طارق شاہ
محفلین
غزل
خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح
ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح
پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال!
تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح
بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی
گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح
ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے!
گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی طرح
کچھ کم غضب تھا لَوٹنا فُرقت میں رات دِن
کانٹوں پہ دِل کا بسمل و بیتاب کی طرح
محض اِنتِظار سے مِری آنکھیں نہیں گئیں!
بہنا بھی ساتھ پہروں تھا سیلاب کی طرح
ٹھہرا یُوں احتسابِ عَمل لازمی خلشؔ!
بد دِل ہُوئے جلیس بھی احباب کی طرح
شفیق خلشؔ
خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح
ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح
پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال!
تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح
بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی
گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح
ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے!
گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی طرح
کچھ کم غضب تھا لَوٹنا فُرقت میں رات دِن
کانٹوں پہ دِل کا بسمل و بیتاب کی طرح
محض اِنتِظار سے مِری آنکھیں نہیں گئیں!
بہنا بھی ساتھ پہروں تھا سیلاب کی طرح
ٹھہرا یُوں احتسابِ عَمل لازمی خلشؔ!
بد دِل ہُوئے جلیس بھی احباب کی طرح
شفیق خلشؔ