کاشف اسرار احمد
محفلین
بھر لو چاہے جہاں سے مٹھی میں !
خوشبو ہوگی یہاں کی مٹّی میں !
قرب کا لمس ہے نیا اُس کو
یہ انگوٹھی نئی ہے انگلی میں !
سرسری خیریت لکھی ہے مگر
ایک آسودگی ہے چٹھی میں!
چاند کا عکس تجھ سا لگتا ہے
ایک حُسنِ یقیں ہے پانی میں !
آخری اشک پی کے اٹھیئے گا
بیٹھئے آپ، میں ہوں جلدی میں!
خیمہ گاہِ فراق یار سے چل
تلخ ایّام چھوڑ ماضی میں !
بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !
خواب آنکھوں میں اور چبھتے ہیں
وقت کی ریت ہو جو مٹھّی میں!
اب جھلکتا ہے تجربہ کاشف
عمر جھانکے ہے سر کی چاندی میں!
خوشبو ہوگی یہاں کی مٹّی میں !
قرب کا لمس ہے نیا اُس کو
یہ انگوٹھی نئی ہے انگلی میں !
سرسری خیریت لکھی ہے مگر
ایک آسودگی ہے چٹھی میں!
چاند کا عکس تجھ سا لگتا ہے
ایک حُسنِ یقیں ہے پانی میں !
آخری اشک پی کے اٹھیئے گا
بیٹھئے آپ، میں ہوں جلدی میں!
خیمہ گاہِ فراق یار سے چل
تلخ ایّام چھوڑ ماضی میں !
بھوک میں آج بھی وہی معیار
چاند دکھتا ہے سب کو روٹی میں !
خواب آنکھوں میں اور چبھتے ہیں
وقت کی ریت ہو جو مٹھّی میں!
اب جھلکتا ہے تجربہ کاشف
عمر جھانکے ہے سر کی چاندی میں!