خود سمجھ پائے نہ توقیر مرے خوابوں کی

سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

کتنی الٹی ہوئی تعبیر مرے خوابوں کی
لٹ گئی لمحوں میں جاگیر مرے خوابوں کی


بسترِ مرگ پہ ہوں جب مجھے دفناؤ گے
رکھنا بس قبر پہ تصویر مرے خوابوں کی

خواب ٹوٹے ہیں مرے جسم ہے بے جاں سا مرا
کاش کر دے کوئی تعمیر مرے خوابوں کی

عمر بھر دیتے رہے درس وفاؤں کا مجھے
خود سمجھ پائے نہ توقیر مرے خوابوں کی


اس نے الفاظ کی چوٹوں سے جسے توڑ دیا
کتنی مضبوط تھی زنجیر مرے خوابوں کی
 
Top