خونیں کھیل کب ختم ہوگا؟

عاطف بٹ

محفلین
10_01.gif
ربط
 
۔۔۔۔۔۔
اب تو بارود کا اک ڈھیر بنی ہے دنیا​
اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکا ہونا​
حسنِ نیت نہ میسر ہو تو انور صاحب​
ہے خطرناک بہت ذہنِ رسا کا ہونا​
۔۔۔۔۔۔ انور مسعود 1990۔​
 

یوسف-2

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ سانحہ کوئٹہ کولوگوں نے غلط طور پر کیوں فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا پس منظر شیعہ سنی جھگڑا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ وہاں ”پاکستان سے آزادی“ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اور اس جنگ میں ”مجاہدین آزادی“ کی راہ میں دو ہی قوتیں حائل ہیں۔ ایک سیکیوریٹی فورسز اور دوسرے وہ محب وطن اورپاکستان کے حامی ”پنجابی آبادکار“ جو عشروں سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور اُن کا جینا مرنا بلوچستان میں ہے۔ ہزارہ برادری کا ”اصل جرم پنجابی“ ہونا ہے، نہ کہ شیعہ ہونا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب سے باہر کے عوام پنجابی، سرائیکی، ہزارہ برادری سب کو صرف اور صرف ”پنجابی“ ہی سمجھتے ہیں۔ اور جن جن صوبوں اور علاقوں میں پاکستان سے ”آزادی کی تحریک“ چل رہی ہے وہاں کے ”مجاہدین آزادی“ کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دشمن ”فوج اور پنجابی“ ہی ہے۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں بھی چن چن کر فوجیوں اور پنجابیوں کو مارا جارہاتھا۔ اور آج یہی کام بلوچستان میں ہورہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جئے سندھ اور جئے مہاجر کے زیر اثر حلقوں اور علاقوں میں بھی فوج اورپنجابی ایک ”گالی“ ہے۔ ذرا ان حلقوں اور علاقوں میں عشروں سے آباد پنجابیوں کے دل سے پوچھئے کہ ”شہر میں ان کی آبرو کیا ہے“۔ اکثر لوگوں کا اب پنجاب میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی سالوں بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے پنجاب جاتے بھی ہیں تو ایک ”اجنبی مہمان“ کی طرح وہاں چند دن گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ ان پنجابی گھرانوں کے بچوں کو پنجابی بولنی تک نہیں آتی۔ ان کا رہن سہن ”پنجابیوں“ سے جدا اور ”مقامی رنگ ڈنگ“ والا ہوچکا ہے۔ یہ بچے اب پنجاب میں خود کو ”مس فٹ“ پاتے ہیں۔ اور اپنے ”موجودہ مقامات“ پر ”دشمن“ قرار پاتے ہیں کہ کوئی پنجابی انفرادی طور پر خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، کبھی بھی ”اینٹی پاکستان“ نہیں ہوسکتا اور وہ ہر صورت میں آزاد بلوچستان، آزاد سندھ، آزاد جناح پور کا مخالف ہی رہے گا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کو اہل تشعیع کے خلاف کاروائی نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی مجھے بتلائے کہ کیا بلوچستان میں ”مقامی اہل تشعیع“ نہیں پائے جاتے۔ اب تک کتنے بلوچی شیعہ مارے گئے ہیں؟ خدارا بلوچستان کے اصل مسئلہ کو سمجھئے۔ لوگون کی توجہ ”فرقہ وارانہ لڑائی“ کی طرف مبذول کراکے بی ایل اے والے اور ان کے بیرونی سرپرست کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اُس طرف نظر رکھئے۔ جذباتی شیعہ عوام بھی یہ ضرور سوچیں کہ وہ پاکستان میں غیر شیعہ عوام الناس کے ساتھ رہتے بستے، کام کرتے ہیں۔ کیا کبھی انہیں اپنے غیر شیعہ پڑوسی،ساتھ کام کرنے والے، کلاس فیلو وغیرہ سے ”خوف“ محسوس ہوا ہے کہ وہ انہیں قتل کردینا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں (دینی اختلاف رائے تھا، ہے اور رہے گا)۔ اس وقت ملک اور صوبوں کے بیشتر اہم مناصب پر شیعہ برادری کے افراد کام کررہے ہیں۔ ایسے میں بحیثیت ایک برادری، ان کا حکومت کے خلاف عوامی مقامات میں دھرنا دینا چہ معنی دارد؟ اس طرح کے دھرنوں کے تسلسل سے غیر شیعہ عوام الناس میں ان کی ہمدردیاں بڑھیں گی یا کم ہوں گی۔ دہشت گردی کی ان کاروائیون کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ عوام الناس کی۔ لہٰذا احتجاج بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے سامنے کیا جائے اور ان ایوانوں مین بیٹھے اپنے ہم مسلک رہنماؤں کو غیرت دلائی جائے کہ تمہارے حکومت مین ہونے کے باوجود شیعہ عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار محمد حنیف نے بالکل درست کہا تھا کہ ہماری قومی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اقلیتوں پر حملے کا غم صرف اقلیتوں کو ہوتا ہے، جبکہ دوسرے صرف اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کب یہ احتجاج وغیرہ ختم کریں تاکہ ہم اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر اسکول بھیج سکیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ سانحہ کوئٹہ کولوگوں نے غلط طور پر کیوں فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا پس منظر شیعہ سنی جھگڑا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ وہاں ”پاکستان سے آزادی“ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اور اس جنگ میں ”مجاہدین آزادی“ کی راہ میں دو ہی قوتیں حائل ہیں۔ ایک سیکیوریٹی فورسز اور دوسرے وہ محب وطن اورپاکستان کے حامی ”پنجابی آبادکار“ جو عشروں سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور اُن کا جینا مرنا بلوچستان میں ہے۔ ہزارہ برادری کا ”اصل جرم پنجابی“ ہونا ہے، نہ کہ شیعہ ہونا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب سے باہر کے عوام پنجابی، سرائیکی، ہزارہ برادری سب کو صرف اور صرف ”پنجابی“ ہی سمجھتے ہیں۔ اور جن جن صوبوں اور علاقوں میں پاکستان سے ”آزادی کی تحریک“ چل رہی ہے وہاں کے ”مجاہدین آزادی“ کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دشمن ”فوج اور پنجابی“ ہی ہے۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں بھی چن چن کر فوجیوں اور پنجابیوں کو مارا جارہاتھا۔ اور آج یہی کام بلوچستان میں ہورہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جئے سندھ اور جئے مہاجر کے زیر اثر حلقوں اور علاقوں میں بھی فوج اورپنجابی ایک ”گالی“ ہے۔ ذرا ان حلقوں اور علاقوں میں عشروں سے آباد پنجابیوں کے دل سے پوچھئے کہ ”شہر میں ان کی آبرو کیا ہے“۔ اکثر لوگوں کا اب پنجاب میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی سالوں بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے پنجاب جاتے بھی ہیں تو ایک ”اجنبی مہمان“ کی طرح وہاں چند دن گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ ان پنجابی گھرانوں کے بچوں کو پنجابی بولنی تک نہیں آتی۔ ان کا رہن سہن ”پنجابیوں“ سے جدا اور ”مقامی رنگ ڈنگ“ والا ہوچکا ہے۔ یہ بچے اب پنجاب میں خود کو ”مس فٹ“ پاتے ہیں۔ اور اپنے ”موجودہ مقامات“ پر ”دشمن“ قرار پاتے ہیں کہ کوئی پنجابی انفرادی طور پر خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، کبھی بھی ”اینٹی پاکستان“ نہیں ہوسکتا اور وہ ہر صورت میں آزاد بلوچستان، آزاد سندھ، آزاد جناح پور کا مخالف ہی رہے گا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کو اہل تشعیع کے خلاف کاروائی نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی مجھے بتلائے کہ کیا بلوچستان میں ”مقامی اہل تشعیع“ نہیں پائے جاتے۔ اب تک کتنے بلوچی شیعہ مارے گئے ہیں؟ خدارا بلوچستان کے اصل مسئلہ کو سمجھئے۔ لوگون کی توجہ ”فرقہ وارانہ لڑائی“ کی طرف مبذول کراکے بی ایل اے والے اور ان کے بیرونی سرپرست کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اُس طرف نظر رکھئے۔ جذباتی شیعہ عوام بھی یہ ضرور سوچیں کہ وہ پاکستان میں غیر شیعہ عوام الناس کے ساتھ رہتے بستے، کام کرتے ہیں۔ کیا کبھی انہیں اپنے غیر شیعہ پڑوسی،ساتھ کام کرنے والے، کلاس فیلو وغیرہ سے ”خوف“ محسوس ہوا ہے کہ وہ انہیں قتل کردینا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں (دینی اختلاف رائے تھا، ہے اور رہے گا)۔ اس وقت ملک اور صوبوں کے بیشتر اہم مناصب پر شیعہ برادری کے افراد کام کررہے ہیں۔ ایسے میں بحیثیت ایک برادری، ان کا حکومت کے خلاف عوامی مقامات میں دھرنا دینا چہ معنی دارد؟ اس طرح کے دھرنوں کے تسلسل سے غیر شیعہ عوام الناس میں ان کی ہمدردیاں بڑھیں گی یا کم ہوں گی۔ دہشت گردی کی ان کاروائیون کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ عوام الناس کی۔ لہٰذا احتجاج بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے سامنے کیا جائے اور ان ایوانوں مین بیٹھے اپنے ہم مسلک رہنماؤں کو غیرت دلائی جائے کہ تمہارے حکومت مین ہونے کے باوجود شیعہ عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔

بڑا غیر جانب دارانہ اور عقلمندانہ تبصرہ ہے کہ روڈ بند کرنے والوں کو تو مطعون ٹہرایا جاتا ہے جبکہ قتل کرنے والوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ لشکر جھنگوی والے کون لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں؟ اور یہ کوئی فرقہ وارانہ لڑائی بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں پر کیل کانٹے سے لیس ایک دہشت گرد گروہ بے گناہ اور نہتے لوگوں کو قتل کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کو کسی فرقے سے نتھی کیا جائے۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
 

حسان خان

لائبریرین
اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔

آمین، ثم آمین۔ خدا میرے ملک کو ابد تک سلامت رکھے۔
لیکن ذرا اس پہلو سے بھی مسئلے کو دیکھیے گا۔ :)
24311_10151521055995917_1354770427_n.png
 

کاشفی

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ سانحہ کوئٹہ کولوگوں نے غلط طور پر کیوں فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا پس منظر شیعہ سنی جھگڑا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ وہاں ”پاکستان سے آزادی“ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اور اس جنگ میں ”مجاہدین آزادی“ کی راہ میں دو ہی قوتیں حائل ہیں۔ ایک سیکیوریٹی فورسز اور دوسرے وہ محب وطن اورپاکستان کے حامی ”پنجابی آبادکار“ جو عشروں سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور اُن کا جینا مرنا بلوچستان میں ہے۔ ہزارہ برادری کا ”اصل جرم پنجابی“ ہونا ہے، نہ کہ شیعہ ہونا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب سے باہر کے عوام پنجابی، سرائیکی، ہزارہ برادری سب کو صرف اور صرف ”پنجابی“ ہی سمجھتے ہیں۔ اور جن جن صوبوں اور علاقوں میں پاکستان سے ”آزادی کی تحریک“ چل رہی ہے وہاں کے ”مجاہدین آزادی“ کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دشمن ”فوج اور پنجابی“ ہی ہے۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں بھی چن چن کر فوجیوں اور پنجابیوں کو مارا جارہاتھا۔ اور آج یہی کام بلوچستان میں ہورہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جئے سندھ اور جئے مہاجر کے زیر اثر حلقوں اور علاقوں میں بھی فوج اورپنجابی ایک ”گالی“ ہے۔ ذرا ان حلقوں اور علاقوں میں عشروں سے آباد پنجابیوں کے دل سے پوچھئے کہ ”شہر میں ان کی آبرو کیا ہے“۔ اکثر لوگوں کا اب پنجاب میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی سالوں بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے پنجاب جاتے بھی ہیں تو ایک ”اجنبی مہمان“ کی طرح وہاں چند دن گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ ان پنجابی گھرانوں کے بچوں کو پنجابی بولنی تک نہیں آتی۔ ان کا رہن سہن ”پنجابیوں“ سے جدا اور ”مقامی رنگ ڈنگ“ والا ہوچکا ہے۔ یہ بچے اب پنجاب میں خود کو ”مس فٹ“ پاتے ہیں۔ اور اپنے ”موجودہ مقامات“ پر ”دشمن“ قرار پاتے ہیں کہ کوئی پنجابی انفرادی طور پر خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، کبھی بھی ”اینٹی پاکستان“ نہیں ہوسکتا اور وہ ہر صورت میں آزاد بلوچستان، آزاد سندھ، آزاد جناح پور کا مخالف ہی رہے گا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کو اہل تشعیع کے خلاف کاروائی نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی مجھے بتلائے کہ کیا بلوچستان میں ”مقامی اہل تشعیع“ نہیں پائے جاتے۔ اب تک کتنے بلوچی شیعہ مارے گئے ہیں؟ خدارا بلوچستان کے اصل مسئلہ کو سمجھئے۔ لوگون کی توجہ ”فرقہ وارانہ لڑائی“ کی طرف مبذول کراکے بی ایل اے والے اور ان کے بیرونی سرپرست کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اُس طرف نظر رکھئے۔ جذباتی شیعہ عوام بھی یہ ضرور سوچیں کہ وہ پاکستان میں غیر شیعہ عوام الناس کے ساتھ رہتے بستے، کام کرتے ہیں۔ کیا کبھی انہیں اپنے غیر شیعہ پڑوسی،ساتھ کام کرنے والے، کلاس فیلو وغیرہ سے ”خوف“ محسوس ہوا ہے کہ وہ انہیں قتل کردینا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں (دینی اختلاف رائے تھا، ہے اور رہے گا)۔ اس وقت ملک اور صوبوں کے بیشتر اہم مناصب پر شیعہ برادری کے افراد کام کررہے ہیں۔ ایسے میں بحیثیت ایک برادری، ان کا حکومت کے خلاف عوامی مقامات میں دھرنا دینا چہ معنی دارد؟ اس طرح کے دھرنوں کے تسلسل سے غیر شیعہ عوام الناس میں ان کی ہمدردیاں بڑھیں گی یا کم ہوں گی۔ دہشت گردی کی ان کاروائیون کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ عوام الناس کی۔ لہٰذا احتجاج بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے سامنے کیا جائے اور ان ایوانوں مین بیٹھے اپنے ہم مسلک رہنماؤں کو غیرت دلائی جائے کہ تمہارے حکومت مین ہونے کے باوجود شیعہ عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔

آج کل بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو یزیدی قوتیں شہید کر رہی ہیں۔۔۔ اور ان یزیدی قوتوں کو سپورٹ کرنے والے اسی طرح کے کالم لکھنے والے اور نواز شریف اور شہباز شریف کے چاہنے والے ہیں۔۔
بلوچستان اور کہیں بھی پنجابی ہونا گالی نہیں۔۔۔اور نہ ہی سندھی پختون، مہاجر یا بلوچ پنجابیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔پنجاب سے بھی وہی لوگ غلط لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جن کا ذہن یزیدیت سے بلیک آؤٹ ہوا ہوتا ہے۔۔۔
ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں نے کبھی بھی خود کو پنجابی نہیں کہا۔۔وہ بلوچ ہیں اور بلوچستان کو اوون کرتے ہیں۔۔پنجاب کو نہیں۔۔لیکن لشکرِ جھنگوی پنجاب کو اوون کرتی ہے۔۔اور حکومت پنجاب اس کو بچاتی ہے۔۔
شیعانِ علی جہاں جہاں ہیں وہ انسانیت کے ساتھ ساتھ وہاں وہاں کو بھی اوون کرتے ہیں۔۔۔چاہے وہ کوئی سی زبان بولیں یا کوئی سا بھی اوریجن رکھیں۔۔ان کے قتل عام کو لسانی رنگ دینا بہت ہی غلط حرکت اور غلط اقدام ہے۔۔ اللہ رب العزت بنی نوع انسان کو فتنہء یزیدیت اور یزیدی ذہن سے بچا کر منور و پاک کرے۔۔آمین۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی بات ہو، کوئی ہنگامہ ہو، کوئی دھماکہ ہو، کوئی واقعہ ہو، کاشفی کی تان شریف برادران اور پنجاب پر آ کر ٹوٹتی ہے۔

ارے بھائی نفرت میں اتنا بھی اندھا نہیں ہونا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کاش ہمارے دردمند اور ذی حس مردانِ اسلام و حامیانِ پاکستان کو غریبوں کی یومیہ آمدنی، شاہراہِ عام کی بندش، ہسپتالوں میں پھنسے مریضوں، ملک کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال، دوسروں پر منفی تاثر اور بیرونی سازشوں کا خیال اُس وقت بھی آیا ہوتا جب ہمارے پُرامن اور میٹھے میٹھے اسلامی بھائی برما کے مظلوم مومن برادران اور گستاخانہ خاکوں کے لیے ہلکان ہو رہے تھے اور سرِ عام سنیما گھروں جیسے شیطانی اڈوں کو نذرِ آتش کر رہے تھے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے مذموم اقدام کرتے تو لعین کفار ہیں، لیکن یہ مسلمان بھائی اُن کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے ہم بے گناہ عوام الناس سے ہی ان کا بدلہ لیتے ہیں۔ لیکن کیا کریں، چونکہ وہ اپنے جذبۂ ایمانی سے مجبور ہو کر یہ سب کرتے ہیں، اس لیے محال ہے جو ہم اُنہیں جذباتی یا غیر منطقی ہونے کا طعنہ دیں۔
 
Top