خورشید فریدآبادی - "اِس قد مایوُس فِطرت ہو گئی تیرے بغیر"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
خورشید فریدآبادی
اِس قدر مایوُس فِطرت ہو گئی تیرے بغیر
رنْج سے بدلی ہُوئی ہے ہرخوشی تیرے بغیر
بادۂ رنگیں کی لذّت، زہْرتھی تیرے بغیر
تیری آنکھوں کی قسم، ہم نے نہ پی تیرے بغیر
صُبحِ گُلشن، ہے شبِ افسُردگی تیرے بغیر
لوٹ جاتی ہے، بہار آئی ہوئی تیرے بغیر
اب، مِری محرومیوں پر فصلِ گُل ہے طعنہ زن
مُسکرا کر چھیڑتی ہے، ہر کلی تیرے بغیر
کائناتِ حُسن پر تاریکیاں چھانے لگیں
ہو رہا ہے گُل، چراغِ عاشقی تیرے بغیر
تجھ سے چھُٹ کر، کتنا پھیکا پڑگیا ہے رنگِ گُل
ہوگئیں بیلے کی کلّیاں، سانْولی تیرے بغیر
کل، جہاں پر ذرّہ ذرّہ طُور در آغوش تھا !​
آج، اُس گھر میں نہیں ہے روشنی تیرے بغیر
دل نہیں جھُکتا ہے پہلے کی طرح، سجدوں کے ساتھ
نا مُکمّل ہے مذاقِ بندگی تیرے بغیر
آفتابِ روزِ محشر بن گیا فرقت میں چاند
ہو گئی نارِ جہنّم، چاندنی تیرے بغیر
ہر اُجالے پر انْدھیرے کا گُماں ہونے لگا
شامِ غم ہے میری صُبحِ زندگی تیرے بغیر
ہو گیا طاری خیالوں پر جہنّم ہوش کا
چِھن گئی ہے مجھ سے خلدِ بیخودی تیرے بغیر
اے مِری اُمّید کے چاند! اِتنا بتلادے مجھے!​
میرے گھر میں کیوں نہ نکلی، چاندنی تیرے بغیر
ہر تمّنا کو، شبِ فُرقت کچل کر رکھ دیا
ہم کو اپنے دل سے ضِد سی ہوگئی تیرے بغیر
نزْع کے عالم میں گُذرا ہے مِرا دَورِ فِراق
موت کے دامن میں کھیلی زندگی تیرے بغیر
ظاہراََ دنیا جسے محسُوس کرسکتی نہیں
ہوگئی ہے مجھ میں اِک ایسی کمی تیرے بغیر
خُونِ دل ٹپکا کِیا، خورشید کے ہر لفظ سے
ہوگیا رنگیں مذاقِ شاعری، تیرے بغیر
خورشید فریدآبادی
 
Top