نوید صادق
محفلین
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں
ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں
زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ
ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں
لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں
خود اپنا حال سناتے حجاب آتا ہے
ہے بزم میں کوئی دیرینہ آشنا کہ نہیں
ابھی کچھ اس سے بھی نازک مقام آئیں گے
کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں
پڑو نہ عشق میں خورشید ہم نہ کہتے تھے
تمہیں بتاوء کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں
شاعر: خورشید رضوی
کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں
ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں
زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ
ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں
لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں
خود اپنا حال سناتے حجاب آتا ہے
ہے بزم میں کوئی دیرینہ آشنا کہ نہیں
ابھی کچھ اس سے بھی نازک مقام آئیں گے
کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں
پڑو نہ عشق میں خورشید ہم نہ کہتے تھے
تمہیں بتاوء کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں
شاعر: خورشید رضوی