خُدا سے کارِ جہاں چلا ہے غزل نمبر 161 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
مَفاعلاتن مَفاعلاتن
خُدا سے کارِ جہاں چلا ہے
کہ تِیر کب بے کماں چلا ہے

رُکا نہیں ہے جُھکا نہیں ہے
کہ عِشق کا کارواں چلا ہے

مجھے محبت کا درد دے کر
کہاں تُو اے مہرباں چلا ہے

انہیں بھی شاید ہے مُجھ سے اُلفت
عجیب دِل میں گُماں چلا ہے

غموں کے بادل بنیں گے اوپر
نِکل کے دِل سے دُھواں چلا ہے

یقین کامِل رفیق گر تھا
رقیب کیوں درمیاں چلا ہے

تُجھے محبت ہے کیوں زمیں سے
دِماغ کیا آسماں چلا ہے

بہار افسردہ ہے چمن میں
یہ کیسا دورِ خِزاں چلا ہے

کڑکتی بِجلی سے اِک پرندہ
بچانے کو آشیاں چلا ہے

خطا کا پُتلا عجیب انساں
اُچھالنے پگڑیاں چلا ہے

خُدا اُسے کامیاب کردے
مِٹانے جو دُوریاں چلا ہے

کسی کو بخشا نہیں ہے اس نے
جو موت آئی جواں چلا ہے

اندھیری راتوں میں ایک جگنو
کمانے کُچھ نیکیاں چلا ہے

اے شاعرِ خُوش کلام
شارؔق
اُداس کر کے کہاں چلا ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
خُدا سے کارِ جہاں چلا ہے
کہ تِیر کب بے کماں چلا ہے
واہ۔ماشاءاللہ۔
رُکا نہیں ہے جُھکا نہیں ہے
کہ عِشق کا کارواں چلا ہے
درست
مجھے محبت کا درد دے کر
کہاں تُو اے مہرباں چلا ہے
واہ۔
انہیں بھی شاید ہے مُجھ سے اُلفت
عجیب دِل میں گُماں چلا ہے
گماں چلنا محاورہ نہیں۔
غموں کے بادل بنیں گے اوپر
نِکل کے دِل سے دُھواں چلا ہے
واہ
یقین کامِل رفیق گر تھا
رقیب کیوں درمیاں چلا ہے
خوب۔
تُجھے محبت ہے کیوں زمیں سے
دِماغ کیا آسماں چلا ہے

آسماں چلا؟

بہار افسردہ ہے چمن میں
یہ کیسا دورِ خِزاں چلا ہے
واہ۔
کڑکتی بِجلی سے اِک پرندہ
بچانے کو آشیاں چلا ہے
خوب


خطا کا پُتلا عجیب انساں
اُچھالنے پگڑیاں چلا ہے
"عجیب" کے بجائے "ہے خود بھی" کر دیں۔
خُدا اُسے کامیاب کردے
مِٹانے جو دُوریاں چلا ہے
واہ
کسی کو بخشا نہیں ہے اس نے
جو موت آئی جواں چلا ہے
یہ بھی اچھا ہے۔
اندھیری راتوں میں ایک جگنو
کمانے کُچھ نیکیاں چلا ہے
درست



اے شاعرِ خُوش کلام شارؔق
اُداس کر کے کہاں چلا ہے

"اے" کی جگہ "او" کر دیں کہ "او" کو چھوٹی آواز میں باندھتے ایک آدھ شعرا کو دیکھا ہے۔
مجموعی طور پہ ا چھی غزل ہے۔شاباش۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خُدا سے کارِ جہاں چلا ہے
کہ تِیر کب بے کماں چلا ہے
واہ۔ماشاءاللہ۔
یاسر بھائی یہ شعر مجھے غلط سمجھ آ رہا ہے کیا؟
خدا سے کارِ جہاں چلا ہے جیسے تیر کمان سے چلا ہے
تیر تو کسی کے چلائے بغیر چلنے کا تو نہیں۔ اور اوپر والے مصرع میں بعینہ اسی انداز کو لیا جائے۔ پھر تو مطلب کہیں کا کہیں جا پڑتا ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی یہ شعر مجھے غلط سمجھ آ رہا ہے کیا؟
خدا سے کارِ جہاں چلا ہے جیسے تیر کمان سے چلا ہے
تیر تو کسی کے چلائے بغیر چلنے کا تو نہیں۔ اور اوپر والے مصرع میں بعینہ اسی انداز کو لیا جائے۔ پھر تو مطلب کہیں کا کہیں جا پڑتا ہے۔
اور فلسفیانہ انداز میں سوچنے سے مزید نقائص بھی پیدا ہوتے ہیں جیسے تیر چل گیا تو چل گیا۔اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔لیکن سطحی طور پہ لیں تو ایک عامیانہ دلیل لگتی ہے کہ کار جہاں کو کوئی چلانے والا ہے جیسے تیر کو کمان چلاتی ہے۔مبتدیانہ دلیل ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
رُکا نہیں ہے جُھکا نہیں ہے
کہ عِشق کا کارواں چلا ہے
اگرچہ یاسر نے درست قرار دیا ہے شاید انہوں نے تقابل ردیفین کو گوارا قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کارواں جھکنا بھی محاورہ کے خلاف لگتا ہے

تُجھے محبت ہے کیوں زمیں سے
دِماغ کیا آسماں چلا ہے
.. میرے خیال میں یہاں قافیے کی نشست کی وجہ سے فاصلہ اتنا ہوگیا ہے کہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا، یعنی اے آسماں! کیا( تیرا) دماغ چلا( چل گیا) ہے؟ اس تعقید سے بچو
خطا کا پُتلا عجیب انساں
... یاسر کا مشورہ بھی اچھا ہے لیکن مجھے "خود بھی" کی بہ نسبت "خود ہی" بہتر لگتا ہے۔
باقی یاسر نے اصلاح کر ہی دی ہے
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ سر آپ دونوں حضرات کا بہت شکریہ اصلاح اور پسندیدگی کے لئے، کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔
محمد عبدالرؤوف بھائی مطلع کو آپ نے شاید کسی اور زاویے سے سوچا تھا یاسر بھائی نے اچھے انداز میں سمجھایا یہاں یہی مراد تھی کہ جہاں کا نظام خودبخود نہیں چل رہا ، چلانے والا کوئی ہے اور وہ خدائے بزرگ کی ذات ہے،بغیر چلائے تو ایک تیر بھی کمان کے بنا نہیں چل سکتا۔۔۔
خُدا سے کارِ جہاں چلا ہے
کہ تِیر کب بے کماں چلا ہے


جُھکا کو ڈرا کر سکتے ہیں خلاف محاورہ سے بچنے کے لئے
رُکا نہیں ہے ڈرا نہیں ہے
کہ عِشق کا کارواں چلا ہے

اور تقابل ردیفین سے بچنے کے لئے یوں بھی کیا جاسکتا ہے کیا بہتر رہے گا دونوں میں۔
نہیں ڈرے گا نہیں رُکے گا
کہ عِشق کا کارواں چلا ہے


الف عین سر بالکل ٹھیک کہا آپ نے یہاں آسمان سے مخاطب ہوں کہ تیرا دماغ چل گیا ہے جو تو زمین سے محبت کرتا ہے تو کہاں اور زمین کی کیا حیثیت، دنیاوی اعتبار سے اس شعر کو لیا جائے تو اونچے اور نیچے خاندان یا ذات مراد ہے یہاں۔۔
تُجھے محبت ہے کیوں زمیں سے
دِماغ کیا آسماں چلا ہے


اصلاح کے بعد۔۔
خطا کا پُتلا ہے خود ہی انساں
اُچھالنے پگڑیاں چلا ہے


یاسر شاہ سر آپکی اصلاح کے بعد۔
او شاعرِ خُوش کلام شارؔق
اُداس کر کے کہاں چلا ہے
 

الف عین

لائبریرین
عشق کے کارواں کو روک ہی دو، چلا ہے بھی محاورہ نہیں، چل دیا ہے ہونا تھا۔
آسماں والے شعر میں درست اوقاف لگاؤ
دماغ کیا، آسماں! ، چلا ہے
 
Top