محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے
جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے
وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے
لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے
سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے
بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے
محمد حفیظ الرحمٰن
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے
جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے
وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے
لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے
سنبھال کر جنھیں رکھا تھا آج جانے کیوں
وہ سارے نامہ و پیغام اجنبی سے لگے
بس ایک نام میں اپنائیت ہوئی محسوس
وگرنہ اور تو سب نام اجنبی سے لگے
محمد حفیظ الرحمٰن