خود کو بے رنگ و ہنر ہم کیا کرتے
بے سمت راستے پہ سفر ہم کیا کرتے
تمام عمر یوں تو غرقِ دریا ہی رہے
پھر ساحلوں پر نظر ہم کیا کرتے
تپتی دھوپ کی رہی عادت بدن کو
دو گھڑی کی چھاؤں لیکر ہم کیا کرتے
جھونکا ہوا کا سرگوشی کر گیا تھا کبھی
اس کا انتظار اب عمر بھر ہم کیا کرتے
بعد از مرگ کچھ گلے ہمارے بھی رہ جاتے
بے سمت راستے پہ سفر ہم کیا کرتے
تمام عمر یوں تو غرقِ دریا ہی رہے
پھر ساحلوں پر نظر ہم کیا کرتے
تپتی دھوپ کی رہی عادت بدن کو
دو گھڑی کی چھاؤں لیکر ہم کیا کرتے
جھونکا ہوا کا سرگوشی کر گیا تھا کبھی
اس کا انتظار اب عمر بھر ہم کیا کرتے
بعد از مرگ کچھ گلے ہمارے بھی رہ جاتے
جیتے نہیں تو پھر اے ظفر ہم کیا کرتے