نوید صادق
محفلین
خورشید رضوی۔۔۔ ایک درد مند شاعر
ڈاکٹر خورشید رضوی کا شمار اُن معدودے چند نقادوں اور شاعروں میں ہوتا ہے،جن کو تخلیقی و تنقیدی سرمائے کے ساتھ ایک عالم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ خورشید رضوی پا کستان کے ممتاز ترین ادیب ہیں اور امسال،یوم پاکستان23 مارچ 2009 ئ کے موقع پر اُن کو صدارتی ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی عربی/ اُردو لسانیات کے ماہر ہونے کے علاوہ صاحب طرز شاعر بھی ہیں۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ1974ئ میں ٴٴشاخ تنہاٴٴ کے نام سے شایع ہوا،دوسرا1981ئ میں ٴٴسرابوں کے صدفٴٴ اور تیسرا1997ئ میں ٴٴرائیگاںٴٴ کے معنی خیز عنوان سے جبکہ چوتھا ٴٴامکانٴٴ2004 ئ کے لگ بھگ منصۂ شہود پر آیا۔ شعری کلیات ٴٴ یکجاٴٴ 2007 ئ کے اوائل میں شایع ہوئی۔اس کے علاواہ ٴٴاطراف ٴٴاور ٴٴتالیفٴٴ کے عنوان سے دو مجموعۂ ہائے مضامین بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اِن دنوں ایک علمی و تحقیقی کام ٴٴعربی اَدب قبل از اسلامٴٴ سر انجام دے رہے ہیں،جو قسط وار موقر اَدبی جریدے ٴٴ سویراٴٴ میں شایع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے فن و شخصیت کے حوالے سے اس سال ایم فل کا مقالہ لکھنے والے ریسرچ سکالر پروفیسر صابری نورِ مصطفٰے کا زیر نظر مضمون ٴٴ خورشید رضویà ایک درد مند شاعرٴٴ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ ---...........................................................................................................................................
جدید اُردو شاعری کا ایک دور تو گزر گیا۔ جس میں میرا جی،فیض، راشد اور مجید امجد جیسے شعرا کی فکر نے کلاسیکی شاعری کے فکری طلسم کو توڑا، لیکن حال ہی میں بعض نئے شعرائ نے اُردو کا رشتہ ایک بار پھر اَدب کے فکری رجحانات سے جوڑ دیا ہے۔ اُن میںسے وہ رجحانات بڑے قابل اعتنا ہیں جو جدید دور کے ثقافتی انتشار، تہذیبی فقدان، اخلاقی اقدار کا ناپید ہونا، عدل وانصاف کی جگہ ناانصافی اور انسان کے بے چہرہ ہونے کے احساس سے پیدا کرتے ہیں۔ ایسے تصورات کے زیر اثر جو شاعری لکھی جارہی ہے وہ جدید انسان کے باطن کی آواز ہے۔ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے دین ومذہب بلکہ خود انسان کی مرکزیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ تمام چیزیں باعث راحت وسہولت بھی ہیں لیکن اس نے فکر انسانی پر اثر انداز ہوکر معاشرت، کلچر او سوسائٹی کے رویوں کو کچل ڈالا اور دنیا بھر کی اخلاقی اقدار اور محبت کے جذبات کو روند ڈالا۔ جب اس کی بنا پر اقدار کے سلسلے بکھرے تو ماضی کی سنہری روایات جو کل عمدہ تصور کی جاتی تھیں آج کم تر خیال کی جارہی ہیں۔آج کے جدید دور کا فر د جوہر وقت ہراساں نظر آتا ہے۔ جو بات بات پر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دنیا کی اس چہل پہل میں بھی وہ تنہائی محسوس کرتا ہے اور ہر شے اسے اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ یہ تشویش صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے ادبوں اور فلسفیانہ فکروں میںبھی نمایاں سنائی دیتی ہیں۔ مادیت پرستی کے اس دور نے ہر فرد کے قلبی سکون کو برباد کردیا ہے۔ انسان بظاہر تو بڑا خوش حال اور پرسکون دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے داخلی جذبات مجروح ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں انسان سرمایہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صنعتی تہذیب اور مادیت پرستی کے فروغ کی وجہ سے آج پوری انسانیت ذہنی اور قلبی مسائل میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ایسے حالات کے تحت لکھی جانے والی شاعری افکار ونظریات، جذبات واحساسات اور خیالات کے اعتبار سے قدیم شاعری سے قدرے مختلف نظر آتی ہے لیکن بعض موضوعات ایسے ہیں جہاں جدیدیت اور کلاسیکیت کا امتزاج ملتا ہے۔ قدروںکی پامالی، تہذیب کے زوال، مجلسی نظام کا منتشر ہونا، انسانیت کا قتل عام، جیسے موضوعات ہمیں قدیم شاعری میںش عوری طور پر اور لاشعوری طور پر ادب میں نظر آتے ہیں
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
انسان آج جس مقام پر ہے یہاں تک پہنچنے کے لیے اس نے محنت ومشقت، تگ ودو، یقین اور اعتماد کی شمعوں کو روشن کیا۔ زندگی کی سفاکی کا مقابلہ کیا۔ پہاڑوں کے جگر چاک کیے، صحرائوں کو باغوں اور عمارتوںمیں تبدیل کیا اور زمین کو جنت کا نمونہ بنا کر رکھ دیا لیکن ناتمام ظاہری خوشیاں، آسائش و آرام انسان کو داخلی سکون فراہم نہ کرسکے۔ عجیب بے حسی اور عجیب احساس محرومی کا عالم ہے۔ یہ احساس ایک طرح کی آگہی بھی ہے۔ جدید شاعری اسی بے حسی اور آگہی کی شاعری ہے۔ تہذیب کے لوٹنے کا غم اور ہر طرف ریاکاری ہے۔ نہ خوشی خوشی معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ ہر طرف نظر آنے والی روشنیاں دل کی ویرانی اور تاریکی کو دور کرسکی۔ خورشید رضوی کے مجموعہ کلام سے ایک نظم کو دیکھتے ہیں جو متذکرہ صورتِ حالات کا بیان کرتی ہے
تریاق
گائوں کے اجڑے ہوئے مدفن میں پونم کا طلسم
آج کی تہذیب کے ہر زہر کا تریاق ہے
شہر والوں کی تبسم کی ریاکاری سے دور
محفلوں کی کھوکھلی سنجیدہ گفتاری سے دور
الجھے الجھے سے دلائل کی گرانباری سے دور
محفلیں لوح تکلف کی وہی پٹتی لکیر
اپنی اپنی چار دیواری کے زنداں میں اسیر
کیا کرے وہ جس کے دس میں وسعت آفاق ہے
آ سحر تک اس دبستان حقیقت میں پڑھیں
موت کے بوڑھے معلم سے کتاب زندگی
خورشید رضوی کا شمار اُردو اَدب کے ایسے ہی آفاقی بصیرت رکھنے والے شعرائ میںہوتا ہے، جنھوں نے قدروںکی پامالی، تہذیب وشائستگی، لوگوں کی بے حسی، ریاکاری اور لوگوںکے کھوکھلے پن کو اپنا موضوع بنایا۔ اَدب ہر عہد میں تخلیق ہوتا ہے لیکن ضرورت اُن دور اندیش اورنبض شناس نگاہوںکی ہوتی ہے جو اچھے اور برے میں امتیاز پیدا کرے۔ اُن کی شاعری انسانی اخلاقی اقدار کی آبیاری کرے اور پھر سے اخلاقی اقدار کا سلسلہ معاشرے میں جو پہلے بکھر چکا ہے اس کو جوڑ دے۔ خورشید رضوی ہمارے اُردو ادب کے ایسے ہی آفاقی بصیرت رکھنے والے شعرائ میں سے ہیں جن کے لہجے کی تازگی اور خوداعتمادی قاری کو فوراً اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ایک ایسے غزل گو اور نظم نگار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیںجسے اپنے ذہن وشعور اور زبان وذات پر مکمل اعتماد ہے۔ ہجوم انسانیت سے الگ رہ کر قدم بڑھانے کا حوصلہ اُن کی ذات میں فطری معلوم ہوتا ہے۔
اس جدید عہد میں اکثر شعرائ مومن خان مومن ہی کے مقلد نظر آتے ہیں لیکن بہت کم غالب اور اقبال کی آفاقیت کرپاتے ہیں۔ معاشرے کی اس روش اورناقدری کو دیکھتے ہوئے وہ سماجی رویوں تر تنقید کرتے ہیں
یہ جو تنگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
خورشید رضوی نے اس دور میں جہاں اکثر شعرائ محبت کے سمندر کی سطح سے اوپر نہیں اٹھتے اور ہر دوسرے دن عامیانہ شاعری کا نیا ایڈیشن بازار میںآجاتا ہے۔ خورشید رضوی ایسے شعرائ کی صف میں شامل نہیں بلکہ انھوں نے قدروںکی پامالی، تہذیب وشائستگی، ریاکاری اور سماجی کھوکھلے پن کو اپنا موضوع بنایا اور لوگوںکے ایسے رویوں کو کڑی تنقید کانشانہ بنایا۔ یہ موضوعات ایسے ہیں جن پر اظہار ہر دور میں ملتا ہے۔ خورشید رضوی کی شاعری میںکلاسیکیت اور جدیدیت دونوں کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ وہ کلاسیکی روایت سے انحراف نہیںکرتے بلکہ اس موضوعات کو جرات طبع اور تخیل کی بلندی سے ان میں نیا پن پیدا کردیتے ہیں۔ مطالعہ کائنات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ موتیوںکی لڑی کی طرح جڑے ہوئے ملتے ہیں۔ اس جدید صنعتی اور مادیت پرست معاشرے میں جہاں دولت کف فراوانی ہے انسان خیال کرتا ہے کہ ان وسائل اور دولت سے اس کی تمام مشکلات مسائل آسان ہوجائیں گے۔ لیکن جہاں دولت عظمت کا معیار بن جائے وہاں معاشرے امید کے دامن کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی آج بھی سب کچھ ہونے کے باوجو جہنم نظر آتی ہے۔ مسرت وانبساط آج بھی گریزاں ہے۔ داخلی دکھ کرب اور روح کا درد آج بھی ویسا ہی اور عام ہے فطری زندگی کے سارے سازو سامان تباہ کررہے اور معاشرہ اس ظاہری اور نمودو نمائش والی زندگی کی لپیٹ میں ہے۔ خورشید رضوی کی ایک نظم میں ہمیں یہی منظر ملتا ہے کہ لوگ فطری میلان کو چھوڑ کر کس طرز زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں
نظر اٹھائوں
تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکائوں تو شیر قالین گھورتا ہے
مرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں
مگر یہاںگنگ ہوگیا ہو
مرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں میری بات گونجتی تھی
خورشید رضوی کے ہاں کئی کیفتیں دوسروں سے الگ ملتی ہیں۔ ایک محبت کرنے والا، معاشرے کی رائیگانی کا احساس کرنے والا، دوسروں کے دکھ اور کرب کو محسوس کرنے والا، یہ ساری کیفیات خورشید رضوی کی شاعری کا سرمایہ نظر آتی ہے۔ خورشید رضوی کا احتجاج بغاوت باغضب ناکی پر مبنی نہیںبلکہ ان کا لہجہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک درد آمیز، ہمدردانہ اور مخلصانہ آزاد لہجہ جس میںزندگی کے کرب اور دکھ نے مل کر ان کی شاعری میں تڑپ اور تاثیر پیدا کردی ہے۔ انسانیت سے ان کا لگائو اور محرومیوں سے پیدا ہونے والا درد محبت ان کی احتجاجی لے میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ایک کیفیت سے کئی کیفیتیں پیدا ہوجاتی ہیں
چل اے دل آسمان پر چل
وہاںسے چل کے اس پر شوربزم ہست کو دیکھیں
بلند وپست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسمان سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاںسے کیسی لگتی ہے
خورشید رضوی کی آواز آج کی آواز ہے۔ زندگی جن آرام کے نرغے میں ہے اور معاشرہ جن حالات و حوادث کی زد میں ہے یہ آواز اس کے دردو کرب سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ مثالیت یا علامتوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ حقیقت کی سنگینی کو پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں
گرد صحرا کے ہدف ہیں ہم سرابوں کے صدف
ہم پہ دو آنسو بہا اے ابرنیساں ایک دن
اس حوالے سے ان کی شاعری میںایک نئی آواز اور نئی معنویت ملتی ہے۔ ان میں جو سماجی، اخلاقی مفہوم ہے یا لوگوں کی بے راہ روی کے خلاف احتجاج ہے وہ جذباتیت کی دین نہیں بلکہ موجودہ صورت حال کی بے مہر آگہی سے پیدا ہوا۔ پورا سماج ریاکاری کے رنگ میں اس طرح رنگا جاچکا ہے کہ ہر شے کے معنی بدل گئے۔ جدیدیت کے اس عہد میں زندگی کا متن اور اس کا مفہوم ہی تبدیل ہوگیا
سبز پیڑوں کے لہکنے کی طراوت لائو
سرخ پھولوں کے مہکنے کی حلاوت لائو
دشت کے، وادی و کہسار کے پھول
خون میں کھلتے ہوئے ساعت دیدار کے پھول
ہمارے معاشرے میں اقدار کے سلسلے مختلف، تہذیبی ہوا تبدیل ہوچکی بلکہ یہاں کی وفا کے معنے ہی اور ہوگئے۔ ایک خوف سا لگا رہتا ہے کہ زندگی کو روشنی دینے والے سارے چراغ بجھ نہ جائیں کہیں زندگی پھر اندھیرے اور تاریکی میں ڈوب نہ جائے۔ چراغ کی ننھی سی لوکو بھی حاصل کرنے کے لیے صدیوں کا وقت لگے گا۔ مجھے افتخار عارف کے شعر کا ایک مصرع یاد آگیا ò
عمر ہم جہاں ہیںوہاں ان دنوں عشق کا سلسلہ مختلف ہے
جس معاشرے میں زندگی کے سلسلے بکھیر جائیں، کتاب عدل وانصاف اور مساوات کا مسودہ اور متن تو ہو لیکن اس پر جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری، ریاکاری کا پردہ پڑ جائے تو زندگی کا مفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ بلکہ زندگی ایک ایسی روش کا انتخاب کرتی ہے جو تاریکی، اندھیرے اور جہالت کی طرف نکلتی ہے۔ جب معاشرہ بدنظمی اور انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہوتا تو وہاں طمانیت کا فقدان ہوجاتا ہے۔ معاشرے کی ایسی کیفیت کو دیکھ کر ہر حساس دل و دماغ رکھنے والا انسان چیخ چیخ کر لوگوں کے رویوںپر کڑی تنقید کرتا ہے۔کیونکہ اس کی ذات اپنی ذات تک محدو نہیں، اس کے تجربات ومشاہدات اپنے ہی تجربات نہیں ہوتے، اس کے افکار ونظریات، خیالات کی تشکیل میں اس کی تنہا ذات ہی کا عمل دخل نہیںہوتا بلکہ پوری تہذیب اور پوری دنیا کے تاثرات، افکار، خیالات اس کے تہذیبی ماحول میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ وہ انہی خیالات سے اپنی فکر کو تقویت دیتا ہے۔ جب لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے افکارو نظریات اور خیالات جمود کا شکار ہوجاتے ہیں تو ایسے حالات میں درد مند شخص ہی کوشش کرتا ہے کہ اس دشت رائیگاں میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں۔ شام الم صبح بہار میں تبدیل ہوجائے اور زندگی حقیقت کی طرف رواں دواںہوجائے لیکن ہمارا سماج ایسے لوگوں کے افکارو نظریات، خیالات اور جذبات واحساسات کے ذریعے اپنے فکری رویوں کو درست نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگوں کی تو ہر زمانے میں ناقدری ہی رہی ہے
وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو آپ اپنی مثال تھے وہ کہاں گئے
مرے ذہن کا یہ شجر اداس اداس ہے
وہ جو طائرن خیال تھے وہ کہاںگئے
دنیا میں جو اہل دل رہے ہیں
آزردہ وہ مستقل رہے ہیں
آج اس جدیدیت کے زمانے میں جہاں ہر کوئی اپنی ظاہری مسرت وانبساط کا اظہار کررہا ہے۔ دولت اور مادیت کو اپنی عظمت کا معیار مقرر کررہا ہے۔ حقیقت میں وہ ساری خوشیاں، عظمتیں، روایات جھوٹی ہیں۔ تہذیب ایک کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹی روایات، ناقدری، مادیت پرستی کے کھنڈروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں خشک اور ویران خطے ہی باقی ہیں۔ ہر طرف دشت ہی دشت بلکہ دشت رائگاں جہاں زندگی کے آثار دم توڑ چکے ہیں۔ یہاں مجھے بے اختیار مختار مسعود کی ایک بات یاد آگئی جو ہمارے اس تہذیبی رویوںکی عکاسی کرتی ہےٜٴٴبستی، گھر اور زبان خاموش، درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔مٹی، موسم اور لب خشک، ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیںمارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی۔ جہاں مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئیٴٴ۔
آج زندگی ہم سے بہت دور نکل گئی ہے۔ خورشید رضوی کی شاعری اس منظر کو تلاش کرتی جہاں زندگی حقیقی طور پر طمانیت اور تسکین پاتی تھی۔ جب وہ زندگی کے ایسے مناظر دیکھتے ہیں جہاں زندگی کے معنی ختم ہوگئے ہیں ہر فرد ریاکاری کا شکار ہے۔ تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں
رمز یہ کھل جائے تو دنیا میں دل پھر کیا لگے
پاس سے دیکھیں تو مٹی دورسے دریا لگے
...................................................
شکریہ روزنامہ الشرق۔ 6 اپریل 2009ء
www.dailysharq.com/epaper
ڈاکٹر خورشید رضوی کا شمار اُن معدودے چند نقادوں اور شاعروں میں ہوتا ہے،جن کو تخلیقی و تنقیدی سرمائے کے ساتھ ایک عالم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ خورشید رضوی پا کستان کے ممتاز ترین ادیب ہیں اور امسال،یوم پاکستان23 مارچ 2009 ئ کے موقع پر اُن کو صدارتی ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی عربی/ اُردو لسانیات کے ماہر ہونے کے علاوہ صاحب طرز شاعر بھی ہیں۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ1974ئ میں ٴٴشاخ تنہاٴٴ کے نام سے شایع ہوا،دوسرا1981ئ میں ٴٴسرابوں کے صدفٴٴ اور تیسرا1997ئ میں ٴٴرائیگاںٴٴ کے معنی خیز عنوان سے جبکہ چوتھا ٴٴامکانٴٴ2004 ئ کے لگ بھگ منصۂ شہود پر آیا۔ شعری کلیات ٴٴ یکجاٴٴ 2007 ئ کے اوائل میں شایع ہوئی۔اس کے علاواہ ٴٴاطراف ٴٴاور ٴٴتالیفٴٴ کے عنوان سے دو مجموعۂ ہائے مضامین بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اِن دنوں ایک علمی و تحقیقی کام ٴٴعربی اَدب قبل از اسلامٴٴ سر انجام دے رہے ہیں،جو قسط وار موقر اَدبی جریدے ٴٴ سویراٴٴ میں شایع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے فن و شخصیت کے حوالے سے اس سال ایم فل کا مقالہ لکھنے والے ریسرچ سکالر پروفیسر صابری نورِ مصطفٰے کا زیر نظر مضمون ٴٴ خورشید رضویà ایک درد مند شاعرٴٴ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ ---...........................................................................................................................................
جدید اُردو شاعری کا ایک دور تو گزر گیا۔ جس میں میرا جی،فیض، راشد اور مجید امجد جیسے شعرا کی فکر نے کلاسیکی شاعری کے فکری طلسم کو توڑا، لیکن حال ہی میں بعض نئے شعرائ نے اُردو کا رشتہ ایک بار پھر اَدب کے فکری رجحانات سے جوڑ دیا ہے۔ اُن میںسے وہ رجحانات بڑے قابل اعتنا ہیں جو جدید دور کے ثقافتی انتشار، تہذیبی فقدان، اخلاقی اقدار کا ناپید ہونا، عدل وانصاف کی جگہ ناانصافی اور انسان کے بے چہرہ ہونے کے احساس سے پیدا کرتے ہیں۔ ایسے تصورات کے زیر اثر جو شاعری لکھی جارہی ہے وہ جدید انسان کے باطن کی آواز ہے۔ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے دین ومذہب بلکہ خود انسان کی مرکزیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ تمام چیزیں باعث راحت وسہولت بھی ہیں لیکن اس نے فکر انسانی پر اثر انداز ہوکر معاشرت، کلچر او سوسائٹی کے رویوں کو کچل ڈالا اور دنیا بھر کی اخلاقی اقدار اور محبت کے جذبات کو روند ڈالا۔ جب اس کی بنا پر اقدار کے سلسلے بکھرے تو ماضی کی سنہری روایات جو کل عمدہ تصور کی جاتی تھیں آج کم تر خیال کی جارہی ہیں۔آج کے جدید دور کا فر د جوہر وقت ہراساں نظر آتا ہے۔ جو بات بات پر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دنیا کی اس چہل پہل میں بھی وہ تنہائی محسوس کرتا ہے اور ہر شے اسے اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ یہ تشویش صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے ادبوں اور فلسفیانہ فکروں میںبھی نمایاں سنائی دیتی ہیں۔ مادیت پرستی کے اس دور نے ہر فرد کے قلبی سکون کو برباد کردیا ہے۔ انسان بظاہر تو بڑا خوش حال اور پرسکون دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے داخلی جذبات مجروح ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں انسان سرمایہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صنعتی تہذیب اور مادیت پرستی کے فروغ کی وجہ سے آج پوری انسانیت ذہنی اور قلبی مسائل میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ایسے حالات کے تحت لکھی جانے والی شاعری افکار ونظریات، جذبات واحساسات اور خیالات کے اعتبار سے قدیم شاعری سے قدرے مختلف نظر آتی ہے لیکن بعض موضوعات ایسے ہیں جہاں جدیدیت اور کلاسیکیت کا امتزاج ملتا ہے۔ قدروںکی پامالی، تہذیب کے زوال، مجلسی نظام کا منتشر ہونا، انسانیت کا قتل عام، جیسے موضوعات ہمیں قدیم شاعری میںش عوری طور پر اور لاشعوری طور پر ادب میں نظر آتے ہیں
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
انسان آج جس مقام پر ہے یہاں تک پہنچنے کے لیے اس نے محنت ومشقت، تگ ودو، یقین اور اعتماد کی شمعوں کو روشن کیا۔ زندگی کی سفاکی کا مقابلہ کیا۔ پہاڑوں کے جگر چاک کیے، صحرائوں کو باغوں اور عمارتوںمیں تبدیل کیا اور زمین کو جنت کا نمونہ بنا کر رکھ دیا لیکن ناتمام ظاہری خوشیاں، آسائش و آرام انسان کو داخلی سکون فراہم نہ کرسکے۔ عجیب بے حسی اور عجیب احساس محرومی کا عالم ہے۔ یہ احساس ایک طرح کی آگہی بھی ہے۔ جدید شاعری اسی بے حسی اور آگہی کی شاعری ہے۔ تہذیب کے لوٹنے کا غم اور ہر طرف ریاکاری ہے۔ نہ خوشی خوشی معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ ہر طرف نظر آنے والی روشنیاں دل کی ویرانی اور تاریکی کو دور کرسکی۔ خورشید رضوی کے مجموعہ کلام سے ایک نظم کو دیکھتے ہیں جو متذکرہ صورتِ حالات کا بیان کرتی ہے
تریاق
گائوں کے اجڑے ہوئے مدفن میں پونم کا طلسم
آج کی تہذیب کے ہر زہر کا تریاق ہے
شہر والوں کی تبسم کی ریاکاری سے دور
محفلوں کی کھوکھلی سنجیدہ گفتاری سے دور
الجھے الجھے سے دلائل کی گرانباری سے دور
محفلیں لوح تکلف کی وہی پٹتی لکیر
اپنی اپنی چار دیواری کے زنداں میں اسیر
کیا کرے وہ جس کے دس میں وسعت آفاق ہے
آ سحر تک اس دبستان حقیقت میں پڑھیں
موت کے بوڑھے معلم سے کتاب زندگی
خورشید رضوی کا شمار اُردو اَدب کے ایسے ہی آفاقی بصیرت رکھنے والے شعرائ میںہوتا ہے، جنھوں نے قدروںکی پامالی، تہذیب وشائستگی، لوگوں کی بے حسی، ریاکاری اور لوگوںکے کھوکھلے پن کو اپنا موضوع بنایا۔ اَدب ہر عہد میں تخلیق ہوتا ہے لیکن ضرورت اُن دور اندیش اورنبض شناس نگاہوںکی ہوتی ہے جو اچھے اور برے میں امتیاز پیدا کرے۔ اُن کی شاعری انسانی اخلاقی اقدار کی آبیاری کرے اور پھر سے اخلاقی اقدار کا سلسلہ معاشرے میں جو پہلے بکھر چکا ہے اس کو جوڑ دے۔ خورشید رضوی ہمارے اُردو ادب کے ایسے ہی آفاقی بصیرت رکھنے والے شعرائ میں سے ہیں جن کے لہجے کی تازگی اور خوداعتمادی قاری کو فوراً اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ایک ایسے غزل گو اور نظم نگار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیںجسے اپنے ذہن وشعور اور زبان وذات پر مکمل اعتماد ہے۔ ہجوم انسانیت سے الگ رہ کر قدم بڑھانے کا حوصلہ اُن کی ذات میں فطری معلوم ہوتا ہے۔
اس جدید عہد میں اکثر شعرائ مومن خان مومن ہی کے مقلد نظر آتے ہیں لیکن بہت کم غالب اور اقبال کی آفاقیت کرپاتے ہیں۔ معاشرے کی اس روش اورناقدری کو دیکھتے ہوئے وہ سماجی رویوں تر تنقید کرتے ہیں
یہ جو تنگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
خورشید رضوی نے اس دور میں جہاں اکثر شعرائ محبت کے سمندر کی سطح سے اوپر نہیں اٹھتے اور ہر دوسرے دن عامیانہ شاعری کا نیا ایڈیشن بازار میںآجاتا ہے۔ خورشید رضوی ایسے شعرائ کی صف میں شامل نہیں بلکہ انھوں نے قدروںکی پامالی، تہذیب وشائستگی، ریاکاری اور سماجی کھوکھلے پن کو اپنا موضوع بنایا اور لوگوںکے ایسے رویوں کو کڑی تنقید کانشانہ بنایا۔ یہ موضوعات ایسے ہیں جن پر اظہار ہر دور میں ملتا ہے۔ خورشید رضوی کی شاعری میںکلاسیکیت اور جدیدیت دونوں کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ وہ کلاسیکی روایت سے انحراف نہیںکرتے بلکہ اس موضوعات کو جرات طبع اور تخیل کی بلندی سے ان میں نیا پن پیدا کردیتے ہیں۔ مطالعہ کائنات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ موتیوںکی لڑی کی طرح جڑے ہوئے ملتے ہیں۔ اس جدید صنعتی اور مادیت پرست معاشرے میں جہاں دولت کف فراوانی ہے انسان خیال کرتا ہے کہ ان وسائل اور دولت سے اس کی تمام مشکلات مسائل آسان ہوجائیں گے۔ لیکن جہاں دولت عظمت کا معیار بن جائے وہاں معاشرے امید کے دامن کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی آج بھی سب کچھ ہونے کے باوجو جہنم نظر آتی ہے۔ مسرت وانبساط آج بھی گریزاں ہے۔ داخلی دکھ کرب اور روح کا درد آج بھی ویسا ہی اور عام ہے فطری زندگی کے سارے سازو سامان تباہ کررہے اور معاشرہ اس ظاہری اور نمودو نمائش والی زندگی کی لپیٹ میں ہے۔ خورشید رضوی کی ایک نظم میں ہمیں یہی منظر ملتا ہے کہ لوگ فطری میلان کو چھوڑ کر کس طرز زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں
نظر اٹھائوں
تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکائوں تو شیر قالین گھورتا ہے
مرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں
مگر یہاںگنگ ہوگیا ہو
مرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں میری بات گونجتی تھی
خورشید رضوی کے ہاں کئی کیفتیں دوسروں سے الگ ملتی ہیں۔ ایک محبت کرنے والا، معاشرے کی رائیگانی کا احساس کرنے والا، دوسروں کے دکھ اور کرب کو محسوس کرنے والا، یہ ساری کیفیات خورشید رضوی کی شاعری کا سرمایہ نظر آتی ہے۔ خورشید رضوی کا احتجاج بغاوت باغضب ناکی پر مبنی نہیںبلکہ ان کا لہجہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک درد آمیز، ہمدردانہ اور مخلصانہ آزاد لہجہ جس میںزندگی کے کرب اور دکھ نے مل کر ان کی شاعری میں تڑپ اور تاثیر پیدا کردی ہے۔ انسانیت سے ان کا لگائو اور محرومیوں سے پیدا ہونے والا درد محبت ان کی احتجاجی لے میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ایک کیفیت سے کئی کیفیتیں پیدا ہوجاتی ہیں
چل اے دل آسمان پر چل
وہاںسے چل کے اس پر شوربزم ہست کو دیکھیں
بلند وپست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسمان سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاںسے کیسی لگتی ہے
خورشید رضوی کی آواز آج کی آواز ہے۔ زندگی جن آرام کے نرغے میں ہے اور معاشرہ جن حالات و حوادث کی زد میں ہے یہ آواز اس کے دردو کرب سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ مثالیت یا علامتوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ حقیقت کی سنگینی کو پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں
گرد صحرا کے ہدف ہیں ہم سرابوں کے صدف
ہم پہ دو آنسو بہا اے ابرنیساں ایک دن
اس حوالے سے ان کی شاعری میںایک نئی آواز اور نئی معنویت ملتی ہے۔ ان میں جو سماجی، اخلاقی مفہوم ہے یا لوگوں کی بے راہ روی کے خلاف احتجاج ہے وہ جذباتیت کی دین نہیں بلکہ موجودہ صورت حال کی بے مہر آگہی سے پیدا ہوا۔ پورا سماج ریاکاری کے رنگ میں اس طرح رنگا جاچکا ہے کہ ہر شے کے معنی بدل گئے۔ جدیدیت کے اس عہد میں زندگی کا متن اور اس کا مفہوم ہی تبدیل ہوگیا
سبز پیڑوں کے لہکنے کی طراوت لائو
سرخ پھولوں کے مہکنے کی حلاوت لائو
دشت کے، وادی و کہسار کے پھول
خون میں کھلتے ہوئے ساعت دیدار کے پھول
ہمارے معاشرے میں اقدار کے سلسلے مختلف، تہذیبی ہوا تبدیل ہوچکی بلکہ یہاں کی وفا کے معنے ہی اور ہوگئے۔ ایک خوف سا لگا رہتا ہے کہ زندگی کو روشنی دینے والے سارے چراغ بجھ نہ جائیں کہیں زندگی پھر اندھیرے اور تاریکی میں ڈوب نہ جائے۔ چراغ کی ننھی سی لوکو بھی حاصل کرنے کے لیے صدیوں کا وقت لگے گا۔ مجھے افتخار عارف کے شعر کا ایک مصرع یاد آگیا ò
عمر ہم جہاں ہیںوہاں ان دنوں عشق کا سلسلہ مختلف ہے
جس معاشرے میں زندگی کے سلسلے بکھیر جائیں، کتاب عدل وانصاف اور مساوات کا مسودہ اور متن تو ہو لیکن اس پر جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری، ریاکاری کا پردہ پڑ جائے تو زندگی کا مفہوم تبدیل ہوجاتا ہے۔ بلکہ زندگی ایک ایسی روش کا انتخاب کرتی ہے جو تاریکی، اندھیرے اور جہالت کی طرف نکلتی ہے۔ جب معاشرہ بدنظمی اور انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہوتا تو وہاں طمانیت کا فقدان ہوجاتا ہے۔ معاشرے کی ایسی کیفیت کو دیکھ کر ہر حساس دل و دماغ رکھنے والا انسان چیخ چیخ کر لوگوں کے رویوںپر کڑی تنقید کرتا ہے۔کیونکہ اس کی ذات اپنی ذات تک محدو نہیں، اس کے تجربات ومشاہدات اپنے ہی تجربات نہیں ہوتے، اس کے افکار ونظریات، خیالات کی تشکیل میں اس کی تنہا ذات ہی کا عمل دخل نہیںہوتا بلکہ پوری تہذیب اور پوری دنیا کے تاثرات، افکار، خیالات اس کے تہذیبی ماحول میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ وہ انہی خیالات سے اپنی فکر کو تقویت دیتا ہے۔ جب لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے افکارو نظریات اور خیالات جمود کا شکار ہوجاتے ہیں تو ایسے حالات میں درد مند شخص ہی کوشش کرتا ہے کہ اس دشت رائیگاں میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں۔ شام الم صبح بہار میں تبدیل ہوجائے اور زندگی حقیقت کی طرف رواں دواںہوجائے لیکن ہمارا سماج ایسے لوگوں کے افکارو نظریات، خیالات اور جذبات واحساسات کے ذریعے اپنے فکری رویوں کو درست نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگوں کی تو ہر زمانے میں ناقدری ہی رہی ہے
وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو آپ اپنی مثال تھے وہ کہاں گئے
مرے ذہن کا یہ شجر اداس اداس ہے
وہ جو طائرن خیال تھے وہ کہاںگئے
دنیا میں جو اہل دل رہے ہیں
آزردہ وہ مستقل رہے ہیں
آج اس جدیدیت کے زمانے میں جہاں ہر کوئی اپنی ظاہری مسرت وانبساط کا اظہار کررہا ہے۔ دولت اور مادیت کو اپنی عظمت کا معیار مقرر کررہا ہے۔ حقیقت میں وہ ساری خوشیاں، عظمتیں، روایات جھوٹی ہیں۔ تہذیب ایک کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹی روایات، ناقدری، مادیت پرستی کے کھنڈروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں خشک اور ویران خطے ہی باقی ہیں۔ ہر طرف دشت ہی دشت بلکہ دشت رائگاں جہاں زندگی کے آثار دم توڑ چکے ہیں۔ یہاں مجھے بے اختیار مختار مسعود کی ایک بات یاد آگئی جو ہمارے اس تہذیبی رویوںکی عکاسی کرتی ہےٜٴٴبستی، گھر اور زبان خاموش، درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔مٹی، موسم اور لب خشک، ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیںمارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی۔ جہاں مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئیٴٴ۔
آج زندگی ہم سے بہت دور نکل گئی ہے۔ خورشید رضوی کی شاعری اس منظر کو تلاش کرتی جہاں زندگی حقیقی طور پر طمانیت اور تسکین پاتی تھی۔ جب وہ زندگی کے ایسے مناظر دیکھتے ہیں جہاں زندگی کے معنی ختم ہوگئے ہیں ہر فرد ریاکاری کا شکار ہے۔ تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں
رمز یہ کھل جائے تو دنیا میں دل پھر کیا لگے
پاس سے دیکھیں تو مٹی دورسے دریا لگے
...................................................
شکریہ روزنامہ الشرق۔ 6 اپریل 2009ء
www.dailysharq.com/epaper