خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے:: از :: محمد حفیظ الرحمٰن

خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے

جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے

وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے

لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے

سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے

بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے

محمد حفیظ الرحمٰن​
 

Pervez Baqi

محفلین
حفیظ صاحب بہت کم کہتے ہیں لیکن جو کہتے ہیں پڑھ کر بے اختیار واہ نکلتی ہے۔ یہ شاعرانہ عاجزی ہو یا غیر مطمئن طبعیت اس کا فائدہ یہ ہے کہ انُ کی غزل میں رطب و یا بس کا گزر نہیں، ہر شعر مر صع سازی کی مثال ہوتا ہے۔ حالانکہ بقول انکے ان کی شاعری تما م تر “آمد” کا نتیجہ ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان کا علم، پڑھنے کا شوق اور بے انتہا حساس طبعیت ان کے باطن کی بھٹی سے گزر کر ان غزلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اللہ کرے زور کلام اور زیادہ۔
 
حفیظ صاحب بہت کم کہتے ہیں لیکن جو کہتے ہیں پڑھ کر بے اختیار واہ نکلتی ہے۔ یہ شاعرانہ عاجزی ہو یا غیر مطمئن طبعیت اس کا فائدہ یہ ہے کہ انُ کی غزل میں رطب و یا بس کا گزر نہیں، ہر شعر مر صع سازی کی مثال ہوتا ہے۔ حالانکہ بقول انکے ان کی شاعری تما م تر “آمد” کا نتیجہ ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان کا علم، پڑھنے کا شوق اور بے انتہا حساس طبعیت ان کے باطن کی بھٹی سے گزر کر ان غزلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اللہ کرے زور کلام اور زیادہ۔
اُردو محفل میں خوش آمدید جناب پرویز بھائی!
 

محمد ایوب

محفلین
خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے

جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے

وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے

لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے

سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے

بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے

محمد حفیظ الرحمٰن​
بہت خوب ۔۔ لا جواب
 
خوبصورت خوبصورت!!!

خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے

جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے

وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے

لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے

سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے

بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے

محمد حفیظ الرحمٰن​
 

امین شارق

محفلین
خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے

جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے

وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے

لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے

سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے

بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے

محمد حفیظ الرحمٰن​
خوبصورت غزل۔

ہر ایک شعر میں دل کا خلوص شامل ہے
مگر کیوں قافیے اسکے تمام اجنبی سے لگے
 
Top