خوشامد،عادت یا مجبوری

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دنیا میں مختلف اقسام کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان اقسام میں دو طرح کی اقسام کا میں ذکر کروں گا۔ ایک ہوتے ہیں بےوقوف یا سادہ لوگ اور دوسرے ہوتے ہیں ذہین یا چلاک لوگ۔ اکثر وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ذہین یا چلاک ہوتے ہیں۔ ذہین لوگ اپنی ذہانت سے اور چالاک لوگ اپنی چلاکی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن بے وقوف اور سادے لوگ دونوں صورتوں میں ناکام ہی ہوتے ہیں۔ کچھ بے وقوف اور سادہ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو سمجھ لگ جاتی ہے کہ وہ بے وقوف یا سادہ ہیں۔ لیکن اس کا ذکر سب کے سامنے کر نہیں سکتے۔ اصل میں چلاک لوگ یا اس طرح کے جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ بے وقوف لوگوں اور سادے لوگوں کو ، خوشامد ، چاپلوسی یا پھر جی حضوری کے ذریعے ان کو مزید بے وقوف بنا لیتے ہیں اور اپنا کام ہو جانے کے بعد توں "کون تے میں کون" والا حساب ہو جاتا ہے
خوشامد، چاپلوسی یا پھر جی حضوری یہ تینوں کام اخلاق سے گرے ہوئے کام ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جھوٹ بھی ہوتا ہے جس کی مدد سے انسان خود تو ظاہری کامیابی حاصل کر لیتا ہے لیکن اصل میں خود بھی ناکام ہو رہا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی بے وقوف بنا کر ناکام کر رہا ہوتا ہے۔ خوشامد یا چاپلوسی، ہمیشہ اس بندے کی کی جاتی ہے۔ جو اس قابل نہیں ہوتا، اس کے منہ پر اس کی ایسی تعریف کی جاتی ہے، جو اس میں پائی ہی نہیں جاتی۔ ظاہر ہے جو خواص اس میں پائے ہی نہیں جاتے ان کی تعریف کرنا جھوٹ ہی ہے۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کسی کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے سنا تو فرمایا:
"تم لوگوں نے اسے تباہ و برباد کردیا اس کی پیٹھ کو پھاڑ دیا"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی آدمی کا ذکر ہوا تو ایک شخص نے اس کی بڑی تعریف کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعریف سن کر فرمایا
"تیرا بُرا ہو تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی"​
سادے اور میرے جیسے بے وقوف دوستوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ ایسی بے جا تعریف ، جو آپ کہ منہ پر تو کی جائے ، لیکن محفل میں یا آپ کی کمر پیچھے نا کی جائے، یا ایسی کوئی بات جس کے قابل آپ نا ہوں اور دوسرا آپ کو اتنا قابل بیان کرے لیکن صرف اور صرف آپ کے سامنے ۔ تو سمجھ جائیں کہ آپ کی خوشامد کی جا رہی ہے۔​
میری تمام دوستوں سے درخواست ہے، ظاہر دوست، نیٹ کے دوست، بلاگرز حضرات، اردو محفل، پاک نیٹ یا کسی بھی فورم، یا میرے بلاگ پڑھنے والے قاری ان سے سے میری درخواست ہے کہ میری حوصلہ افزائی ضرور کریں، اگر میں ٹھیک ہوں تو مجھے ٹھیک کہیں اور میں ٹھیک نہیں ہوں تو میں غلط کہیں۔ تاکہ میں اپنے آپ کو درست کر سکوں۔ ویسے تو میں کوئی اتنا قابل یا اتنا اہم نہیں ہوں کہ آپ میں سے کسی کو مجھ سے کام پڑے گا، لیکن پھر بھی میری خوشامد سے زیادہ اگر میری تنقید برائے اصلاح کریں گے تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔​
 
Top