طارق شاہ
محفلین
غزل
خود حِجابوں سا، خود جمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دُورِیوں میں عجب کمال سا تھا
دُورِیوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم، کہ لازوال سا تھا
ایک موسم، کہ لازوال سا تھا
تھا ہتھیلی پہ اِک چراغِ دُعا
اور ہر لمحہ اِک سوال سا تھا
اور ہر لمحہ اِک سوال سا تھا
خوف اندھیرے کا، ڈر اُجالوں سے
سانحہ تھا، تو حسبِ حال سا تھا
سانحہ تھا، تو حسبِ حال سا تھا
کیا قیامت ہے حُجلۂ جاں میں
حال اُس کا بھی، میرے حال سا تھا
حال اُس کا بھی، میرے حال سا تھا
ادا جعفری