مینوں با لکل سمجھ نئی آئیمحترم بہن، اس کی نشاندہی کرنے کےمتعدد جملے ہو سکتے ہیں
( بالکل کو بلکل لکھنا ) اول تو یہ آپ کی غلطی ہے ہی نہیں، یہ تو کی بورڈ کی غلطی ہے
بالکل اس طرح " بلکل " ہی لکھا جا سکتا ہے اگر آپ کو پوسٹ زیادہ پسند ہو
بل کل اس طرح " بلکل " ہی لکھا جا سکتا ہے اگر آپ کو جلدی میں ہوں ( پھر آپ بھی جواب میں بل کل کو ٹھیک کرواسکتے ہیں )
آپ نیا کی بورڈ کیوں نہیں لے لیتے ہیں،
کیا آپ کے کی بورڈ کی ِA والی کی خراب ہے کہ کبھی تو کام کرتی ہے اور کبھی مس کر جاتی ہے
لیکن خاله جان آپ نے "بلکل" بالکل بھی ٹھیک نهیں کہا
آپ نے جلدی میں لکھا ہے شاید، آپ نے بالکل چیک نہیں کیا
وڈی باجی ، تہاڈی املا ٹھیک نی جے ہے، تسی املا چ غلطیاں کردے جے، تسی بالکال نوں بلکل لکھ دتا جے
مینوں با لکل سمجھ نئی آئی
چھڈو پرے، سمجھ کے کرنا وی کی اے۔مینوں با لکل سمجھ نئی آئی
ہر کوئی دوسرے کو سمجھانا کیوں چاہتا ہے؟چھڈو پرے، سمجھ کے کرنا وی کی اے۔
جنت کے حقدار
مجھ پر کل منکشف ہوا کہ جنت کے اصل حق دار میرے محلے دارحاجی نذیر صاحب ہیں۔ میں چونکہ ایک طے شدہ گنہگار ہوں لہٰذا مجھ پر شائد کبھی یہ عقدہ نہ کھلتا لہذا حاجی صاحب کو مجبوراً خود ہی یہ بات بتانا پڑی۔ حاجی صاحب ایک صاحب کرامت انسان ہیں، اپنے آستانے میں دم درود بھی کرتے ہیں ،چلے بھی کاٹتے ہیں، تعویز دھاگہ بھی کرتے ہیں اور ایزی لوڈ کی سہولت بھی رکھی ہوئی ہے۔آپ پہلے میری طرح ایک شدید گنہگار انسان تھے ، چہرے سے نحوست ٹپکتی تھی، لیکن جب سے خود کو جنت کا حقدار سمجھنا شروع کیا ہے ماشاءاللہ سارا دن نور میں گھرے رہتے ہیں، کبھی نور محمد آرہا ہے، کبھی نوردین جارہا ہے۔۔۔سنا ہے سید نور کو بھی قرب و جوار میں منڈلاتے دیکھا گیا ہے۔حاجی صاحب میرے بارے میں بڑے متفکر رہتے ہیں، کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ خواب میں تمہارے حوالے سے کوئی اچھے اشارے نہیں مل رہے، کافی تپش سی محسوس ہوتی ہے۔میں نے عرض کی کہ یا حاجی! مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پیار سے بولے”کسی اللہ والے کے مرید ہوجاو“۔ میں نے ایسے کسی بندے کا ایڈریس پوچھا تو غصہ کرگئے ”ہم کیا ہنومان کے پجاری بیٹھے ہیں، بدبخت انسان ہم ہی تو ہیں اللہ والے“۔ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا، پھر سہم کر کہا”تو کیا آپ مجھے اپنا مرید بنانا چاہتے ہیں؟“۔ ان کی بھنویں تن گئیں”ابے جملہ ٹھیک کر، ہم اللہ والے ہیں، ہم مرید نہیں بناتے، لوگ ہمیں مرشد بناتے ہیں اور یوں خودبخود ہمارے مرید ہوجاتے ہیں۔“ اتنے میں ایک صاحب اندر آئے، جھک کر حاجی صاحب کو سلام کیا ، حاجی صاحب نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا، آنے والے نے حاجی صاحب کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔میں نے پوچھا ”یہ کون تھا؟“۔۔۔مسکرا کر بولے”جنت کا مسافر“۔میں ہڑبڑا گیا، آپ کو کیسے پتا چلا؟ گھور کربولے، اللہ والوں کی نظریں بڑی دور تک دیکھ سکتی ہیں ۔میں نے جلدی سے کہا حاجی صاحب آج تاریخ کیا ہے؟ انہوں نے چونک کرغور سے دیوار پر لٹکے کیلنڈر کی طرف دیکھا، پھر بیزاری سے بولے” خود ہی دیکھ لو، یہاں سے صاف نظر نہیں آرہا“۔
جنت کے حقدار....گل نوخیز اختر
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ تحریر کس کی یے؟سودا
میں نے آہٹ سنی تو آنکھیں کھول کے دیکھا، سر پر ملک الموت کھڑا تھا۔
میں اُس وقت کمرے میں لیٹا تھا، امّی سو رہی تھیں۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمھاری امّی کو لے جانا ہے۔‘‘ اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
میرا دل ڈوب گیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ایسا مت کرو۔‘‘ میں گڑگڑایا’’مجھے امّی سے بہت پیار ہے۔‘‘
’’میں اکیلا واپس نہیں جاسکتا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آئو، ایک سودا کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا،
’’تم امّی کے بجائے مجھے ساتھ لے چلو۔‘‘
’’میں تمھیں ہی لینے آیا تھا۔‘‘ اُس نے بتایا، ’’لیکن تمھاری ماں نے پہلے سودا کر لیا۔‘‘
بشکریہ : اردو ڈائجسٹ