سید شہزاد ناصر
محفلین
سچا واقعہ
۳۵۰؍کلو وزنی، ۷؍فٹ اونچا ریچھ حملے کے لیے تیار تھا
خونخوار برفانی ریچھ کے سامنے
خونخوار برفانی ریچھ کے سامنے
جب ایک نرم خو، پست قامت عورت کی زندگی کا سچا دائو پہ لگ گئی۔
اس کا جسم کمزور مگر ممتا کا جذبہ بہت طاقتور تھا
ایک جان لیوا واقعے نے اسے شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا
اس کا جسم کمزور مگر ممتا کا جذبہ بہت طاقتور تھا
ایک جان لیوا واقعے نے اسے شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا
ضمیر احمد
دیکھیے بھیڑیا۔‘‘ ۵؍ سالہ پلونسی نے اپنی خالہ، ۴۱؍ سالہ لیڈیا انجولی کا بازو ہلاتے ہوئے بتایا۔
لیڈیا یہی سمجھی کہ نٹ کھٹ پلونسی مذاق کر رہی ہے۔ وہ اپنی دونوں بھانجیوں اور چھوٹے بیٹے، ۷؍ سالہ جیسی کو ساتھ لیے اپنے گھر جا رہی تھی۔ خاصی رات بیت چکی تھی اور انھوں نے ابھی ایک رشتے دار کے ہاں پُر تکلف دعوت اڑائی تھی۔
یہ سبھی قطب شمالی کی سرحد پر آباد ایک کینیڈین گائوں آئیوجیک کے باسی اور اسکیمو تھے۔ گائوں کے اردگرد برفانی جانور دیکھے گئے تھے مگر آج تک کوئی سڑکوں پر نہیں آیا تھا۔ وہاں تقریباً ڈھائی سو افراد بستے تھے۔
اب پلونسی دوبارہ سرگوشی کرتے ہوئے ڈری آواز میں بولی، ’’خالہ! وہ واقعی بھیڑیا ہے۔‘‘
تب مقامی اسکول کی استانی اور پانچ بچوں کی ماں، لیڈیا نے مڑ کر دیکھا۔ سب سے پیچھے جیسی آ رہا تھا۔اس نے کپڑوں کا پلندہ اوڑھ رکھا تھا کیونکہ درجہ حرارت منفی۳۰؍درجے سینٹی گریڈ تھا۔ لیڈیا پہلے اسے ہی بھیڑیا سمجھی۔ لیکن پھر یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں کہ جیسی کے پیچھے ایک ۳۵۰؍ کلو وزنی برفانی ریچھ اسے گھور رہا تھا۔
چند لمحے کے لیے وقت جیسے تھم گیا۔ پھر لیڈیا نے جیسی کو پیچھے دیکھنے کا اشارہ کیا۔ انجان لڑکے نے جیسے ہی برفانی بلا دیکھی تو چیخ مار کر ماں کی طرف دوڑ پڑا۔
آناً فاناً خون موجیں مارتا لیڈیا کے دماغ میں پہنچ گیا۔ اعصاب تن گئے اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر انتہائی خطرناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گئی۔
وہ بنیادی طور پر پست قامت اور نرم خو عورت تھی۔ آج تک کسی سے اس کا جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب مادرانہ جبلت نے اسے خونخوار شیرنی بنا دیا۔ تب اس ۵؍ فٹ اور ۴۵؍ کلو وزن کی مالک عورت نے اپنے بدن میں غیر معمولی توانائی محسوس کی۔ وہ چلا کر بچوں سے بولی:یہ سبھی قطب شمالی کی سرحد پر آباد ایک کینیڈین گائوں آئیوجیک کے باسی اور اسکیمو تھے۔ گائوں کے اردگرد برفانی جانور دیکھے گئے تھے مگر آج تک کوئی سڑکوں پر نہیں آیا تھا۔ وہاں تقریباً ڈھائی سو افراد بستے تھے۔
اب پلونسی دوبارہ سرگوشی کرتے ہوئے ڈری آواز میں بولی، ’’خالہ! وہ واقعی بھیڑیا ہے۔‘‘
تب مقامی اسکول کی استانی اور پانچ بچوں کی ماں، لیڈیا نے مڑ کر دیکھا۔ سب سے پیچھے جیسی آ رہا تھا۔اس نے کپڑوں کا پلندہ اوڑھ رکھا تھا کیونکہ درجہ حرارت منفی۳۰؍درجے سینٹی گریڈ تھا۔ لیڈیا پہلے اسے ہی بھیڑیا سمجھی۔ لیکن پھر یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں کہ جیسی کے پیچھے ایک ۳۵۰؍ کلو وزنی برفانی ریچھ اسے گھور رہا تھا۔
چند لمحے کے لیے وقت جیسے تھم گیا۔ پھر لیڈیا نے جیسی کو پیچھے دیکھنے کا اشارہ کیا۔ انجان لڑکے نے جیسے ہی برفانی بلا دیکھی تو چیخ مار کر ماں کی طرف دوڑ پڑا۔
آناً فاناً خون موجیں مارتا لیڈیا کے دماغ میں پہنچ گیا۔ اعصاب تن گئے اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر انتہائی خطرناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گئی۔
’’یہاں سے بھاگو اور زیادہ سے زیادہ دور ہو جائو۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ قطبی ریچھ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ جب حیوان نے بچوں کو بھاگتے دیکھا تو لیڈیا کے دائیں طرف سے ہوتے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔ ظاہر ہے، لیڈیا کی نسبت بچے اس کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتے۔ لیکن ماں بھی اس کے ساتھ ساتھ ہلی اور حیوان و بچوں کے درمیان دیوار بن گئی۔ یہ دیکھ کر ریچھ طیش میں آ گیا۔
وہ پھر دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور منہ سے دبی غراہٹیں نکال کر لیڈیا کو خوفزدہ کرنے کی سعی کرنے لگا۔ وہ تقریباً ۷؍فٹ اونچا تھا۔ لیڈیا نے اب تک برفانی ریچھوں کے بچے دیکھے تھے۔ اب ایک لمبا چوڑا ریچھ دیکھا تو قدرتاً اس نے خوف محسوس کیا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ برفانی ریچھ کھڑے ہو کر شکار پر وار کرتے ہیں۔ یہ احساس ہوتے ہی وہ حملے کے لیے تیار ہو گئی۔
اس وقت تک بچے بھاگ کر خاصی دور جا چکے تھے،گویا ریچھ کی دسترس سے نکل گئے۔ بچوں کی طرف سے اطمینان ہوا تو اب لیڈیا کو اپنی فکر ہوئی اور وہ بھی بھاگ کھڑی ہوئی۔
بدقسمتی سے برف نرم تھی، لہٰذا لیڈیا کے پائوں اندر دھنس جاتے۔ اس امر نے بھاگنے کی رفتار سست کر دی۔ ادھر برفانی ریچھ بھربھری برف پر چلنے و بھاگنے کا عادی تھا۔ اسی لیے وہ جلد ہی لیڈیا کے سر پر آ پہنچا۔
ریچھ نے پیچھے سے لیڈیا کی کمر پہ پنجہ مارا تو وہ منہ کے بل نیچے جا گری تاہم زخمی نہ ہوئی۔ کیونکہ اول اس نے موٹے کپڑے پہن رکھے تھے۔ دوم برف بھربھری تھی۔ لیڈیا فوراً کمر کے بل لیٹی اور سائیکل کے مانند ٹانگیں چلا کر ریچھ کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ساتھ ہی وہ مدد کے لیے چلا رہی تھی۔
٭٭٭
۷؍ سالہ جیسی دیوانہ وار بھاگتا اپنی ماں کے ساتھی، سرکولک ایسنک کے گھر پہنچ گیا۔ سر کولک لیڈیا کے اسکول ہی میں پڑھاتا تھا۔ سمجھ دار لڑکا اس کے گھر رائفل دیکھ چکا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد سر کولک رائفل لیے جائے وقوعہ پر پہنچا۔ تب تک ریچھ پنجے مار مار کر لیڈیا کے جسم پر خاصی خراشیں ڈال چکا تھا۔ کمزور عورت موذی جانور کا مقابلہ کرتے کرتے بے حال ہو چکی تھی۔ سر کولک جان گیا کہ مزید دیر ہوئی تو بیچاری لیڈیا بھوکے حیوان کے خونخوار دانتوں کا نشانہ بن کر جان سے جائے گی۔ اس نے دو گولیاں چلا کر ریچھ کو مار ڈالا۔
٭٭٭
فائرنگ کی آوازوں نے گائوں کے تقریباً سبھی باشندوں کو چوکنا و ہوشیار کر دیا۔ وہ معاملے کی خبر لینے گھروں سے نکل آئے۔ چند منٹ میں لیڈیا کے گرد ہجوم جمع ہو گیا۔ اب اسے اسپتال لے جانا ضروری تھا۔
لیڈیا نیم بے ہوشی کی حالت میںتھی۔ جلد ہی ایک پڑوسی وہاں اپنی وین لے آیا۔ اسپتال پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ پڑوس سے پتا چلا کہ اکلوتا ڈاکٹر ایک دعوت پر گیا ہے۔ اسی دوران وہاں گائوں کے دو سپاہی آ پہنچے۔ انھوں نے فون کر کے ڈاکٹر کو بلا لیا۔ یوں زخمی لیڈیا کا علاج شروع ہوا۔
اگلے دن صبح سویرے خوفزدہ جیسی اپنے دیگر بہن بھائیوںاور کزنز کے ساتھ ماں کو دیکھنے پہنچا۔ اس کی بہنیں اور بھائی بھی آئے۔ سبھی کا کہنا تھا ’’تم نے بچوں کو بچا لیا۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ منحنی اور کمزور لیڈیا نے زبردست دلیری کا مظاہرہ کیا۔ دیوہیکل اور خونخوار برفانی ریچھ کے سامنے بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔ لیکن لیڈیا محض بچوں کو بچانے اس موذی کے سامنے ڈٹ گئی اور جی داری کا ثبوت دیاجس کا مظاہرہ صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ اس کی ہمت کو سپاہیوں اور ڈاکٹر سمیت قصبے کے سبھی لوگوں نے سراہا۔
بعدازاں شمالی کیوبک کے اسکیموئوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم، ماکیویک (Makivik) کارپوریشن نے بے مثال ہمت و استقلال دکھانے پر لیڈیا کو ’’تحفہ دلیری‘‘ سے نوازا۔ بعدازاں وہ ’’گورنر جنرل ایوارڈ‘‘ کے لیے بھی نامزد ہوئی۔ دنیا بھر میں لیڈیا کی داستان چھپی۔ آئیوجیک میں تو لیڈیا شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی۔
لیری ہبرٹ ۱۵؍ سال تک علاقے کا تھانیدار رہا۔ وہ کہتا ہے ’’پہلے پست قامت لیڈیا استانی ہونے کے باوجود قصبے میں غیر معروف تھی۔ لیکن ریچھ سے مقابلے کے بعد ہرکوئی اسے مضبوط عورت سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ اسکول میں بھی طالب علم اب اس کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔‘‘
لیڈیا کے زخم مندمل ہو چکے تاہم کبھی کبھی اسے خوابوں میں برفانی ریچھ دکھائی دیتا ہے۔ وہ حیوان سے خوف نہیں کھاتی، مگر خصوصاً رات کو باہر نکلتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیتی ہے کہ آس پاس برفانی ریچھ تو موجود نہیں۔
بشکریہ اردوڈائجسٹ