خود سری سے نکل کے تم دیکھو

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل نما شے آپکی خدمت میں اصلاح و رائے کے لیئے حاضر ہے۔

خود سری سے نکل کے تم دیکھو
زاویہ کچھ بدل کے تم دیکھو

زندگی یہ حسین ہے کتنی
اسکے سانچے میں ڈھل کے تم دیکھو

شوق جو عاشقی کا رکھتے ہو
عشق میں پھر ابل کے تم دیکھو

آنکھ چندھیا نہ آپ کی جائے
چاند کو کچھ سنبھل کے تم دیکھو

تشنگی کیا ہے جان جاؤ گے
دشت میں ساتھ چل کے تم دیکھو

گر سمجھنا ہے فرقتِ شب کو
دل لگی سے نکل کے تم دیکھو

اشک آتے ہیں آنکھ میں کیونکر
درد میں کچھ مچل کے تم دیکھو

چھین لیتی ہے ماؤں سے بیٹے
شوق ظالم اجل کے تم دیکھو

کیسے مرتا ہے آدمی راجا
شہر میں آج، چل کے تم دیکھو
 

الف عین

لائبریرین
اغلاط تو بہت کم ہیں (ایک آدھ کو چھوڑ کر)، البتہ مفہوم کہیں کہیں واضح نہیں کہ کینا کیا چاہتے ہو
خود سری سے نکل کے تم دیکھو
زاویہ کچھ بدل کے تم دیکھو

زندگی یہ حسین ہے کتنی
اسکے سانچے میں ڈھل کے تم دیکھو

گر سمجھنا ہے فرقتِ شب کو
دل لگی سے نکل کے تم دیکھو
اوپر کے تینوں اشعار معنی طلب ہیں اور یہ
آنکھ چندھیا نہ آپ کی جائے
چاند کو کچھ سنبھل کے تم دیکھو
پہلے مصرع میں آپ اور دوسرے مصرع میں تم کا صیغہ ہے، یہ غلط ہے۔ اس کو خود ہی سدھارنے کی کوشش کرو۔
باقی اشعار درست ہیں ماشاء اللہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
آنکھ چندھیا نہ آپ کی جائے
چاند کو کچھ سنبھل کے تم دیکھو

اسکو یوں کر دوں تو؟

آنکھ چندھیا نہ جائے یہ تیری
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو

یا

آنکھ چندھیا نہ جائے اے ہمدم
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو
 

الف عین

لائبریرین
آنکھ چندھیا نہ جائے یہ تیری
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو
اس میں بھی صیغے کی وہی پرابلم ہے، ایک جگہ تو، ایک جگہ تم

آنکھ چندھیا نہ جائے اے ہمدم
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو
اس ’اے ہمدم‘ بھرتی کے الفاظ ہیں۔
’چندھیا‘ کا لفظ ہی بدل دو، اس کو برتنے پر اتنا اصرار کیوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
آنکھ چندھیا نہ جائے یہ تیری
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو
اس میں بھی صیغے کی وہی پرابلم ہے، ایک جگہ تو، ایک جگہ تم

آنکھ چندھیا نہ جائے اے ہمدم
چاند ہے وہ سنبھل کے تم دیکھو
اس ’اے ہمدم‘ بھرتی کے الفاظ ہیں۔
’چندھیا‘ کا لفظ ہی بدل دو، اس کو برتنے پر اتنا اصرار کیوں۔

سر یوں سوجھا ہے یہ شعر،

آنکھ چندھیا نہ دے تمہاری وہ
چاند ہے سو سنبھل کے تم دیکھو
 
Top