زیاں کاری کے اک جغرافیے میں
نئی تہذیب کا وہ آدمی ہوں میں کہ جس پر قرنوں کی پھیلی سفاہت کے تعاقب کا علی الاعلان الزامِ جنوں ہے
مجھے آنکھوں کے ہر ہر حاشیے کی گھپ اندھیری منزلوں کا راہ رَو بننے کی سازش میں ملایا جا چکا ہے
مجھے رسمِ تمرّد کی سپہ کاری کا منصب سونپ کر مجھ ہی سے میرا قتل کروایا گیا ہے
مری ہر جنبشِ رگ اضطرابِ بے نفَس کی نا سزا واری میں کب سے جُت چکی ہے
مرا ہر خود گزیدہ فعل مجھ سے منصبِ آوارگی کی حرص کے عوضانے میں مصدور فرمایا گیا ہے
تمام آفاق میری بے تمیزی کے شفق سے جل کے کالے ہو چکے ہیں
مگر میرے اصولوں کی سیہ تابی نے اپنے فوجیوں کے اسلحوں سے امن کی چادر میں رخنہ کر دیا ہے
لہو کے جوہرِ لعلیں کے نرخوں کو پرائے پتھروں سے نیچ کرکے کھوکھلی بنجر زمیں میں دفن کر ڈالا گیا ہے
میں اب خاموشیوں کے بےصدا زنداں نمائے دل کی گہرائی سے بالکل بے خبر ہوں
وہ دھاگے جو مجھے مہر و وفا کے سلسلوں سے باندھ رکھتے تھے وہ اب اک موئے آتش دیدہ کی رنگت میں بالکل ڈھل گئے ہیں
زمیں سے استواری کے تعلق کے سبھی رشتوں نے باگیں کھینچ کر مجھ کو ہوا میں اس طرح لٹکا دیا ہے
کہ سر پر نُہ سپہرِ عافیت کا سائباں ہے اور نہ قدموں میں طنابِ ارض کی وارستگی ہے
اصولِ زندگی کے دفترِ نوخیز کے ہر صفحے پر یہ لفظ کندہ ہیں:
”تکلم جرم ہے“، ”جينا سزا ہے“، ”آگہی تقصیر ہے“، اور ”وقت قاتل ہے“
بزورِ تیغ مجھ سے ان گراں سنج آیتوں کے نقش پر ایمان لانے کا کہا جاتا رہا ہے
مگر میں اس نئی تہذیب کے ہر قاتلانہ آئینِ ناگفتہ بِہ کو روندنے کی جرأتِ رندانہ کا آدیش پانا چاہتا ہوں
مجھے اہرامِ پارینہ میں دفن آبا پرستی کی تمازت خیز آتش میں نئے دورِ تفاخر کا تکلم ڈالنا ہے
مجھے آنکھوں کے گہرے حاشیوں میں ”علم را برتن زنی مارے بُود“ کی لوح کا متن اس طرح سے نقل کرنا ہے؛
کہ اشکوں میں نمازِ جلوۂ حق آشنا کی کُل ادائی ہر ادائے بندگی میں طے نظر آئے
وفا کیشی سے لبریز اہلِ دل کی قربتوں میں پھر سے حاضر ہو کے اپنے عہد کی نسلوں کے ایماں کو بچانا ہے
مجھے انسان بننا ہے
مجھے اِس دور کی ہر خلوتِ مخفی سے ظاہر ہو کے یوں تحلیل ہونا ہے
کہ روحِ آدمی سے جسمِ آدم زاد کا ہم رنگِ خوں رشتہ جُڑا جائے
سبھی ارضی قراطیسوں پہ اپنے لمس کی تحریر یوں لکھنی ہے گویا وہ مرا ہی صفحۂ تقدیر بن جائے
مجھے وہ لفظ دھو کر اپنے حقّ خود ارادیت کی سطریں ثبت کرنی ہیں جہاں پر یہ لکھا ہو: ”جرم ہے جینا“
مجھے جینے کی جعلی نقل میں روح اس طرح آباد کرنی ہے کہ آبِ زندگانی بھی دوامِ ذات کی مجھ سے سند پائے
مجھے اس دورِ نوآباد سے اپنے تعلق کے تمام آئینے پتھر پر پٹخنے ہیں
کہ میں وہ عکس بھی آنکھوں کی چشمک سے بُھلا دوں جو مجھے اس رسم سے باندھے ہوئے ہے:
”تکلم جرم ہے“، ”جينا سزا ہے“، ”آگہی تقصیر ہے“، اور ”وقت قاتل ہے“
چاہے صدیوں کے تازیانے بھی
تیز شعلوں کے آفروزے بھی
آفتابی شعاع زادے بھی
آتشک کے مہیب لاٹے بھی
یورش انداز ہوں بہم
پھر بھی
پوششِ احمریں کے پردے میں
دائمیؔ نکہت آفرینی سے
گل محبّت کا تازہ رہتا ہے