مصحفی خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا ۔ مصحفی

فرخ منظور

لائبریرین
خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا

سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا

معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا

کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا رکھا

قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو (پھر؟) اس نے
نامہ کے کئے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا :)

بے یار و دیار اپنے جیتا تو رہا میں پر
رکنے نے میرے جی کے دم میرا خفا رکھا

کس لب کے تبسّم نے چھڑکا تھا نمک ان پر
زخموں کے الم نے شب تا صبح مزا رکھا

کیا جانئے کب کا تھا میرا یہ فلک دشمن
جو اُس مہِ تاباں کو نت مجھ سے جدا رکھا

میں اپنے ہنر کا ہی بندہ ہوں کہ کل میں نے
پہلو میں دل اپنے کو پیکاں سے سجا رکھا

دیکھ اُس کی ادا یارو بس میں تو گیا مر ہی
جوں ہاتھ کو قاتل نے قبضہ پہ ذرا رکھا

اے مصحفی میں کس کی رفتار کا کشتہ تھا
ہر شعر میں میں نے جو انداز نیا رکھا

(غلام ہمدانی مصحفی)

 

جیہ

لائبریرین
بقول بابا جانی مصحفی کی کیا بات ہے

مصحفی کی ذات دہلی اور لکھنو انداز سخن کی نمائندہ ہے۔ افسوس کہ مصحفی کی شاعری کو انشاء کے معرکوں نے کافی زک پہنچائی۔ یہاں تک اس کو گوشہ نشین ہونا پڑا۔
مصحفی ایک سنجیدہ شاعر تھے مگر لکھنو کے ابتذال سخن ، جہاں معاملہ بندی فحاشی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے، سے آپ کو بچا نہ سکے۔ یہ شعر اسی کی ایک مثال ہے۔

سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا 
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب اس خوبصورت غزل کیلیے!

اس شعر میں آپ نے 'پھر' کو قوسین میں کیوں قید کر دیا اور بھی ایک سوال بنا کر :)

واہ واہ وارث صاحب یہ بات صرف آپ نے ہی نوٹ کی۔ قبلہ یہ "پھر" میں نے لگایا ہے کیونکہ اصل کتاب میں یہاں "پھر" نہیں ہے لیکن معلوم نہیں کیوں مجھے پھر کے بغیر شعر وزن سے خارج لگ رہا تھا اسی لئے پھر لگا کر سوالیہ نشان لگا دیا تاکہ کوئی صاحبِ علم اس پر کچھ رائے دے۔ اب آپ ہی کچھ بتائیں گے کہ پھر کے بغیر یہ وزن میں ہے یا نہیں اگر ہے تو پھر ہٹا دیتا ہوں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہٹا کر غلطی کریں گے بالکل ویسے ہی جیسے کاتب نے کی ہے :)

اس کے بغیر شعر واقعی وزن سے خارج ہو جاتا ہے آپ نے بالکل صحیح پہچانا :)
 
Top