خوشبو نے کیا پھول سے ناتہ تھوڑا ہے

احمد وصال

محفلین
خوشبو نے کیا پھول سے ناتا توڑا ہے
اس نے بھی ناراضی میں منہ موڑا ہے

روئی جیسے دھنکتا ہے یہ روز مجھے
ماضی کے ہاتھوں میں کیسا کوڑا ہے

اپنا بچپن جیب میں ڈالے پھرتا ہوں
اک جگنو ہے، اک مٹی کا گھوڑا ہے

گھر بنتا ہے کب اس گارے مٹی سے
بابا نے یہ خون پسینہ جوڑا ہے

وحشت میں دیوانہ سر پھوڑے کس سے؟
اک تیشہ، اک بیلچہ، ایک ہتھوڑا ہے

اس نے میرا کہنا مان لیا تھا، ہائے
نیند سے کیوں بے وقت مجھے جھنجھوڑا ہے؟

احمدؔ ! ماں انجان مری ان باتوں سے
کس کا زیادہ حصہ، کس کا تھوڑا ہے
۔۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ماشاءاللہ! لہجہ خوب صورت ہے۔ غزل بھی دل کی تاروں کو چھو گئی۔ اس لڑی کے عنوان میں شاید کچھ غلطی رہ گئی ہے؛ اس جانب توجہ دیجیے گا۔ غالباً 'ناتہ' اور 'تھوڑا' کو 'ناتا' اور 'توڑا'کے الفاظ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔
 

احمد وصال

محفلین
ماشاءاللہ! لہجہ خوب صورت ہے۔ غزل بھی دل کی تاروں کو چھو گئی۔ اس لڑی کے عنوان میں شاید کچھ غلطی رہ گئی ہے؛ اس جانب توجہ دیجیے گا۔ غالباً 'ناتہ' اور 'تھوڑا' کو 'ناتا' اور 'توڑا'کے الفاظ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔
جی بالکل۔۔ نشاندہی کے سپاس گزار ہوں
اگر کوئی ایڈمن تصحیح کر دے تو نوازش ہوگی
 
آخری تدوین:
Top