئی نہ کوئی ہنر عطا نہ کیا ہو۔ غریب وامیر، مردو عورت سب کو اللہ نے صلاحیتیں بخشی ہیں ضرورت اس امر کی ہے انسان اپنی عقل و فہم سے اس جوہر کو تلاش کرے پھر اُسے استعمال کرتے ہوئے دنیا میں اپنا مقام پیدا کرے،اگر انسان خود کو کسی کام کے لائق نہیں سمجھتا تو وہ خود سے جھوٹ بولتا ہے اور اپنے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔ خدا نے سب کو ذہن دیا ہے کوئی اسے استعمال کرکے بلند مقام و مرتبہ حاصل کرتا ہے تو کوئی اسے استعمال نہ کرکے زنگ آلود لوہے کی مانند بنا ڈالتا ہے جس سے خود کو بھی نقصان اور شاید دوسروں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں انسان خود سے ہی جنگ کرتا ہےاور خود ہی شکست کھاتا ہے یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں وہ خود کو مات دے کر جیتنا چاہتا ہے خود سے بے وفائی کا یہ خوب طریقہ ہے ایسے میں کسی دوسرے کی بے وفائی تو بہت معمولی ٹھہرے گی۔
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل! کہ توُ
قطرہ لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
انسان اپنی تقدیر خود لکھتا ہے کسی نے کہا ہے کہ غریب پیدا ہونا آپ کا قصور نہیں ہے لیکن غریب مر جانا آپ کا قصور ہے۔ خدا نے انسان کو جو زندگی عطا کی ہے اُسے گزارنے کے لئے اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارے یہ فرد نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اُسی حال میں مرنا ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا یا پھر خدادا صلاحیتوں کو استعمال کرکے کسی الگ پہچان کے ساتھ اس دنیا سے جانا ہے۔ یہ دنیا جب سے قائم ہے اس میں بے شمار لوگ آئے اور چلے گئے مگر کچھ لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو نعمت سمجھ کر صِرف گزار نہیں دیا بلکہ وہ عظیم کارنامہ ہائے سرانجام دئیے کہ ان کے نام رہتی دنیا تک امر ہوگئے،یہی وہ لوگ تھے جو خود اپنے آپ کے اچھے دوست تھے اُنہوں نے اپنے آپ کے ساتھ وفا کی اور اس کا صلہ بھی انہیں مل گیا۔
لوگوں کی بدحالی، غفلت اور جہالت کی وجہ ان کی قسمت یا معاشرہ نہیں بلکہ وہ خود ہیں جو اپنے آپ کو اُس خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کرنا چاہتے، وہ خوابِ غفلت میں یوں مگن ہیں کہ انہیں جاگنے کا ہوش ہی باقی نہیں رہا، انسان جب اپنی قیمت سے آشنا ہو تو اس کو بہتر مواقع ملتے ہیں۔ زندگی میں مشکلات اور دشواریاں، انسان کو مزید نکھار بخشتی ہیں جیسے لوہا آگ میں پگھل جانے کے بعد کندن ہوجاتا ہے اسی طرح فرد سختیا ں جھیل کر ایک نایاب ہیرا بن جاتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ انسان جب کسی منزل کا تعین کرکے چل نکلتا ہے تو راستے میں جو بھی مشکلات آئیں ان سے نمٹنا پڑتا ہے اس کی مثال ایک درخت کی سی ہے کہ اگر اس کا پھل کھانے کی خواہش ہے تو اس کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی ، اسے بروقت پانی اور کھاد دینا پڑتے ہیں اس کے لئے کئی جتن کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر یہ محنت کسی اور نے کی ہے تو اس کا پھل بھی وہی کھائے گا، آپ کو تو نہیں مل سکتا آپ کو تو اپنی محنت کا صلہ ملے گا اگر لالچ کریں گے تو انجام اُس بیوقوف کتے کی طرح ہوگا جس نے لالچ میں آکر اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا تھا۔
اس لیے خود پر رحم کرنا سیکھیں ورنہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا، وقت کی قدر کرکے اس کو اچھے کاموں میں صَرف کریں ، خود کو جہالت کی دلدل سے نکالیں کیونکہ باہر سے کوئی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا جب تک آپ خود اپنی مدد آپ نہیں کریں گے۔
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی توُ، رہبر بھی تو، منزل بھی تُو
یہی تحریر میرے بلاگ پر
میری یہ تحریر ماہنامہ نوائے منزل لاہور میں جنوری 2017ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے
وہ اپنی صلاحیتوں کو جاننے کے بعد ہی دنیا میں انقلاب لا سکتا ہے دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے خدا نے کوئی نہ کوئی ہنر عطا نہ کیا ہو۔ غریب وامیر، مردو عورت سب کو اللہ نے صلاحیتیں بخشی ہیں ضرورت اس امر کی ہے انسان اپنی عقل و فہم سے اس جوہر کو تلاش کرے پھر اُسے استعمال کرتے ہوئے دنیا میں اپنا مقام پیدا کرے،اگر انسان خود کو کسی کام کے لائق نہیں سمجھتا تو وہ خود سے جھوٹ بولتا ہے اور اپنے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔ خدا نے سب کو ذہن دیا ہے کوئی اسے استعمال کرکے بلند مقام و مرتبہ حاصل کرتا ہے تو کوئی اسے استعمال نہ کرکے زنگ آلود لوہے کی مانند بنا ڈالتا ہے جس سے خود کو بھی نقصان اور شاید دوسروں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں انسان خود سے ہی جنگ کرتا ہےاور خود ہی شکست کھاتا ہے یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں وہ خود کو مات دے کر جیتنا چاہتا ہے خود سے بے وفائی کا یہ خوب طریقہ ہے ایسے میں کسی دوسرے کی بے وفائی تو بہت معمولی ٹھہرے گی۔
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل! کہ توُ
قطرہ لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
انسان اپنی تقدیر خود لکھتا ہے کسی نے کہا ہے کہ غریب پیدا ہونا آپ کا قصور نہیں ہے لیکن غریب مر جانا آپ کا قصور ہے۔ خدا نے انسان کو جو زندگی عطا کی ہے اُسے گزارنے کے لئے اختیار بھی دیا ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارے یہ فرد نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اُسی حال میں مرنا ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا یا پھر خدادا صلاحیتوں کو استعمال کرکے کسی الگ پہچان کے ساتھ اس دنیا سے جانا ہے۔ یہ دنیا جب سے قائم ہے اس میں بے شمار لوگ آئے اور چلے گئے مگر کچھ لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو نعمت سمجھ کر صِرف گزار نہیں دیا بلکہ وہ عظیم کارنامہ ہائے سرانجام دئیے کہ ان کے نام رہتی دنیا تک امر ہوگئے،یہی وہ لوگ تھے جو خود اپنے آپ کے اچھے دوست تھے اُنہوں نے اپنے آپ کے ساتھ وفا کی اور اس کا صلہ بھی انہیں مل گیا۔
لوگوں کی بدحالی، غفلت اور جہالت کی وجہ ان کی قسمت یا معاشرہ نہیں بلکہ وہ خود ہیں جو اپنے آپ کو اُس خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کرنا چاہتے، وہ خوابِ غفلت میں یوں مگن ہیں کہ انہیں جاگنے کا ہوش ہی باقی نہیں رہا، انسان جب اپنی قیمت سے آشنا ہو تو اس کو بہتر مواقع ملتے ہیں۔ زندگی میں مشکلات اور دشواریاں، انسان کو مزید نکھار بخشتی ہیں جیسے لوہا آگ میں پگھل جانے کے بعد کندن ہوجاتا ہے اسی طرح فرد سختیا ں جھیل کر ایک نایاب ہیرا بن جاتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ انسان جب کسی منزل کا تعین کرکے چل نکلتا ہے تو راستے میں جو بھی مشکلات آئیں ان سے نمٹنا پڑتا ہے اس کی مثال ایک درخت کی سی ہے کہ اگر اس کا پھل کھانے کی خواہش ہے تو اس کی دیکھ بھال کرنا پڑے گی ، اسے بروقت پانی اور کھاد دینا پڑتے ہیں اس کے لئے کئی جتن کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر یہ محنت کسی اور نے کی ہے تو اس کا پھل بھی وہی کھائے گا، آپ کو تو نہیں مل سکتا آپ کو تو اپنی محنت کا صلہ ملے گا اگر لالچ کریں گے تو انجام اُس بیوقوف کتے کی طرح ہوگا جس نے لالچ میں آکر اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا تھا۔
اس لیے خود پر رحم کرنا سیکھیں ورنہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا، وقت کی قدر کرکے اس کو اچھے کاموں میں صَرف کریں ، خود کو جہالت کی دلدل سے نکالیں کیونکہ باہر سے کوئی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا جب تک آپ خود اپنی مدد آپ نہیں کریں گے۔
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی توُ، رہبر بھی تو، منزل بھی تُو
یہی تحریر میرے بلاگ پر
میری یہ تحریر ماہنامہ نوائے منزل لاہور میں جنوری 2017ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے