ملک حبیب
محفلین
مجھے جس دَم خیالِ نرگسِ مستانہ آتا ہے
بڑی مشکل سے قابو میں دِلِ دیوانہ آتا ہے
مزہ دیتا ہے جب بادل سوئے میخانہ آتا ہے
صُراحی جھومتی ہے وجد میں پیمانہ آتا ہے
بہارِ جام و مینا بس گئی ہے ایسی آنکھوں میں
جدھر جاؤں جدھر دیکھوں نظر میخانہ آتا ہے
فِراقِ یار سے بڑھ کر وِصالِ یار آفت ہے
قریبِ شمع مرنے کے لئے پروانہ آتا ہے
گھٹا کو دیکھ کر رِندوں کے دِل لہرائے جاتے ہیں
گھٹا آتی ہے ساقی یا کوئی میخانہ آتا ہے
تری محفل کو میں اے شمع رُو مقتل سمجھتا ہوں
پلٹ کر پھر نہیں جاتا ہے جو پروانہ آتا ہے
مرے جانے پہ اُٹھ جاتی ہے فوراً آنکھ ساقی کی
وہ میکش ہوں کہ اِستقبال کو میخانہ آتا ہے
جُنوں انگیز کیا آب و ہوا ہے کوئے جاناں کی
کہ جاتا ہے جو عاقل ہو کے وہ دیوانہ آتا ہے
مری توبہ ہے ایسی جسکو خود توبہ کی حاجت ہے
بدل جاتی ہے نیت یاد جب میخانہ آتا ہے
صدائے قُلقُلِ مینا جتاتی ہے یہ رندوں کو
کہ ہوش اپنے سنبھالو دور میں پیمانہ آتا ہے
مچلنا رُوٹھنا بے چین دِل کا اِک تماشہ ہے
یہ وہ عاشق ہے جس کو نازِ معشوقانہ آتا ہے
بہار آنے پہ سب لیتے ہیں رستہ باغ و صحرا کا
جو کچھ بھی ہوش رکھتا ہے سُوئے میخآنہ آتا ہے
کوئی ساغر بکف ہے کوئی محوِ چشمِ ساقی ہے
ہمارے ہاتھ دیکھیں کونسا پیمانہ آتا ہے
تجھے تو شوقِ مے نوشی ہے مجھ کو رشک اسکا ہے
ترا منہ چومنے کو دم بدم پیمانہ آتا ہے
مزے لیتے ہوئے جاتے ہیں تیرے مست کعبے کو
ٹھہر جاتے ہیں رستے میں جہاں میخانہ آتا ہے
مشیّت جب یونہی ٹھہری تو میری کیا خطا ناصح
حرم کو ڈھونڈتا ہوں سامنے بُتخانہ آتا ہے
حواس آئے ہوئے پھر کھو دئے لیلٰی نے مجنوں کے
یہ کہنا تازیانہ تھا مرا دیوانہ آتا ہے
رسائی کی ہوس تجھ کو ہے اے دِل سوچ لے اِتنا
کہ زُلفِ یار تک صد چاک ہو کر شانہ آتا ہے
جلیل اس سے پتہ چلتا ہے دِل کی بیقراری کا
کہ لب پر شعر جو آتا ہے بےتابانہ آتا ہے
کلام حافظ جلیل حسن مانک پوری
بڑی مشکل سے قابو میں دِلِ دیوانہ آتا ہے
مزہ دیتا ہے جب بادل سوئے میخانہ آتا ہے
صُراحی جھومتی ہے وجد میں پیمانہ آتا ہے
بہارِ جام و مینا بس گئی ہے ایسی آنکھوں میں
جدھر جاؤں جدھر دیکھوں نظر میخانہ آتا ہے
فِراقِ یار سے بڑھ کر وِصالِ یار آفت ہے
قریبِ شمع مرنے کے لئے پروانہ آتا ہے
گھٹا کو دیکھ کر رِندوں کے دِل لہرائے جاتے ہیں
گھٹا آتی ہے ساقی یا کوئی میخانہ آتا ہے
تری محفل کو میں اے شمع رُو مقتل سمجھتا ہوں
پلٹ کر پھر نہیں جاتا ہے جو پروانہ آتا ہے
مرے جانے پہ اُٹھ جاتی ہے فوراً آنکھ ساقی کی
وہ میکش ہوں کہ اِستقبال کو میخانہ آتا ہے
جُنوں انگیز کیا آب و ہوا ہے کوئے جاناں کی
کہ جاتا ہے جو عاقل ہو کے وہ دیوانہ آتا ہے
مری توبہ ہے ایسی جسکو خود توبہ کی حاجت ہے
بدل جاتی ہے نیت یاد جب میخانہ آتا ہے
صدائے قُلقُلِ مینا جتاتی ہے یہ رندوں کو
کہ ہوش اپنے سنبھالو دور میں پیمانہ آتا ہے
مچلنا رُوٹھنا بے چین دِل کا اِک تماشہ ہے
یہ وہ عاشق ہے جس کو نازِ معشوقانہ آتا ہے
بہار آنے پہ سب لیتے ہیں رستہ باغ و صحرا کا
جو کچھ بھی ہوش رکھتا ہے سُوئے میخآنہ آتا ہے
کوئی ساغر بکف ہے کوئی محوِ چشمِ ساقی ہے
ہمارے ہاتھ دیکھیں کونسا پیمانہ آتا ہے
تجھے تو شوقِ مے نوشی ہے مجھ کو رشک اسکا ہے
ترا منہ چومنے کو دم بدم پیمانہ آتا ہے
مزے لیتے ہوئے جاتے ہیں تیرے مست کعبے کو
ٹھہر جاتے ہیں رستے میں جہاں میخانہ آتا ہے
مشیّت جب یونہی ٹھہری تو میری کیا خطا ناصح
حرم کو ڈھونڈتا ہوں سامنے بُتخانہ آتا ہے
حواس آئے ہوئے پھر کھو دئے لیلٰی نے مجنوں کے
یہ کہنا تازیانہ تھا مرا دیوانہ آتا ہے
رسائی کی ہوس تجھ کو ہے اے دِل سوچ لے اِتنا
کہ زُلفِ یار تک صد چاک ہو کر شانہ آتا ہے
جلیل اس سے پتہ چلتا ہے دِل کی بیقراری کا
کہ لب پر شعر جو آتا ہے بےتابانہ آتا ہے
کلام حافظ جلیل حسن مانک پوری