خون جگر ہونے تک! ۔۔۔۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" تم خاموش مخالف سے کبھی نہیں جیت سکتے۔"
سال ہا سال میں یہ سمجھتا رہا کہ قلم ، تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ لیکن اب مجھے معلوم ہوا کے ایک کند چاقو سے بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔
میری تمام تخلیقیں بیکار تھیں۔
۔۔۔ ہمشیہ کی طرح آج بھی میں ساحل سمندر پر بیٹھا ہوں۔ مگر آج میرا دوست بہت دور ہے۔ وہ سمندر جس نے مجھے علم، عقلمندی اور بےانتہا محبت بخشی تھی اب واپس نہیں لوٹے گا۔ میں نےاس کا بہت دیر انتظار کیا۔۔۔
میری ساری زندگی عزت ، تعلیم، عقلمندی اور اخلاقی محبت پر مبنی تھی۔ آج وہ قالین کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے کھینچ لیا ہے۔ انسانی اور اخلاقی محبت ہار گئی ۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" اگر تمہیں نہیں پتہ کہ کب رکنا اور راستہ بدلناہے اور کب آگے بڑھنا ہے ۔ تم ہار جاؤ گے۔"
میں نہ تو رکا اور نہ ہی راستہ بدلا۔۔۔
۔۔۔ شاعری میں عاشق کا مقصدِ حصول، عشق یا محبوب کا پانا نہیں ہوتا ہے۔ اس کا کام توصرف اس حصول کے لیے چیغنا اور چلانا ہوتا ہے۔ شاعری میں جگر کو دل سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ عاشق کا دل نہیں روتا۔ اسکا جگر خون کے آنسو بہاتا تھا۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" دل کی کبھی جیت نہیں ہوتی۔"
کیا میری ننھی بہن سادیہ میرے پاس لوٹے گی۔
سمندر گہرا ،لہریں اونچی اور بہاؤ تیز ہے۔ میری ننھی سادیہ نازک دل ، کمزور اور ناسمجھ ہے۔
مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" تم خاموش مخالف سے کبھی نہیں جیت سکتے۔"
سال ہا سال میں یہ سمجھتا رہا کہ قلم ، تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ لیکن اب مجھے معلوم ہوا کے ایک کند چاقو سے بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔
میری تمام تخلیقیں بیکار تھیں۔
۔۔۔ ہمشیہ کی طرح آج بھی میں ساحل سمندر پر بیٹھا ہوں۔ مگر آج میرا دوست بہت دور ہے۔ وہ سمندر جس نے مجھے علم، عقلمندی اور بےانتہا محبت بخشی تھی اب واپس نہیں لوٹے گا۔ میں نےاس کا بہت دیر انتظار کیا۔۔۔
میری ساری زندگی عزت ، تعلیم، عقلمندی اور اخلاقی محبت پر مبنی تھی۔ آج وہ قالین کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے کھینچ لیا ہے۔ انسانی اور اخلاقی محبت ہار گئی ۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" اگر تمہیں نہیں پتہ کہ کب رکنا اور راستہ بدلناہے اور کب آگے بڑھنا ہے ۔ تم ہار جاؤ گے۔"
میں نہ تو رکا اور نہ ہی راستہ بدلا۔۔۔
۔۔۔ شاعری میں عاشق کا مقصدِ حصول، عشق یا محبوب کا پانا نہیں ہوتا ہے۔ اس کا کام توصرف اس حصول کے لیے چیغنا اور چلانا ہوتا ہے۔ شاعری میں جگر کو دل سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ عاشق کا دل نہیں روتا۔ اسکا جگر خون کے آنسو بہاتا تھا۔
ہزاروں سال پہلے ایک چائنیز فلاسفر نے لکھا۔
" دل کی کبھی جیت نہیں ہوتی۔"
کیا میری ننھی بہن سادیہ میرے پاس لوٹے گی۔
سمندر گہرا ،لہریں اونچی اور بہاؤ تیز ہے۔ میری ننھی سادیہ نازک دل ، کمزور اور ناسمجھ ہے۔
مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔