اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ سانحہ کوئٹہ کولوگوں نے غلط طور پر کیوں فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا پس منظر شیعہ سنی جھگڑا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ وہاں ”پاکستان سے آزادی“ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اور اس جنگ میں ”مجاہدین آزادی“ کی راہ میں دو ہی قوتیں حائل ہیں۔ ایک سیکیوریٹی فورسز اور دوسرے وہ محب وطن اورپاکستان کے حامی ”پنجابی آبادکار“ جو عشروں سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور اُن کا جینا مرنا بلوچستان میں ہے۔ ہزارہ برادری کا ”اصل جرم پنجابی“ ہونا ہے، نہ کہ شیعہ ہونا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب سے باہر کے عوام پنجابی، سرائیکی، ہزارہ برادری سب کو صرف اور صرف ”پنجابی“ ہی سمجھتے ہیں۔ اور جن جن صوبوں اور علاقوں میں پاکستان سے ”آزادی کی تحریک“ چل رہی ہے وہاں کے ”مجاہدین آزادی“ کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دشمن ”فوج اور پنجابی“ ہی ہے۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں بھی چن چن کر فوجیوں اور پنجابیوں کو مارا جارہاتھا۔ اور آج یہی کام بلوچستان میں ہورہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جئے سندھ اور جئے مہاجر کے زیر اثر حلقوں اور علاقوں میں بھی فوج اورپنجابی ایک ”گالی“ ہے۔ ذرا ان حلقوں اور علاقوں میں عشروں سے آباد پنجابیوں کے دل سے پوچھئے کہ ”شہر میں ان کی آبرو کیا ہے“۔ اکثر لوگوں کا اب پنجاب میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی سالوں بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے پنجاب جاتے بھی ہیں تو ایک ”اجنبی مہمان“ کی طرح وہاں چند دن گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ ان پنجابی گھرانوں کے بچوں کو پنجابی بولنی تک نہیں آتی۔ ان کا رہن سہن ”پنجابیوں“ سے جدا اور ”مقامی رنگ ڈنگ“ والا ہوچکا ہے۔ یہ بچے اب پنجاب میں خود کو ”مس فٹ“ پاتے ہیں۔ اور اپنے ”موجودہ مقامات“ پر ”دشمن“ قرار پاتے ہیں کہ کوئی پنجابی انفرادی طور پر خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، کبھی بھی ”اینٹی پاکستان“ نہیں ہوسکتا اور وہ ہر صورت میں آزاد بلوچستان، آزاد سندھ، آزاد جناح پور کا مخالف ہی رہے گا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کو اہل تشعیع کے خلاف کاروائی نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی مجھے بتلائے کہ کیا بلوچستان میں ”مقامی اہل تشعیع“ نہیں پائے جاتے۔ اب تک کتنے بلوچی شیعہ مارے گئے ہیں؟ خدارا بلوچستان کے اصل مسئلہ کو سمجھئے۔ لوگون کی توجہ ”فرقہ وارانہ لڑائی“ کی طرف مبذول کراکے بی ایل اے والے اور ان کے بیرونی سرپرست کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اُس طرف نظر رکھئے۔ جذباتی شیعہ عوام بھی یہ ضرور سوچیں کہ وہ پاکستان میں غیر شیعہ عوام الناس کے ساتھ رہتے بستے، کام کرتے ہیں۔ کیا کبھی انہیں اپنے غیر شیعہ پڑوسی،ساتھ کام کرنے والے، کلاس فیلو وغیرہ سے ”خوف“ محسوس ہوا ہے کہ وہ انہیں قتل کردینا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں (دینی اختلاف رائے تھا، ہے اور رہے گا)۔ اس وقت ملک اور صوبوں کے بیشتر اہم مناصب پر شیعہ برادری کے افراد کام کررہے ہیں۔ ایسے میں بحیثیت ایک برادری، ان کا حکومت کے خلاف عوامی مقامات میں دھرنا دینا چہ معنی دارد؟ اس طرح کے دھرنوں کے تسلسل سے غیر شیعہ عوام الناس میں ان کی ہمدردیاں بڑھیں گی یا کم ہوں گی۔ دہشت گردی کی ان کاروائیون کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ عوام الناس کی۔ لہٰذا احتجاج بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے سامنے کیا جائے اور ان ایوانوں مین بیٹھے اپنے ہم مسلک رہنماؤں کو غیرت دلائی جائے کہ تمہارے حکومت مین ہونے کے باوجود شیعہ عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔
مجھے حیرت ہے کہ سانحہ کوئٹہ کولوگوں نے غلط طور پر کیوں فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا پس منظر شیعہ سنی جھگڑا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ وہاں ”پاکستان سے آزادی“ کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اور اس جنگ میں ”مجاہدین آزادی“ کی راہ میں دو ہی قوتیں حائل ہیں۔ ایک سیکیوریٹی فورسز اور دوسرے وہ محب وطن اورپاکستان کے حامی ”پنجابی آبادکار“ جو عشروں سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور اُن کا جینا مرنا بلوچستان میں ہے۔ ہزارہ برادری کا ”اصل جرم پنجابی“ ہونا ہے، نہ کہ شیعہ ہونا۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب سے باہر کے عوام پنجابی، سرائیکی، ہزارہ برادری سب کو صرف اور صرف ”پنجابی“ ہی سمجھتے ہیں۔ اور جن جن صوبوں اور علاقوں میں پاکستان سے ”آزادی کی تحریک“ چل رہی ہے وہاں کے ”مجاہدین آزادی“ کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دشمن ”فوج اور پنجابی“ ہی ہے۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں بھی چن چن کر فوجیوں اور پنجابیوں کو مارا جارہاتھا۔ اور آج یہی کام بلوچستان میں ہورہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جئے سندھ اور جئے مہاجر کے زیر اثر حلقوں اور علاقوں میں بھی فوج اورپنجابی ایک ”گالی“ ہے۔ ذرا ان حلقوں اور علاقوں میں عشروں سے آباد پنجابیوں کے دل سے پوچھئے کہ ”شہر میں ان کی آبرو کیا ہے“۔ اکثر لوگوں کا اب پنجاب میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی سالوں بعد وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے پنجاب جاتے بھی ہیں تو ایک ”اجنبی مہمان“ کی طرح وہاں چند دن گزار کر واپس آجاتے ہیں۔ ان پنجابی گھرانوں کے بچوں کو پنجابی بولنی تک نہیں آتی۔ ان کا رہن سہن ”پنجابیوں“ سے جدا اور ”مقامی رنگ ڈنگ“ والا ہوچکا ہے۔ یہ بچے اب پنجاب میں خود کو ”مس فٹ“ پاتے ہیں۔ اور اپنے ”موجودہ مقامات“ پر ”دشمن“ قرار پاتے ہیں کہ کوئی پنجابی انفرادی طور پر خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، کبھی بھی ”اینٹی پاکستان“ نہیں ہوسکتا اور وہ ہر صورت میں آزاد بلوچستان، آزاد سندھ، آزاد جناح پور کا مخالف ہی رہے گا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کو اہل تشعیع کے خلاف کاروائی نہ سمجھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی مجھے بتلائے کہ کیا بلوچستان میں ”مقامی اہل تشعیع“ نہیں پائے جاتے۔ اب تک کتنے بلوچی شیعہ مارے گئے ہیں؟ خدارا بلوچستان کے اصل مسئلہ کو سمجھئے۔ لوگون کی توجہ ”فرقہ وارانہ لڑائی“ کی طرف مبذول کراکے بی ایل اے والے اور ان کے بیرونی سرپرست کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، اُس طرف نظر رکھئے۔ جذباتی شیعہ عوام بھی یہ ضرور سوچیں کہ وہ پاکستان میں غیر شیعہ عوام الناس کے ساتھ رہتے بستے، کام کرتے ہیں۔ کیا کبھی انہیں اپنے غیر شیعہ پڑوسی،ساتھ کام کرنے والے، کلاس فیلو وغیرہ سے ”خوف“ محسوس ہوا ہے کہ وہ انہیں قتل کردینا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں (دینی اختلاف رائے تھا، ہے اور رہے گا)۔ اس وقت ملک اور صوبوں کے بیشتر اہم مناصب پر شیعہ برادری کے افراد کام کررہے ہیں۔ ایسے میں بحیثیت ایک برادری، ان کا حکومت کے خلاف عوامی مقامات میں دھرنا دینا چہ معنی دارد؟ اس طرح کے دھرنوں کے تسلسل سے غیر شیعہ عوام الناس میں ان کی ہمدردیاں بڑھیں گی یا کم ہوں گی۔ دہشت گردی کی ان کاروائیون کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ عوام الناس کی۔ لہٰذا احتجاج بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے سامنے کیا جائے اور ان ایوانوں مین بیٹھے اپنے ہم مسلک رہنماؤں کو غیرت دلائی جائے کہ تمہارے حکومت مین ہونے کے باوجود شیعہ عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ اس کے بجائے شاہراہ عام کو بند کرنا، ریلوے تریک پر دھرنا دینا، ہوائی اڈہ کو آنے جانے والے راستوں پر دھرنا دینے کا کیا جواز ہے۔ کیا شیعہ برادری کو اس غیر منطقی راہ پر لے جانے والے، خود ان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہے۔ عوام الناس میں ان کا منفی تاثر نہیں پھیلا رہے کہ انہین مارتا تو کوئی نامعلوم دہشت گرد، ملک دشمن ایجنٹ وغیرہ ہے۔ لیکن یہ اس کا ”بدلہ“ ہم بے گناہ عوام الناس سے اس طرح لیتے ہیں کہ شہر کے شہر کو سیل کردیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کروادیتے ہیں، ہسپتالوں کو جانا مشکل کردیتے ہیں اور غریب کی یومیہ آمدن کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنے اصل دشمن، پاکستان کو توڑنے کے درپے عناصر کے خلاف متحد ہونے کی توفیق عطا کرے آمین۔