محمد بلال اعظم
لائبریرین
خوش نصیب
”خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے“
(واصف علی واصف)
واصف علی واصف کا کہا گیا یہ ایک فقرہ پوری انسانی زندگی کا خلاصہ ہے۔ ہم ایک مطمئن زندگی اِس اصول پہ عمل کر کے گزار سکتے ہیں۔ ہمارا دامن شیشے کی طرح صاف اور پانی کی طرح شفاف ہو سکتا ہے۔ ہمارا ایمان کامل ہو سکتا ہے۔ ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ صرف یہ سوچ کر کہ مالکِ کائنات نے جو ہمارے لئے لکھ دیا ہے وہی سب سے بہتر ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ہمارا پروردگار ہے، اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور پھر ایک بنانے والا اپنی چیز کے بارے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اُس کے لئے کیا اچھا ہے اور کیابرا ہے۔ مگر ہم انسان شاید ہم نے اِس سوچ کو اپنی سرشت کا حصہ بنا چکے ہیں اگر یہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا، اگر وہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ہو گیا وہی سب سے بہتر تھا۔میں اس زمن میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا کہ ایک شخص ہر قسم کی دنیاوی دولت سے مالا مال ہے، عزت، شہرت، روپیہ، پیسہ ہر نعمت اُس کو میسر ہے، مگر پھر بھی وہ پریشان رہتا ہے، کسی تذبذب کا شکار ہے، کوئی انجانا غم اُس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، اس کو کسی صورت اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔ اسی کیفیت کی وجہ سے گھر میں ہر وقت بے سکونی فضا چھائی رہتی ہے، لڑائی جھگڑا معمول بن گیا ہے، المختصر کہ ہر چیز ہوتے ہوئے بھی کچھ میسر نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس وہ شخص جو فقر و فاقہ کی زندگی بسر کر رہا ہے، تنگ دست بھی ہے، تہی دست بھی، مگر اس کا دل ایمان و یقین کی دولت سے مالامال ہے، کچھ نہ بھی ہوتے ہوئے سب کچھ میسر ہے۔ اس کا قلب نور کی دولت سے مالا مال ہے۔ وہ اپنے نصیب پر خوش ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا ہے اور بقول کسے ”یہ خود انفرادیت بہت بڑا اعزاز ہے۔“
خوش نصیبی کا تعلق ہم علامہ اقبال کے فلسفہءخودی کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیںکہ جس انسان کو اللہ پر جتنا کامل یقین ہو، وہ اتنا زیادہ خودی کے قریب ہو جاتا ہے اور سکونِ قلب کی دولت انسان کے قدموں میں بچھتی چلی جاتی ہے۔ بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کوسکون ملتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آ رہا ہے، آپ سے شئیر کر دیتا ہوں، کہا جاتا ہے کہ کسی گاﺅں میں دو بھائی رہتے تھے، ایک دفعہ ایک چڑیا اُن کے پاس آئی اور کہا کہ میں دور دیس جا رہی ہوں، میں وہاں سے تمہیں ہر سال دو پتے لا کر دیا کروں گی، ایک اطمینان کا پتہ اور ایک دولت کا پتہ، تمہیں کون کونسا پتہ چاہئے، بڑے بھائی نے اطمینان کا پتہ اور چھوٹے بھائی نے لالچ کی وجہ سے دولت کا پتہ منگوایا۔چڑیا اُن کو پتے لا کر دیتی رہی۔ بڑا بھائی غریب رہا مگر مطمئن زندگی بسر کرتا رہا جبکہ چھوٹا بھائی امیر ہوتا گیا مگر لڑائی جھگڑے بڑھتے رہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پیسہ دنیاوی سکون تو بے شک مہیا کر دے مگر روحانی سکون صرف اطمینانِ قلب سے ہی میسر آتا ہے اور یہ اسی انسان کے حصے میں آ سکتا ہے، جو اپنے نصیب پر خوش ہے نہ کہ اس انسان کے حصے میں جو ہر وقت محرومئی آرزو کا شکوہ کرتا پھرے۔محرومئی آرزو کا شکوہ کرنا
ہے رنج میں اور رنج پیدا کرنا
(محمد بلال اعظم)